Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Tauseef Rehmat
  4. Aur Taali Baj Gayi

Aur Taali Baj Gayi

اور تالی بج گئی

صبح صبح سکول جانے سے قبل پانچ منٹ کے کارٹون دیکھنے والی خوشی اور چاچا (مستنصر حسین تارڑ) کے "بیبے بچوں" کی اصطلاح کا لطف بھلائے نہیں بھولتا۔ اس دور کی تفریحات میں سے ایک جدید کشتی (ریسلنگ) بھی تھی۔ جب سارے ہی ہوگن اور ہٹ مین جیسوں کے دیوانے تھے۔ اس عمر کے فہم کے مطابق اس جدید کشتی میں سب سے دلچسپ موقع تب آتا تھا جب ایک پہلوان دوسرے کو گرا کے ریفری کی طرف دیکھتا اور ریفری چاہے کسی بھی کونے میں ہوتا، وہ وہیں سے لپکتا اور پھسلتا ہوا کہیں سے آن دھمکتا اور پھر اپنے دائیں ہاتھ کو گدے (میٹریس) پہ تین بار مارتا کہ جیت کا اعلان کیا جا سکے۔

کبھی تو ٹٹھا (نیچے گرا ہوا) پہلوان پہلی بار ہی میں اٹھ جاتا اور کبھی مقابلے کو سنسنی خیز بنانے کے لئے دوسری اور بسا اوقات تیسری تالی سے فوری پہلے وہ ایک کندھا اٹھا لیتا اور یوں مقابلہ فوری اختتام سے بچ جاتا۔ ہر کوئی یہی چاہتا تھا کہ اس کا من پسند پہلوان ہار نہ جائے بلکہ ہر دفعہ جب ریفری تالی مارنے آئے تو ہمارا پسندیدہ پہلوان فوراً اٹھ جائے اور مقابلہ اس کی جیت ہی کے منطقی انجام تک پہنچے۔

فہم کی چند سیڑھیاں چڑھی تو پتا چلا کہ کتنے بیس کا سو ہوتا ہے؟ تالی صرف کشتی کے مقابلے میں ریفری ہی نہیں مارتا بلکہ کبھی کبھی یہ تالی قسمت بھی مارتی ہے۔ زندگی کا میچ بہت اچھا چل رہا ہوتا ہے کہیں سے کوئی آزمائش، کوئی چنتا، کوئی پریشانی، کوئی الجھن، کوئی اڑچن، کوئی پچھل پیری نجانے کہاں سے آن ٹپکتی ہے۔ پہلے پہل وہ منجھے ہوئے پہلوان کی طرح ہمیں دوڑاتی ہے تا کہ زیادہ تر توانائی پہلے مرحلے ہی میں ختم ہو جائے۔ تھوڑ دلے تو اس پہلی تالی پہ ہی گر جاتے ہیں اور دوبارہ سنبھل نہیں سکتے۔

کچھ حوصلہ اور ہمت دکھانے والوں کے لئے دوسری تالی تک کا سفر نئی آزمائشوں اور نئے حربوں سے شروع ہوتا ہے۔ کبھی سجی دکھا کے کبھی ماری جاتی ہے، کبھی چکاواں دے کے ولیواں (پٹخ) دیا جاتا ہے، کبھی مایوسیوں اور پریشانیوں میں گھرا کر گھیرا جاتا ہے تو کبھی کوئی موہوم سی امید دکھا دی جاتی ہے کہ لڑنے کا کچھ حوصلہ باقی رہے۔ دوسری تالی پہ ہارنے والے اپنے تئیں سارا زور لگا چکے ہوتے ہیں اور ان کا اپنے فرضی سہاروں اور مطلبی آسروں سے اعتبار ٹوٹ چکا ہوتا ہے دراصل یہی توڑ پھوڑ ان کی شکست و ریخت کا باعث بنتی ہے۔

آخری تالی تک صرف وہ پہنچ پاتے ہیں جو اپنا یقین، توکل، بھروسہ اور امید صرف اور صرف مالکِ حقیقی اور خالقِ برحق سے رکھتے ہیں۔ جو اس بات کو جانتے ہیں کہ وہی ذات ہے جو سب کی سب پریشانیاں ختم کر سکتی ہے۔ جو یہ مانتے ہیں کہ حالات کی کایا پلٹ اور وقت کا تغیر محض اس کے حکم کی وجہ سے ہے۔ جو یہ ادراک رکھتے ہیں کہ کلامِ الہی میں فرمایا گیا ہے کہ ہر تنگی کے بعد آسانی ہے۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا پالن ہار اس سے اک لمحے کو بھی غافل نہیں اور وہ ہر ساعت، ہر آن اور ذی روح کی ہر سانس پہ اپنے عبد، اپنی مخلوق کو یاد رکھتا ہے۔

اس سے قبل کے آخری تالی بج جائے وہ اپنے بندے کے لئے امکانات، اسباب، حالات اور کامیابی کی راہیں کھول دیتا ہے۔ آخری تالی سے قبل وہ اپنے بندے کو انہونی سے ہونی بنا کے دکھا دیتا ہے۔ یہ پروردگار کا اپنے بندے پہ خاص احسان ہے کہ وہ اسے حالات کی ایسی بھٹی میں ڈال کے کندن بناتا ہے اور پھر اسے خالص کرکے اپنے لئے چن لیتا ہے۔ مالک جب آخری تالی سے قبل ایک بار پھر اٹھا دے تو اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اسی کے ہو رہنے ہی میں اصل کامیابی ہے۔ حالات کی اس آخری تالی سے بچ نکل کے اپنے رب کی راہ پہ چلنے ہی سے کامیابی والی تالی بجے گی اور یقیناً یہی کامیابی پہ بجنے والی تالی ہی ہمارا اصل مطمع نظر ہے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali