Siasat Nahi Riyasat Bachayen
سیاست نہیں ریاست بچائیں
عظیم قومیں ہمیشہ اپنی ریاست کے بارے میں سوچتی ہے نہ کہ اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتی ہے۔ ان کے لیے سب سے پہلے اپنی ریاست ہوتی ہے وہ کسی بھی چیز کو بروئے کار لاتے ہوئے سب سے پہلے اپنی ریاست کی بقاء کے لیے سوچتی ہے۔ ریاست ہی ہمیشہ سے سب کچھ ہوا کرتی ہے اگر ریاست نہ ہو تو ایک عام انسان کی کیا اوقات رہ جاتی ہے؟ اس لیے زمانہ قدیم سے ہی حکمران اپنی ذاتی مفادات سے پہلے اپنی ریاست کے بارے میں سوچتی تھی۔
آیا کہ ہماری سلطنت کی راہداری محفوظ ہے کہ نہیں۔ کوئی کمی کوتاہی تو اس میں نہیں ہے کہ کل کو اس میں کوئی بھی آ کر مداخلت کر لیں۔ اس لیے ان کے لیے سرحدی مقامات پر انتہائی کٹری نظر رکھی جاتی تھی۔ لیکن آج کے جدید دور میں اس کے تقاضے تھوڑے سے مختلف ہو گئے ہیں۔ جیسے کہ پہلے سرحدی راہداریاں ہی مضبوط ہونا ایک ریاست کے لیے بہت ضروری ہوتا تھا لیکن آج سرحدی راہداری سے پہلے ایک ریاست کے لیے ایک مضبوط معیشت کا استحکام ہونا بہت ضروری ہو گیا ہے۔
آج جو ہمارے ملک کی معیشت کا پرسان حال ہوا پڑا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ایک بار اس سے پہلے جب 1971 میں سقوط ڈھاکہ کے وقت پر معیشت انتہائی کمزور پڑ گئی تھی پھر اس کو مستحکم بنانے کی کوشش کی گئی اور کسی حد تک اس کو کنٹرول کیا گیا۔ اب جبکہ کرونا وائرس کے بعد پوری دنیا میں جو مہنگائی کا اثر پڑا، اس میں ہمارا پاکستان بھی شامل ہے۔ کئی ممالک نے اس کو کافی حد تک کنٹرول کر لیا جیسے کہ چائینہ۔
جس سے خود یہ موزی وبا پھیلی اس نے اس وبا کو بہترین انداز سے کنٹرول کر لیا اور آج بھی سپر پاور کی حیثیت رکھتا ہے۔ حالانکہ چائینہ پاکستان سے دو سال بعد آزاد ہوا اور آج وہ اپنی معیشت کے بل بوتے پر پوری دنیا کو للکار رہا ہے اور ہم جس نے شاید قرضوں پر چلنے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ ہمارے سامنے سری لنکا کا حال کوئی ڈھکہ چھپا نہیں ہے۔ آج وہ دیوالیہ ہوا پڑا ہے لوگ سڑکوں پر چیخ رہے ہیں لیکن انکا کوئی سننے والا نہیں۔
لوگوں نے وزیراعظم اور پارلیمینٹ تک کو آگ کی لپیٹ میں لے لیا اور یہاں تک کہ تین پارلیمنٹیرینز بھی اس میں جل کر مر گئے۔ اس سب سے ہم کو سیکھنے کی ضرورت ہے۔ آج ہماری اگر سری لنکا جیسی صورتحال نہیں تو اس کی پیروی ہم ضرور کر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت جس نے مہنگائی کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر سابقہ حکومت کو گھر بھیجا اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے تمام جماعتوں کو ملا کر ایک مخلوط حکومت کو تشکیل دی۔
اب جبکہ ان کی حکومت آ گئی کچھ اچھے فیصلے کرنے کے لیے تو بجائے اچھے اور عوام مفاد فیصلے کئیے جائیں اس کے برعکس کبھی پوری کی پوری کابینہ لندن جا بیٹھتی ہے تو کبھی نگران حکومت کو تشکیل دینے کا کہتی تو کبھی قومی سلامتی کمیٹی کی کال دیتی ہے، خود یہ نو مخلوط جماعتوں سے کوئی فیصلہ نہیں ہو پا رہا حالانکہ ان نو جماعتوں میں ن لیگ اور پی پی کو ایک خاص تجربہ حاصل ہے کہ کیسے حکومت کو چلانا ہے اور عوام کے ریلیف کے لیے کیسے کیسے بہترین پیکیجز دینے ہیں۔
لیکن وجہ کیا آخر یہ نو جماعتوں سے فیصلہ کیوں نہیں ہو پا رہا؟ وجہ ایک ہی یہاں اب حکمران اپنا سیاسی کریئر ختم نہیں کرنا چاہتے۔ وہ عوام میں اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے جبکہ ن لیگ کے پاس وزرات عظمیٰ کا قلمدان ہے وہ نہیں چاہتی کہ وہ ایک ایسا فیصلہ کریں جس کا ان کی پارٹی پر اثر پڑے اور ان کا ووٹ بینک کم ہو جائے۔ ن لیگ کی اکثریت قیادت نگران حکومت اور پھر نئے الیکشن کی بات کرتی ہے جبکہ زرداری قیادت پوری اگلے سال اگست تک اپنی مدت پوری کرنے کا خیال رکھتی ہے۔
ہر پارٹی اپنا اپنا مفاد دیکھ رہی ہے کوئی بھی ریاست بچاؤ کو نہیں دیکھ رہا۔ جبکہ ریاست پر مشکل وقت آن پڑا ہے۔ اگر بر وقت ریاست کے لیے کوئی بہترین منصوبہ بندی نہ کی تو سری لنکا سے ہمارا حال برا تصور کیا جائے گا۔ اس لیے موجودہ حکومت کو اپنی ریاست بچاؤ کے لیے ایک خاص لائحہ عمل طے کرنا ہو گا۔ اب جبکہ حکومت لی ہے تو اس کے لیے اچھے فیصلے بھی اپنے ہی کرنے ہیں اگر اچھے فیصلے نہیں کرنے تھے تو حکومت لی کیونکر تھی؟
آئی ایم ایف سے کیسے چھٹکارہ حاصل کرنا ہے؟ اس کے لیے ہمیں چائینہ، ترکی اور ملیشیا جیسے ماڈل کو اپنانا ہو گا اور علامہ اقبالؒ کے خودی کے فلسفے پر کام کر کے ایک خودار قوم بننا ہو گا۔ ایک ایسی ریاست کی تشکیل دینا ہو گی جس میں ریاست پہلے اور اپنے ذاتی مفادات کو بعد میں رکھنا ہو گا۔