Hijrat Ki Pachas Sala Taqreebat
ہجرت کی پچاس سالہ تقریب
ہجرت کا موضوع ہمارے دینی ماضی کا ایک قدیم ترین عنصر ہے۔ در اصل آخری پیغمبر حضرت محمد(ص)سے قبل کے پیغمبروں کے بھی اپنے عقیدے کا تحفظ کرنے کی خاطر اپنے گھر بار کو چھوڑ کر ہجرت کرنے کی معلومات کا قدیم ذرائع میں وجود ملتا ہے۔ حضرت ابراھیم نے" اپنے رب کے حکم سے ہجرت کر رہا ہوں " کہتے ہوئے پہلے فلسطین ہجرت کی بعد ازاں مصر اور پھر دیارِکنعان میں قیام کیا تھا۔
حضرت لوط ؑ نے خدا کی پیغمبری کے فرائض ادا کرتے وقت اللہ پر ایمان نہ لانے والے بد اخلاق لوگوں سے بچنے کے لیے خالق حقیقی کے حکم پر ایک رات کے اندر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ہجرت کی تھی۔ اسی طرح حضرت شعیب اور حضرت موسی نے بھی اپنے اصلی مالک کے حکم پر ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرتیں کی تھیں۔ اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب اور آخری پیغمبر حضرت محمد (ص) اور ان کے پیرو کار بھی۔
اسی طرح کافروں کے مظالم سے بچنے کی خاطر ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔ مکہ کے مشکرین نے نبی اکرم کے تبلیغ اسلام کا آغاز کرنے کے وقت سے ہی انتہائی ظالمانہ اور سفاکانہ موقف اپنایا۔ جو کہ نہ صرف دین اسلام کو مسترد کرنے تک محدود نہ تھا۔ انہوں نے پیغمبر اسلام اور ان پر یقین کرنے والوں پر ناقابلِ برداشت حد تک مظالم ڈھائے۔
اصحابہ کرام پر ڈھائے گئے ظلم و تشدد پر دلی صدمہ ہونے والے اور اس چیز کا سد باب نہ کر سکنے والے حضور اکرم نے بعض اصحابہ کرام کو حبشستان روانہ کیا۔ جو کہ اسلامیت میں پہلی اجتماعی ہجرت تھی۔ مکہ مکرمہ میں بتدریج طول پکڑنے والے ظلم و تشدد کے نتیجے میں رسولِ اکرم کو نعوذ باللہ قتل کرنے کا فیصلہ کیے جانے نے مسلمانوں کو مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔
اس چیز نے دین اسلام کی تبلیغ میں ایک اہم موڑ ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اہم واقع کے طور پر تاریخ میں جگہ پائی۔ مدینہ میں قیام کے ابتدائی برسوں میں اسلام قبول کرنے والے انسانوں کے اپنے پیغمبر رسول اکرم کے ہمراہ ہجرت کرنے کو ایک لازمی عمل کے طور پر قبول کیا گیا تھا۔ قرآن کریم نے اس چیز پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کی شدت سے مذمت کرتے ہوئے ان کے انجام کے انتہائی بُرے ہونے کا ذکر کیا ہے۔
تا ہم ہجرت کرنے کی مجبوری مکہ مکرمہ کی فتح تک جاری رہی۔ اس فتح کے بعد حضور اکرم نے مکہ سے مدینہ کو ہجرت پر پابندی عائد کر دی تھی۔ یہ معاملہ واضح ہے کہ ہجرت کی تاریخ، اقتصادی و سماجی پہلووں پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی اور قانونی لحاظ سے بھی بعض اہم چیزوں کے سامنے آنے کا وسیلہ ثابت ہوئی تھی۔ مسلمانوں کو ہجرت کے فوراً بعد اپنی ریاست قائم کرنے کا موقع میسر آیا تھا۔
مکہ کے دور میں دین زیادہ تر عقیدے کی حد تک محدود رہا تھا، تو ہجرت کے بعد ایک آزاد و خود مختار ریاست کے قیام کی بدولت مسلمانوں کے سماجی اور بین الامملکتی سطح پر تعلقات کو قائم کرنے والے سیاسی، قانونی اور اقتصادی عناصر نے جنم لیا۔ اس بنا پر ہجرت اسلامی قوانین کے اعتبار سے بھی ایک اہم مرحلے کو تشکیل دیتی ہے۔
اسی طرح آج سے پچاس سال پہلے سن 1972 کو ایک ظالم، جابر، فرعون اور جاگیر دار حکمران نواب آف کالاباغ کے نواب ملک مظفر خان نے میانوالی میں سکندر آباد کے قریبی گاؤں عینوا شرقی کے خٹک قبائل پر تشدد، ظلم، جھوٹے مقدمے، اور طرح طرح کے ہربے استعمال کرتا رہا، جھوٹوں مقدموں میں خٹک قبائل کو جیلوں میں ڈالا گیا اور ان پر طرح طرح کا تشدد کیا گیا۔
میانوالی کی تاریخ میں خٹک قبائل کی طرف سے میانوالی میں پہلی بار اس جاگیر دار گروپ کے خلاف اگر کسی نے آواز اٹھائی تو وہ عینوا شرقی کے خٹک قبائل تھے، حالانکہ میانوالی میں شادی خیل گروپ، روکھڑی گروپ، وتہ خیل گروپ اور بھی بہت سارے قبائل اپنی تعداد اور وسائل سے مالامال ہونے کا باجود آج تک ان کے مظالم کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکے۔
پھر خیال آیا اور اپنے بزرگوں سے جب پوچھا کہ جب اتنے بڑے گروپ والوں نے آواز نہیں اٹھائی تو پھر آپ چند بیس سے پچیس گرانوں نے کیسے ہمت کی تو جواب ملا، صرف اور صرف ایمان اور اللّٰہ پاک کی مدد سے ہم نے ان فرعون جیسے خصوصیات کے حامل جاگیر دار گروپ کے خلاف آواز اٹھائی۔ یہ بات سننی تھی کی غزوہ بدر کا واقعہ یاد آیا کہ اللّٰہ پاک نے مسلمانوں کو کیسے 313 کے مقابلے میں 1000 کی تعداد والوں کو شکست دی۔
بیشک اللّٰہ تعالٰی جس کی مدد کرتا وہی کامیاب و فاتح رہتا ہے۔ جب نواب آف کالاباغ ظالم جاگیر دار نے عینوا شرقی کے خٹک قبائل کو وہاں سے نکالنے کی دھمکی دی اور پورے گاؤں کے اردگرد اپنے بدمعاش غنڈوں کو اسلحے سے لیس اپنی ذاتی فوج کو چاروں طرف سے کھڑا کیا۔ اور پورے ایک دن پانی کے کنوؤں پر پہرے دار کھڑے کر کے عینوا شرقی کے خٹک قبائل کا پانی بند کیا تو ایک بار اس جاگیردار۔
فرعون اور یزید نے واقعہ کربلا کی تاریخ دہرائی۔ اس کے بعد خٹک قبائل کی طرف سے اسلام آباد میں بھی دھرنا دیا گیا اور اس وقت کے وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو کے قافلے کو بھی روکا گیا۔ لیکن ان کی سکیورٹی نے بات تک کرنے نہیں دی اور بھٹو تک خٹک قبائل کا مطالبہ پیش نہیں کیا گیا، وقتاً فوقتاً اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کے سینیئر، بانی پیپلز پارٹی اور پیپلز پارٹی کے سوشلسٹ خیال گروپ کے نمائندے۔
معراج محمد اور طارق عزیز سے بھی مطالبہ کیا گیا، جنہوں نے میانوالی کے ڈی سی اور سرگودھا کے کمشنر کے نام خط لکھا۔ جس میں خٹک قبائل کے جائز مطالبات کا کہا گیا، لیکن چونکہ پیپلز پارٹی میں شروع دن سے ہی جاگیر دار گروپ کا سکہ چلتا رہا۔ جس میں مصطفی کھر، ممتاز بھٹو اور ملک مظفر نواب آف کالاباغ شامل تھیں۔ جس کی وجہ سوشلسٹ گروپ کے کہنے کے باوجود بھی ملک مظفر ٹس سے مس نہیں ہوا۔
اور جب خٹک قبائل کی کسی گروپ اور اداروں نے نہیں سنی تو آخر میانوالی میں داؤد خیل ریلوے جنکشن کو بند کرنا پڑا، جس سے ماڑی ٹو لاہور، ریل کار جو میانوالی سے راولپنڈی تک جاتی تھی۔ جب ریلوے جنکشن اور تمام سیمنٹ فیکٹریوں کو بند کیا گیا تو گورنر مصطفیٰ کھر کے حکم سے ایم این اے ملک مظفر نے پولیس کو حکم دیا کہ ان پر گولیا چلا دی جائے۔
جس پر پولیس آفیسر نے کہا کہ اگر ہم گولیا چلاتے ہیں تو داؤد خیل کی مقامی لوگ ہم پر پیچھے سے ہتھیاروں سے بندکوں، ڈنڈوں وغیرہ سے مسلح ہے، پولیس آفیسر نے کہا کہ اگر ہم گولیا چلاتے ہیں تو مقامی لوگ پولیس پر گولیاں اور ڈنڈے برسائے گے۔ جس سے دونوں طرف سے خون خرابا ہوگا، جب گورنر مصطفیٰ کھر کو یہ پیغام ملا تو گورنر نے مجبوراً سرگودھا کے کمشنر کو خٹک قبائل سے میانوالی میں کمشنر ہاؤس میں مذاکرات کا حکم دیا۔
تو جب کمشنر نے خٹک قبائل سے مطالبےکا پوچھا تو وہاں پر موجود خٹک قبائل کی طرف سے وکیل امان اللہ ایڈوکیٹ نے تاریخی الفاظ میں کہا کہ ایک قاتل قتل کرتا اور پھر بعد میں مقتول سے پتا کیا جاتا ہے۔ آپکا مطالبہ کیا؟ شرم آنی چاہیے آپ لوگوں کو۔ جس پر کمشنر نے معزرت کی اور کہا کہ سر آپ تو جانتے ہیں کہ یہ ظالموں کی فیل وقت حکومت ہے، پھر اس کے بعد خٹک قبائل کو میانوالی میں دلی والا۔
آصف پل کے قریب رکھ موج گڑھ شمالی اور سندھ میں سرکاری زمین کی پیشکش کی گئی، جس کے بعد خٹک قبائل نے تمام زمینوں کے معائینے کے بعد اپنے ہی میانوالی کے ضلع میں آصف پل کے قریب رکھ موج گڑھ میں انیس مربع زمین چشمہ بیراج سکیم میں سپیشل کیس میں قبول کی، ایک فرعون صفت کے مالک جاگیر دار گروپ کے خلاف آواز اٹھنا۔
بیشک موسیٰ علیہ سلام کی سنت اور پھر ہجرت پر عمل کر کے تمام انبیاء اور حضرت محمد دو جہاں کے سردار کی سنت پر عمل کر کے 1972 میں ایک متحرک قافلے اور یک جان ہو کر آج کے ضلع بھکر جو کہ 1982 میں میانوالی سے علیحدہ ہوکر ضلع بنا تھا۔ اس کے آج کی تحصیل منکیرہ میں آصف پل کے بائیں جانب واقع منتقل ہوئے، جس کا بعد میں پھٹان کوٹ نام رکھا گیا۔
1972 کے بعد آج 2022 میں پچاس سالہ ہجرت کا یومِ تشکر کل پھٹان کوٹ کی مسجد کے پاس جوش وخروش کے ساتھ منایا جائے گا، اور اللّٰہ کے ہاں شکر ادا کیا جائے گا، جس کی مدد کی وجہ سے ایک ظالم، جاگیر دار اور فرعون حکمران سے محفوظ ہوئے۔ خٹک قبائل کی یہ عظیم تحریک پر جس پر میانوالی کے نامور استاد، صحافی صادق شاہ نے میانوالی کی مجموعی تحریکوں کا کتاب(میانوالی کی تحریکیں) کی شکل میں بہترین تبصرہ کیا گیا۔
یہ انقلابی تحریک بلاشبہ بہت بڑی کامیابی اور فرعون کو للکارنے کا بہت بڑا مشکل مرحلہ تھا۔ جس کے بعد تمام میانوالی کے قبیلوں میں ایک جاگیر دار اور ظالم حکمران کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت پیدا ہوئی۔ اگر اس موضوع کا خلاصہ پیش کیا جائے تو کہنا ممکن ہے کہ ہجرت اسلام کے کامیابی کی منازل طے کرنے کی نشانی ہے، مستقبل کے درخشاں ہونے کا مژدہ دینے والا ایک الہیٰ حکم ہے۔
کیونکہ ہجرت کے بعد حاصل کردہ ہر کامیابی میں کٹھن حالا ت کا سامنا کرنے والوں کی وفاداری اور قربانیوں کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ ہجرت کسی نئی تہذیب کے ظہور پذیر ہونے میں معاونت فراہم کرنے والا ایک نمایاں عنصر ہے۔ ماضی کی تمام تر تہذیبوں کا جنم ہجرت کے بعد ہی منظر عام پر آیا تھا۔