Akhuwat Ka Safar
اخوت کا سفر
کتابوں سے انسان کا رومانس ازل ہے، انسان ایک چھوٹی سی زندگی میں پچھلے کئی برسوں کی تاریخ پڑھنے کیلئے کتابوں کا سہارا لیتا ہے۔ کتاب ہی وہ واحد ذریعہ ہے۔ جو ہمیں پچھلی صدیوں کی تاریخ سے آگاہ کرتا ہے، کیونکہ اس مختصر سی زندگی میں ممکن نہیں ہے کہ انسان کتابوں کے مطالعے کے بغیر تاریخ کے بارے میں جان سکے۔ کتابیں ہمیشہ سے انسانوں کی استاد اور دوست رہی ہے۔
مجھے بھی لوگوں کی خودنوشت کتابوں پڑھنے کا شوق کافی وقت سے ہے۔ جب بھی کبھی لائبریری میں جانے کا موقع ملتا ہے تو سب سے پہلے آب بیتی والے سیکشن کی طرف دوڑ لگاتا ہوں کہ شاید کوئی اچھی سی خودنوشت مل جائے۔ پچھلے ہفتے یونیورسٹی کی لائبریری میں جب جانے کا موقع ملا تو حسب معمول تو سب سے پہلے آٹو بائیو گرافی والے سیکشن کی طرف گیا۔
اور وہاں کافی دیر کتابوں کو دیکھتا رہا کہ کونسی خودنوشت آج پڑھی جائے، اس دن میری ایک ایسی آپ بیتی پر نظر پڑی جیسے میں دیکھ کر دوسرا فیصلہ نہ کر سکا کہ اس کو پڑھوں یا نہیں؟ وہ خود نوشت بانی اخوت جناب ڈاکٹر امجد ثاقب کی "اخوت کا سفر" تھی۔ جس کو دیکھتے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ اس کو تو ضرور پڑھوں گا۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کے بارے میں پہلے بھی سنا تھا کہ انھوں نے ماشاءاللہ اس دنیا میں سودی نظام کے خلاف ایک جہاد کا فورم بنایا، جس میں تمام غریبوں کو بلا تفریق نسل، رنگ، فرقہ، مذہب کے 'قرض حسن' دیا جائے گا، (قرض حس وہ قرض ہوتا ہے جو کسی بغیر سود کے دیا جاتا ہے جس پہ کوئی سود نہ ہو) اور لوگوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اس قرض سے اپنا کاروبار شروع کرسکیں۔
اور بعد میں وہ خود ایک دن اسی اخوت کا مسافر بن جائے، میں نے اب تک کافی خودنوشت پڑھی ہے۔ لیکن اخوت کا سفر پڑھنے کے بعد یوں لگا، جیسے اس کے بعد کوئی دوسری خودنوشت کی کوئی گنجائش نہیں رہی، ڈاکٹر صاحب کا جو مشن ہے وہ پڑھ کر ایک بار ایسا محسوس ہوا، جیسے پھر سے ریاست مدینہ کا دور لوٹ آیا، جس میں لوگوں میں ماخوات، مساوات اور آپس میں بغیر کسی تفریق کہ ایک دوسرے سے تعلق رکھا جاتا تھا۔
کسی کو بری نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا، ایک دوسرے کی مشکل میں مدد کیلئے پہل کی جاتی تھی، ایک ایسا معاشرا تھا۔ جس میں کوئی خامی نہ تھی۔ پچھلے کئی برسوں سے، بغیر کسی تفریق کا منظر اس معاشرے جیسے غائب تھا۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کا یہ اقدام تو صرف پچھلے صدیوں میں صوفیاء ہی کرتے تھے۔ آج اگر میں ڈاکٹر صاحب کو ایک صوفی کا درجہ دوں تو مجھے اس میں کہنے میں زرا برابر بھی حرج نہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی سوانح حیات پڑھ کر ایسے لگا۔ جیسے آج پھر دہلی میں نظام الدین اولیاء کا دور لوٹ آیا، جس میں جو بھی نظام کے در میں آیا وہ خالی واپس نہ گیا۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ انقلابی اقدام ہم سب مسلمان بھائیوں بہنوں کیلئے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس سے ہمیں آج پھر مدینہ کی ریاست کا سبق دوہرایا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر صاحب جن کو پچھلے دنوں عالمی دنیا نے نوبل پرائز کیلئے نامزد کیا ہے یہ جان کر دل کو انتہائی خوشی ہوئی، ڈاکٹر صاحب کی وجہ سے آج پاکستان اور خصوصاً امت مسلمہ سر اٹھا کر چل سکتی ہے کہ ہم ایک ایسے نظریات سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس میں بھائی چارہ، مواخات، مساوات اور امن دوست نظریات عملی طور پر پائے جاتے ہیں۔