Court Bar Ka Naya Safar?
کورٹ بار کا نیا سفر؟
آزادکشمیر کورٹ بارکے سینئر جسٹس صداقت حسین راجہ بطور قائم مقام چیف جسٹس ہائی کورٹ حلف اُٹھانے کے بعد فرائض کی ادائیگی کا آغاز کر چکے ہیں یہ بہت اعلیٰ اعزاز بھی ہے اور بطور منصف امتحان تو ہے مگر جن حالات میں ان پر ذمہ داری عائد ہوئی ہے وہ بہت ہی کٹھن ہیں ایک سال سے یہاں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے مستقل چیف جسٹس تعیناتی کا معاملہ کسی نہ کسی وجہ سے لٹکا ہوا ہے تو سپریم کورٹ صرف قائم مقام چیف جسٹس راجہ سعید اکرم پر مشتمل ہے ان کے ساتھ کوئی دوسرا جج موجود ہی نہیں ہے اللہ رب العزت قائم مقام چیف جسٹس ہائی کورٹ جسٹس شیراز کیانی کو صحت کاملہ عطاء فرمائے جو علالت کے باعث فرائض کی سرانجام دہی سے قاصر ہیں جن کی علالت کے دوران بطور قائم مقام چیف جسٹس اب سینئر جسٹس صداقت حسین راجہ فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور سپریم کورٹ کی طرح ہائی کورٹ بھی صرف ایک جج یعنی قائم مقام چیف جسٹس صداقت حسین راجہ پر مشتمل ہے۔
چیف جسٹس ہائی کورٹ نے ناصرف ہائی کورٹ میں بطور منصف مقدمات کی سماعت فیصلے اور مقدمات کی ججز میں تقسیم کار ماتحت سٹاف کے نظم و نسق کو چلانا ہوتا ہے بلکہ اپنے ماتحت باقی تمام ذیلی عدالتوں ان کے نظام کو بطور سربراہ دیکھ بھال کی ذمہ داری نبھانی ہوتی ہے یہ سب اُمور اور پھر عدالتی بحران کے حالات میں ایک ہی جج ساتھ قائم مقام چیف جسٹس ہونے کے ناطے آزمائشوں کی اعصاب شکن گھڑیاں ان پر آ چکی ہیں۔ بطور باعمل وکیل طویل تجربے وائس چیئرمین بار کونسل کی حیثیت سے بار کونسل کو اپنے پیروں پر کھڑے کرنے وکلاء کی فلاح کیلئے جرات مندانہ اقدامات سمیت آئین و قانون کی بالادستی، عدلیہ کے وقار کیلئے جدوجہد سمیت بحیثیت وکیل اور بطور جج وہ معاشرے کے پسے طبقات کمزور حالات والے انسانوں کو انصاف دلانے ان کے ساتھ تعاون سہارا بننے کے تناظر میں بخوبی جانتے ہیں کہ انصاف کے حصول کیلئے ایک عام آدمی خصوصاً بے کس، بے بس مظلوم کو کن کن مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ناصرف ماتحت عدلیہ بلکہ پولیس سمیت ہر محکمہ میں کہاں کہاں کیا کیا سائلین حقداروں کو حق لینے کیلئے کن مسائل رکاوٹوں کا سامنا ہوتا ہے اور نامور وکلاء کے بعد باقی تمام وکلاء کمیونٹی کے ایشوز، انتظامی پیشہ وارانہ مراحل ہوں یا پھر مجموعی اندرونی بیرونی پیچیدگیاں ہوں سب بخوبی جانتے ہیں۔
یہی وجہ ہے ان کے بطور قائم مقام چیف جسٹس بننے پر وکلاء کی طرف سے مجموعی طور پر بہت خوشی مسرت کے جذبات کا تسلسل جاری ہے کہ سب کو ان سے بہت زیادہ توقعات اس لیے ہیں کہ سب سمجھتے ہیں قائم مقام چیف جسٹس جرات مند بہادر اور اُصولوں پر ڈٹ جانے والے انسان ہیں جن کے کردار اور جدوجہد جیسی خوبیوں سے باعمل بہتری کے راستے کھل گئے اور رفتہ رفتہ نتائج بھی سامنے آئیں گے مگر اس کے لیے صرف توقعات اُمیدیں خوشی مسرت کا اظہار کرتے رہنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ عدلیہ کے بحران کے حل کی طرف بھرپور قوت کے ساتھ مسلسل کردار ادا کرتا رہنا ناگزیر ہے اس بحران اور ماضی سے اب تک حالات کو الجھائے رکھنے کے ذمہ دار اصل کردار کون ہیں ان کو سامنے لانے اور جزا سزا کے عمل سے گزارے بغیر مستقل حل ممکن نہیں ہو سکے گا یہ کورٹ اور بار کے نئے سفر کی داستان بنے گا کہ وہ کیسی ہو گی؟