Ye Teenday Kyun Pakaye Hain?
یہ ٹینڈے کیوں پکائے ہیں؟
ہمارا گھر محلے بھر میں وہ واحد گھر ہوتا تھا جہاں پی ٹی سی ایل کا فون لگا ہوا تھا۔ اس زمانے میں فون لگوانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ فون یا تو وزیروں مشیروں کے ہاں لگا کرتے یا سرکاری بابوں کے ہاں۔ ابا جی اول تو سیالکوٹ میں بڑے بزنس مین تھے دوئم ان کی سلام دعا و حلقہ احباب بہت وسیع ہوا کرتا تھا۔ اپنے ذاتی تعلقات کے بل پر وہ فون لگوانے میں کامیاب رہے۔
فون دن رات بجتا رہتا۔ محلے بھر کی خوشی و غمی کے پیغامات اس پر موصول ہوتے اور اماں فون سن کر مطلوبہ گھر والی خاتون کو میرے ہاتھ پیغام بھیج دیتیں۔ محلے بھر کی خواتین کا فون کرنے یا سننے آنا جانا لگا رہتا۔ کئی بار یوں ہوتا کہ فون کرنے کے بعد فون سٹینڈ پر جاتے جاتے کوئی از رہ مروت کال کے پیسے چھوڑ جاتا۔ ابا جی کو اس سے کوفت ہونے لگی۔ اماں بھی کبھی کبھی بیزار ہو جاتیں تو کہتیں کہ یہ گھر سے زیادہ پی سی او لگنے لگا ہے۔ مگر اگلے ہی لمحے پھر کوئی کال آجاتی تو ماں جی کا دل موم ہو جاتا۔
غم یا موت کی خبر آتی تو فون سنتے ہی سب سے پہلا کہرام ہمارے گھر پڑتا۔ ماں رونے والیوں کو تسلیاں دیتی رہتی۔ اس فون کی بدولت جہاں ہر وقت گھر میں محلے کی عورتوں کا آنا جانا لگا رہتا وہیں گھر کا کچن بھی مسلسل چائے پانی کی خاطر چلتا رہتا۔ میرا کام گلیوں میں بھاگتے دوڑتے کسی نہ کسی گھر پہنچ کر پیغام پہنچانا ہوتا تھا کہ آنٹی آپ کا فون آیا ہے۔۔ اکثر آنٹیوں کے ساتھ کسی نہ کسی آنٹی کی ہم عمر بیٹی بھی انگلی تھامے ساتھ چل پڑتی تو واپسی کا راستہ اٹکھیلیاں کرتے گزر جاتا۔
خوشی یا بیاہ کی خبر آتی تو ہمارے گھر ہی فون بند ہونے کے بعد سب سے پہلے مٹھائی کا ڈبہ کھلا کرتا۔ سب سے پہلی ہنسی اور مبارک کی صدا ہمارے گھر گونجتی اور پھر سارے محلے میں افواہ کی صورت تیزی سے پھیل جایا کرتی۔ فون کا بل موصول ہوتا تو اس دن ابا جی کا مزاج بل دیکھ کر برہم رہتا۔ گو کہ وہ اس زمانے میں مالدار شخص تھے مگر بل پر درج ہندسے پڑھ کر ان کے ماتھے پر بَل پڑنے لگتے تو اماں کہتی "کوئی بات نہیں، اللہ نے آپ کو دیا ہے تو یہ سلسلہ ہے ورنہ کون آتا؟ آپ کے وسیلے سے ہی لوگ اپنوں کی خوشیوں و غموں سے مطلع رہتے ہیں"۔۔ ابا جی یہ سن کر ٹھنڈے پڑ جاتے۔
مجھے یاد ہے جس دن فون پر نانی اماں کے انتقال کی خبر آئی۔ میری اماں جو سب کو ایسی خبروں پر دلاسے دیا کرتی تھی وہ خود نہ سنبھل سکی۔ فجر کا وقت تھا۔ ابھی رات کا پردہ چاک نہیں ہوا تھا۔ اماں کی دھاڑیں سن کر اول اول ہمسائے جمع ہونا شروع ہوئے اور پھر یہ خبر محلے میں پھیل گئی۔ خواتین کا ایک ہجوم تھا جو ماں کو دلاسے دیتا رہا مگر اماں نہ سنبھل سکی اور بیہوش ہوگئی۔ یہ 1992 کی ایک سرد صبح تھی۔
اماں نے اپنی ماں کی موت کا اتنا صدمہ لیا کہ تین دن نیم غنودگی کی حالت میں رہی۔ ڈاکٹر آتا۔ چیک کرتا اور ڈرپ چڑھا جاتا۔ اس کے بعد انکشاف ہوا کہ اماں کو شوگر ہو چکی ہے۔ کچھ سالوں بعد والد صاحب جگر کے سرطان میں مبتلا ہو کر چل بسے تو اماں تنہا رہ گئی اور پھر ایک دن انکشاف ہوا کہ ان کے دونوں گردے شوگر کی وجہ سے ناکارہ ہو چکے ہیں۔ یہ خبر بھی مجھے پی ٹی سی ایل فون پر موصول ہوئی تھی۔ ڈاکٹر نے ٹیسٹ رپورٹ ملتے ہی مطلع کر دیا تھا۔
اماں کو ٹینڈے بہت پسند ہوا کرتے تھے۔ وہ اکثر پکایا کرتیں مگر مجھے ٹینڈے پسند نہ تھے۔ فون بج بج کر جب چند گھڑی کو بند رہتا اماں کچن میں ہنڈیا چڑھا دیتی۔ پکانے کے دوران بھی محلے والیوں کا آنا جانا لگا رہتا۔ والد کے گزرنے کے بعد مجھے کالج کے ساتھ پارٹ ٹائم جاب کرنا پڑی تو میں نے خود کو گھر کا وارث اور بڑاسمجھتے ہوئے ایک دن امی سے پوچھا "یہ ٹینڈے کیوں پکائے ہیں؟ ماں کا جواب آیا "یہ نخرے اپنی بیوی کو دکھانا"۔
جب شادی ہو چکی ان دنوں اماں کی طبیعت ناساز رہا کرتی۔ شادی کے بعد ایک دن بیوی سے پوچھا "اب یہ ٹینڈے کیوں پکائے ہیں؟ جواب آیا "یہ نخرے اپنی اماں کو دکھاؤ"۔۔ ایک دن دونوں کو ساتھ بٹھا کر پوچھا کہ یہ ٹینڈے آخر کیوں پکائے ہیں؟ دونوں کا یک زباں ہو کر جواب آیا "کھانے ہیں تو کھاؤ نہیں تو نہ کھاؤ، یہ نخرے کسی اور کو دکھاؤ"۔ اماں کو اپنی بہو کی سائیڈ لینا ہمیشہ سے پسند رہا تھا۔
اماں چل بسی، ان کے گزرنے کے پانچ سال بعد پہلی بیگم بھی چل بسی یعنی ازدواجی تعلق ختم ہوا۔ راہیں جدا ہوئیں تو ڈپریشن نے یوں جکڑا کہ اس سال انکشاف ہوا کہ مجھے بھی شوگر ہو چکی ہے۔ کچھ عرصے بعد دوسری شادی ہوئی۔ شادی کو ابھی کچھ دن ہی ہوئے تھے کہ ایک دن شمال کے سفر سے واپس آتے بیگم سے پوچھا کہ آج کیا پکایا ہے؟ جواب آیا "ٹینڈے"۔۔ یہاں تک آتے زمانہ بدل چکا تھا۔ پی ٹی سی ایل کے ساتھ میری ذات سے وابستہ رشتے بھی قصہ پارینہ بن چکے تھے۔ اس دن کے بعد میں نے کھلا اعلان کر دیا کہ آئندہ ٹینڈے بین ہیں۔ اب گھر میں نہ پی ٹی سی ایل کا فون ہے نہ ہی ٹینڈے پکتے ہیں۔
ہوا یوں کہ گزشتہ روز بروز اتوار گھر کے بالائی حصے پر موجود سٹور سے کچھ اشیاء کی تلاش میں برسوں پرانا پی ٹی سی ایل کا فون سیٹ بھی دھول مٹی میں لپٹا برآمد ہوگیا۔ میں نے اس کو اچھے سے صاف کیا اور برائے انٹیک پیس اسے نیچے لا کر سِٹنگ ایریا میں شیلف پر رکھ دیا ہے۔ اس کو دھرنے کے بعد بیگم نے پوچھا آج کیا پکانا ہے؟ میں نے کہہ دیا "ٹینڈے بنا لو"۔ وہ یہ سُنتے ہی حیران ہوگئی "کیوں؟ وہ تو آپ نہیں کھاتے؟"۔ میں نے کہہ دیا کہ آج کھا لوں گا۔ اس نے بنا ڈالے۔ ایکدم زبردست اور لذیذ ڈش ہے۔ میری نظر جب جب اس فون سیٹ پر پڑتی ہے ماضی سے کئیں کہانیاں یاد سی آ کر رہ جاتیں ہیں۔ یہ سیٹ بٹنوں والا نہیں گول ڈائل والا پرانا سیٹ ہے۔ آپ جو بھی نمبر گھمائیں وہ زندگی کے سفر مانند دائرے میں گھوم کر واپس آ جاتا ہے۔