Tuesday, 17 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Ye Fard e Wahid Ghar Hai

Ye Fard e Wahid Ghar Hai

یہ فردِ واحد گھر ہے

میرے ایک بزنس مین دوست نے عرصے بعد بھابھی کے مسلسل اصرار پر آخر کار گھر خریدنے کا فیصلہ کیا۔ آج تک وہ ایک کنال کے گھر میں کرایہ پر رہتا آ رہا ہے جس کا ماہانہ کرایہ لگ بھگ چار لاکھ روپے ہے۔ میں جب جب اسے کہتا کہ بھائی تو سیٹل بندہ ہے بال بچوں کے لیے گھر تو خرید لے وہ مسکرا کے جواب دیتا "تم نوکری پیشہ لوگوں کا یہی ہوتا ہے کہ ساری عمر لگا کر کماؤ اور جوڑو اور پھر ساری کمائی گھر خرید کر ختم کر دو۔ میں جب چاہوں خرید لوں مگر کیوں کروڑوں روپے گھر پر لگا دوں۔ وہی پیسہ بزنس میں انویسٹ کرتا ہوں۔ مجھے چار پانچ لاکھ ماہانہ کرایہ محسوس نہیں ہوتا اور جو گھر مجھے اپنے سٹیٹس کے مطابق چاہئیے وہ دس بارہ کروڑ سے کم کا ملنا نہیں۔ تم نوکری پیشہ لوگ گھر بنانے کے چکر میں ساری عمر لگا کر فوت ہو جاتے ہو اور بچے آپس میں بٹوارہ کر لیتے ہیں"۔

آخرکار بھابھی ہماری کا صبر جواب دے گیا اور انہوں نے گھر کے لیے سختی سے ڈیمانڈ کرنا شروع کر دی۔ اس نے کچھ پراپرٹی مینجمنٹ کمپنیوں سے رابطہ کیا۔ کل شام مجھے ملا اور کہنے لگا "صبح میرے ساتھ چلو ذرا۔ ایک دو گھر دیکھنے ہیں"۔ میں نے کہا کہ بھابھی کو لے کر جا ساتھ میں کیا کروں گا؟ نہ مجھے کچھ کنسٹرکشن کے بارے معلوم نہ ہوم اپلائنسز اور سینٹری وغیرہ کی معلومات۔ اس بارے مکمل لاعلم بندہ ہوں۔ بولا "بیگم کو لے کر جاؤں گا جب مجھے کوئی دل کو لگے گا۔ ابھی وزٹ کرنا ہے۔ ابھی اسے لے گیا تو اگر اس کے دل کو لگ گیا اس نے وہیں ضد شروع کر دینی ہے کہ ابھی فائنل کرو۔ بہت سے معاملات دیکھنا ہوتے ہیں جو بیگمات کی سمجھ سے بالا ہوتے ہیں۔ تم نے کچھ نہیں کرنا بس تم نے کچھ نہیں بولنا۔ ایکدم سیریس اور خاموش رہنا۔ یہ نظر کی عینک اتار کر اپنے لائٹ براؤن رے بین گلاسز لگا کر ساؤتھ انڈین سٹائل لُک میں رہنا ہے"۔

یہ سن کر مجھے ہنسی آ گئی۔ اس کا سبب پوچھا تو بولا "ابے یار پراپرٹی مینجمنٹ کمپنی کا مالک خود وہاں موجود ہوگا۔ اگر مجھے پسند آیا تو اسی کے ساتھ ڈیل کرنا ہے۔ تمہاری لُک اور خاموشی سے اسے یہ میسج دینا ہے کہ تم اس شعبہ میں ایکسپرٹ ہو جو ہر دیوار، پینٹ، فرنیچر اور اپلائنسز کو صرف بغور دیکھ رہا ہے کوئی رائے نہیں دے رہا۔ میں نے انہیں کہا ہے میرے ساتھ میرا دوست ہوگا جو دبئی میں Emaar کے لیے ولاز کنسٹرکشن پراجیکٹس کرتا ہے"۔

مجھے کافی پیتے ہوئے غوطہ لگ گیا۔ گھونٹ حلق سے نکل کر ٹیبل پر پھیل گیا۔ میں ٹشوز سے صاف کرتے خود کو سنبھالنا چاہ رہا تھا اور اس ٹومی ڈرامے کی وجہ پوچھنا چاہتا تھا۔ میری حالت دیکھ کر خود ہی مزید بولا "ہنسنے والی بات نہیں یار۔ آئی ایم سیریس۔ اس کو بعد میں تمہاری رائے خود سے بتا کر پرائس میں کمی کراؤں گا کہ بندے نے فلاں فلاں وجہ سے ریجکٹ کر دیا ہے۔ میں بزنس مین ہوں آئی سمجھ؟ تم نہیں سمجھ سکتے"۔

قصہ مختصر۔ آج صبح گیارہ بجے اس نے مجھے آفس سے اٹھایا۔ ہم ڈی ایچ اے فیز سکس کی جانب سفر کرنے لگے۔ راہ میں مجھے گائیڈ کرتا رہا۔ ایک کنال پر محیط جدید کنسٹرکشن کے دو گھر دیکھنا تھے۔ اس نے کمپنی کو اپنا بجٹ بارہ سے تیرہ کروڑ بتا رکھا تھا۔ ڈیمانڈ یہ تھی کہ بیسمنٹ ہو جس میں ہوم تھیٹر، سوئمنگ پول اور ماسٹر بیڈروم بھی ہو۔ سولر سسٹم انسٹال ہو۔ سارا گھر جدید الیکٹرانکس اور ہوم اپلائنسز سے مزین ہو جو ایک ٹیبلٹ یا موبائل ایپ سے آن آف ہوتا ہو۔ فُلی فرنشڈ گھر ہو۔ امپورٹڈ سینٹری ہو۔ الغرض ٹپ ٹاپ بہترین گھر ہو اور ظاہر ہے مجھے ڈیڈ سیریس لُک میں رہنا اور ہر شے کو چپ چاپ بغور دیکھنا ہے۔ باقی باتیں اس نے پراپرٹی مینجمنٹ کمپنی کے مالک سے وزٹ کے دوران کرنا ہیں۔

گاڑی ایک لش پش گھر کے سامنے رکی۔ بندہ آگے انتظار میں کھڑا تھا اور اس نے دن میں سارے گھر کی بتیاں روشن کر رکھیں تھیں۔ سلام دعا ہوئی۔ میں نے سپاٹ چہرے کے ساتھ بس ہینڈ شیک کیا۔ دوست نے میرا تعارف کروایا "مسٹر بخاری۔ پراجیکٹ مینجر ایمار دبئی"۔ بندے نے میری جانب غور سے دیکھا "نائس ٹو میٹ یو مسٹر بخاری"۔ میں نے جواب نہیں دیا۔ اس نے مجھے سر سے پاؤں تک دیکھا۔ تھوڑا حیران ہوا اور پھر ہم دونوں کو گھر کے مرکزی دروازے سے اندر لے گیا۔

گیراج میں کھڑے ہو کر بولا "آپ گیراج دیکھیں۔ ایک کنال میں اتنا بڑا گیراج کم ہی چھوڑتے ہیں۔ ڈیزائنر ہاؤسز کا یہی فائدہ ہوتا ہے کہ ایک انچ سپیس بھی ضائع نہیں ہوتی۔ یہ دیکھیں آپ اس کا Facade آپ elevation دیکھیں۔ ماربل ہے سارا۔ گارڈن دیکھیں پندرہ فٹ کا گارڈن اب کون دیتا ہے؟" وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ وہ لگا رہا بڑھا چڑھا کر بتانے اور میرا دوست سن کر ہوں ہاں کرتا رہا۔ گفتگو کے دوران وہ میری جانب دیکھتا کہ شاید میں کچھ بولوں مگر میں اپنے کردار کے مطابق سپاٹ چہرے کے ساتھ کھڑا ادھر اُدھر دیکھتا رہا۔ گھر کے اندر داخل ہونے سے پہلے ہی اس بندے نے گھر کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملا دئیے۔ اس سے پہلے کہ اندر داخل ہوتے باتوں کی فصل کھودتے اس کے منہ سے ایک جملہ نکلا

"سر، یہ فردِ واحد گھر ہے جو اس ساری vicinity میں آپ کو ایسا نہیں ملے گا۔ ڈیزائنر ہاؤس سر۔ گرینائٹ فرنشڈ"۔

"فرد واحد گھر" کا سنتے ہی میرا ہاسا نکلنا چاہا۔ میں نے بہت ضبط کیا مگر ہلکی سی پھسپھسی سی ہنسی نکل گئی۔ اس نے مجھے پھر گھور کے دیکھا۔ اس سے پہلے کہ فرد واحد گھر پر میرا قہقہہ نکل جاتا میں نے اپھارہ کے مریض جیسی شکل بنا لی اور ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ دوست نے مجھے سائیڈ پر لے جا کر کان کے قریب کہا " کنٹرول یار"۔

اندر داخل ہوئے۔ داخل ہوتے ہی پاؤڈر واش روم دکھانے لگا۔ بولا "یہ دیکھیں فلوٹنگ کموڈ سر فلوٹنگ کموڈ۔ فُلی سینسرڈ۔ کوئی بٹن آپ کو نہیں دبانا۔ سینسر لگا ہوا ہے۔ اٹالین کمپنی Moda Marco"۔ پھر کموڈ پر بیٹھ گیا۔ اس کی حرکت دیکھ کر میں نے پھر ضبط سے کام لیا۔ آگے بڑھے۔ سٹنگ ایریا دیکھا۔ ڈائننگ ہال دیکھا۔ کچن دیکھا۔ وہ لگا رہا زمین آسمان ملانے۔ دوست اس کے ساتھ لگا رہا۔ میں چپ چاپ ہر شے کو بغور دیکھتا رہا۔ اس دوران وہ مجھ سے دو بار بولا " مسٹر بخاری۔ واٹ یو سے؟"۔ میں نے جواب میں سپاٹ چہرے سے کہہ دیا "ویل۔ آئی ایم مور انٹرسٹڈ ان لسننگ یو"۔ اس نے جواباً حیران پریشان سی صورت بنائی اور پھر دوست کے ساتھ شروع ہوگیا۔

بیسمنٹ میں پہنچے۔ سوئمنگ پول دکھاتے بولا "ایسا پول نہیں ملنے والا۔ آپ ایک سال بھی گھر پر نہ ہوں پانی گندا نہیں ہوگا۔ ویری ویل مینٹین ایبل ڈیزائن سر۔ بچے انجوائے کریں گے۔ " دوست نے پوچھا" گندا کیوں نہیں ہوگا؟"۔ بولا " کورڈ ہے سر۔ نہ ہوا آئے گی نہ دھول مٹی نہ پتے"۔ پھر بولا " گھر ایک فیملی کے لیے بہت اچھا ہے۔ آپ کو پتہ ہے ڈیفنس کے لوگوں کے دو بچوں سے زیادہ تو ہوتے نہیں۔ پانچ بیڈ رومز ہیں۔ دو کو گیسٹ روم بنا سکتے ہیں"۔ پھر ہوم تھیٹر دکھانے لے گیا۔ وہاں پانچ مساجر چئیرز تھیں۔ بولا "دو بچوں کے لیے۔ ایک آپ کے لیے ایک بھابھی کے لیے اور ایک بچ گئی اس پر گیسٹ بیٹھ سکتا ہے۔ آپ کو پتہ ہے ڈیفنس کے لوگوں کے دو بچوں سے زیادہ نہیں ہوتے"۔

اب میری ہنسی آؤٹ آف کنٹرول ہوگئی۔ نجانے کیوں مگر مجھ سے ضبط نہیں ہو پایا۔ میں مسلسل کنٹرول کرتا اس حالت میں پہنچ چکا تھا جیسے کسی کو شدید گیس ہوئی ہو اور وہ ریح خارج نہ کر پائے۔ ہنسی ایسی شے ہے کہ اک بار چل پڑے تو بس چل پڑتی ہے۔ میں ہنس ہنس کر دہرا ہوتے مساجر چئیر پر بیٹھ گیا۔ یقین مانیں ایسا سکون ملا جیسے گیس خارج ہوگئی ہو۔ ذرا سنبھلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ دونوں حیرانی کا بُت بنے میرے سر پر کھڑے مجھے پھٹی نگاہوں سے گھور رہے ہیں اور پھر جب میں نے اپنے دوست کی جانب دیکھا تو اس کی بھی ہنسی چھوٹ گئی۔ اس نے دونوں ہاتھ اپنے کولہوں پر رکھے اور ہنستا ہنستا ہوم تھیٹر سے باہر جانے لگا۔ اس کے پیچھے کمپنی کا مالک چلا اور پھر میں اُٹھ کر نکلا۔

رخصت ہونے سے قبل دوست نے اس بندے سے یہ کہہ کر معذرت کی کہ دراصل ہوم تھیٹر سے ہمیں اپنا ایک پرانا قصہ یاد آ گیا تھا اس لیے ہنس پڑے۔ بندے نے جواباً معذرت قبول کرتے ہمارا فیصلہ جاننا چاہا۔ دوست نے اس سے ایک دن سوچنے کی مہلت لی اور واپس گاڑی میں آن بیٹھے۔ یکایک وہ بھاگتا ہوا گاڑی کے پاس آیا اور بولا "دوسرا گھر بھی قریب ہی ہے فیز سکس میں۔ آپ میری گاڑی کے پیچھے آئیں"۔ دوست نے جواب دیا "نہیں آج کے لیے اتنا کافی ہے۔ مجھے کچھ کام ہے۔ وہ کل یا پرسوں دیکھتے ہیں"۔

گاڑی چلی تو وہ اور میں سارا راستہ ہنس ہنس کر دہرے ہوتے رہے۔ مجھے آفس اتارتے بولا "بیوی کے ساتھ میں خود دیکھ لوں گا۔ تیرے سے نہ ہو پائے گا"۔ پھر جانے سے پہلے اس کا قہقہہ چھوٹا اور بولا "سب سے فنی بتاؤں کیا تھا؟ سالا ہر واش روم دکھا کر کہتا فلوٹنگ کموڈ سر فلوٹنگ کموڈ۔ سکس وے جکوزی سر۔ ملٹی فنکشنل شاور سر۔ ایکسیلنٹ سر ایکسیلنٹ۔ مجھے لگتا تھا کہ اس کا رومانس کموڈ اور جکوزی سے گہرا ہے"۔

آفس پہنچ کر میں منہ دھونے واش روم گیا۔ کموڈ پر نظر پڑی۔ باہر نکل کر سیدھا اکاؤنٹ آفس گیا۔ چیف اکاؤنٹنٹ کولیگ کو بولا "سر جی واش روم کا کموڈ ہی بدل لو۔ اب تو فلوٹنگ کموڈ آ رہے۔ یو این کا آفس ہے اور کیا خصی کموڈ لگایا ہوا ہے"۔ یہ سن کر ان کی پہلے ہنسی نکلی اور پھر انہوں نے میری بات سے اتفاق کرتے کہا کہ اس نوعیت کی شکایت پہلے کسی کی جانب سے نہیں آئی وہ اس پر غور کریں گے۔

Check Also

Nafs Kyun Mara Jaye?

By Mojahid Mirza