Wednesday, 04 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Yaaden Aur Yadgar Lamhe

Yaaden Aur Yadgar Lamhe

یادیں اور یادگار لمحے

سوچا تھا آج انارکلی فوڈ اسٹریٹ جا کر سحری کروں گا۔ اس کے ساتھ میرے لڑکپن و جوانی کی یادیں وابستہ ہیں۔ رمضان میں دو تین بار سیالکوٹ سے گاڑی لے کر آنا ہوتا اور سحری کر کے واپس چلا جاتا، ساتھ ایک دوست ہوتا تھا جس کا شوق بس ڈرائیونگ تھا۔ جب ہم رات کو سیالکوٹ سے نکلتے تو گاڑی میں جنید جمشید کی کیسٹ لگی ہوتی"چلو تو سہی اعتبار بھی آ ہی جائے گا" اور لاہور سے واپسی پر قوالیاں لگا لیتے "تو معاف کرے گا میرے سارے گناہ"۔

لاہور سے واپس جاتے اعلی الصبح ہمیشہ راوی ٹول پلازہ پر باوردی ڈاکو کھڑے ملتے جو اسپیشل گاڑیاں روک روک کر "عیدی" وصول کرتے تھے۔ ان کی "عیدی" بھی ہمارے بجٹ میں شامل ہوتی تھی۔ تب رمضان میں میلے کا سا سماں ہوا کرتا تھا اور ہم سیدھے سادھے مسلمان تھے "مومن" نہیں ہوئے تھے۔ گڑھی شاہو میں سہیل احمد کا تھیٹر دیکھنا اور اس سے فارغ ہو کر انارکلی سحری کرنے چلےجایا کرنا۔ میر ا دوست کٹر وہابی تھا۔

اسٹیج ڈرامہ دیکھتے اس کی ہنسی سارے ہال میں الگ گونجتی تھی مگر سحری کرتے وقت اس کا تبلیغی موڈ آن ہو جاتا اور وہ مجھے ڈرانے لگتا "مہدی! بس آخری ڈرامہ تھا یہ اب بس۔ اب تھیٹر نہیں دیکھنا کبھی۔ "۔ پھر کہتا " اوئے تو دیکھ لینا تھیٹر میں نہیں دیکھوں گا کیونکہ تجھے اللہ نے زندگی میں ہی سزا دے دی ہے تو شاید آخر میں بخشا جائے۔ تیرا روزہ دس منٹ پہلے بند ہو جاتا ہے اور دس منٹ بعد کھلتا ہے۔ " پھر بولتا " اوئے علی خامنائی کے مرید! جلدی جلدی کھا تیرا بند ہونے والا ہے"۔

سحری میں ہوتے تھے آلو والے پراٹھے، سادہ پراٹھے، پیڑے والی لسی وغیرہ وغیرہ۔ میں دو سال قبل لاہور منتقل ہوا ہوں۔ آج وہابی دوست کی یادیں تازہ کرنے نکلنے لگا تو بیگم بولی " کہاں جا رہے ہیں اس وقت؟" میں نے کہا " انارکلی تک جا رہا ہوں ایک دوست کے ساتھ سحری کرنی ہے"۔ بولی، دوست کو گھر بلا لیں۔ یہ سب میں بھی بنا لیتی ہوں آپ کو جانے کی ضرورت نہیں۔ چلیں شاباش سکون سے بیٹھ جائیں میں سب سمجھتی ہوں کونسی سحری"؟

لہٰذا میں سکون سے بیٹھا ہوں اور وہ مجھے بار بار گھور کے کہہ رہی ہے "دوست کو بلایا نہیں آپ نے یا دوست گھر آنے کا سن کر بھاگ گیا"؟ اس کو کیسے بتاؤں کہ وہ اپنے سگے بھائی کے ہاتھوں، جو اس سے بھی بڑا دین دار تبلیغی تھا، دھوکا کھا کر سب لٹا کر اپنا بال بچہ لے کر ملک چھوڑ گیا اور کینبرا آسٹریلیا منتقل ہو گیا۔ جاتے جاتے مجھے کہہ گیا کہ بھائی کے ساتھ روزے رکھنے سے اچھا تھا تیرے ساتھ ہی سحر و افطار کر لیتا۔

اب بیٹھا سوچتا ہوں اور خودکلامی کی عادت بھی پکی ہو چکی ہے کہ مہدی اب وہ زمانہ بھی تو نہیں رہا، نہ جنید جمشید رہا نہ نصرت فتح علی، نہ دوست رہا نہ گڑھی شاہو کا تھیٹر، نہ مذہبی رواداری رہی نہ ثقافت، نہ دوستیاں بے لوث اور صاف رہیں نہ دشمنیاں کھُلی۔ اب بس منافقت ہے، جہالت ہے، اور اس گِرد میں ہم سب مومن ہیں۔

کافی سال رابطہ منقطع رہا۔ پھر واٹس ایپ کا زمانہ آیا۔ ہیلو ہائے ہوتی رہی۔ آخری اطلاع آنے تک وہ نہ وہابی رہا، نہ سنی، نہ شیعہ۔ کچھ اس کو اپنے بھائی کی بے وفائی کا دکھ لے بیٹھا تھا۔ اک بار کہنے لگا کہ" بال بچے رزقِ حلال سے پالنا افضل عبادت ہے۔ بس اب وہی کرتا ہوں " اور میں نے اسے جواب میں سلطان باہو کا کلام سنا دیا۔

ناں میں سُنّی نہ میں شیعہ میرا دوہاں توں ‌دل سڑیا ھُو

مُک گئے سب خشکی دے پینڈے دریائے وحدت وڑیا ھُو

یہ پوسٹ ابھی دوبارہ نظر سے گزری تو اک بار پھر شیئر کر دی۔ نجانے کیوں اپنی ہی تحریر پڑھ کر جون کا شعر دھیان میں گونجنے لگا تھا۔

آپ اپنا غبار تھے ہم تو

یاد تھے یادگار تھے ہم تو۔

اسی غبار میں ملفوف زندگیاں بسر کرتے ہم نے بہت کچھ کھویا ہے۔ پیچھے رہ گئیں یادیں اور یادگار لمحے۔ عہد نوجوانی کیسا شوریدہ دریا ہوتا ہے جو جذبات کی رو میں بہتا سب کچھ اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ کچھ عمر بیتے، کچھ حادثات پیش آئیں، کچھ شعور و آگہی ملے تو انسان پھر پرکھتا ہے کہ جو سِکے اس کی مٹھی میں بنام مذہب، بنام معاشرت، بنام سیاست بخشے گئے وہ سب کھوٹے تھے۔ ہتھیلی میں بس دیمک زدہ خاک رہ جاتی ہے اور آگے پل صراط کا کٹھن سفر۔

اڑے جاتے ہیں دھول کی مانند

آندھیوں پہ سوار تھے ہم تو۔

Check Also

Premature Bachay Muhabbat, Tadbeer Aur Umeed Ka Safar

By Muhammad Saqib