Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Wo Haal Hai Andar Se Ke Bahir Hai Bayan Se

Wo Haal Hai Andar Se Ke Bahir Hai Bayan Se

وہ حال ہے اندر سے کہ باہر ہے بیاں سے

تیسری دنیا کے بہت سے ملکوں میں کئی علاقے ترقی کا شوروم کہلاتے ہیں اور کئی علاقے پسماندگی کا اشتہار بنا کے رکھے جاتے ہیں تاکہ اپنی جسمانی معذوری کا ایکسرے دکھا کر ترقی یافتہ اقوام سے چندے کی صورت اپنے ترقی یافتہ شہروں کے بابوؤں واسطے روٹی ٹکر کا بندوبست بنا رہے۔ پاکستان میں بھی آپ کو ترقی کے شو روم اور پسماندگی کے نگار خانے شانہ بشانہ نظر آتے ہیں۔

جیسے اسلام آباد پاکستان کا سب سے بڑا شو روم۔ دوسرا بڑا شوکیس لاہور ہے۔ جس کے آس پاس پنجاب بھی پڑا ہوا ہے اور اسی پنجاب کے ایک کونے پر راولپنڈی جیسا مُنہ چڑھا لاڈلا ہے اور دوسرے کونے پر راجن پور اور ہم نواؤں سمیت دور پرے کے غریب رشتہ دار بھی حالتِ برداشت میں ہیں۔ رہا خیبر پختون خوا اور اس کے قبائلی تو یہ لوگ ہی اتنے عجیب ہیں کہ کوئی ان کے لیے کرے بھی تو کیا کرے۔

نہ ہاتھ پھیلاتے ہیں، نہ مسلسل غل مچاتے ہیں، حتی کہ منہ سے سی کی آواز نکالنے تک کو ناگوار کام سمجھتے ہیں۔ بس پشتو، ہندکو، چترالی وغیرہ میں ہی آپس میں کچھ نہ کچھ کہتے سنتے رہتے ہیں۔ جو میرے جیسوں کے پلے نہیں پڑتی تو ترقی کی ریوڑیاں بانٹنے والے نابیناؤں کے کیا پلے پڑے گی؟ ہاں ایکس فاٹا سے آوازیں کم اور چیخیں زیادہ سنائی پڑتی ہیں اور چیخوں کی زبان کو کون سمجھتا ہے؟

سندھ میں کہنے کو تو کراچی ترقی کا اور اندرونِ سندھ پسماندگی کا استعارہ بتایا جاتا ہے۔ لیکن اسی کراچی عرف منی پاکستان میں بہت سے چھوٹے چھوٹے پسماندہ پاکستان بھی پائے جاتے ہیں اور اندرونِ سندھ کی پسماندگی کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے درمیان بہت سے الف لیلائی قصبے بھی پائے جاتے ہیں۔ اسی پسماندہ سندھ میں ایسے بھی علاقے ہیں۔ جن کے موازنے میں صومالیہ بھی فرانس لگے ہے۔

یقین نہ آئے تو ضلع دادو، عمرکوٹ اور تھر پارکر وغیرہ کے اندرون دیکھ لیجیے جہاں پینے کا صاف پانی ایک مقامی دیہاتی آج بھی ایسی نظروں سے دیکھتا ہے، جیسے کوئی کھاتا پیتا مڈل کلاس یا رائل سلوٹ سکاچ وہسکی کی بوتل تاڑے ہے۔ پہلے پہل مجھے بھی یقین نہیں آتا تھا۔ پر اس دن آ گیا جب میں تھر کے ایک اندرونی ریگستانی قصبے چیلہار سے عمر کوٹ جانے والی ویگن میں دیگر انسان نما بکریوں جیسا ٹھونسا گیا۔

ایک چودہ پندرہ برس کا تھری بچہ میرا باؤ حلیہ دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ یہ جن اور دور باہر کا ہے۔ پوچھنے لگا کہاں سے آئے ہو؟ میں نے کہا لاہور سے۔ لاہور کیسا شہر ہے؟ میں نے کہا بہت بڑا شہر ہے، لاکھوں گاڑیاں ہیں، بے شمار لوگ ہیں۔ اس نے پوچھا پھر تو وہاں پینے لائق پانی بھی ملتا ہوگا؟ میں نے جواب دیے بغیر منہ کھڑکی کی طرف پھیر لیا کیونکہ آنسو بہرحال ذاتی ملکیت ہی ہوتے ہیں۔

ویسے پسماندہ علاقوں میں انتہائی بنیادی سہولتیں اگر پوری ہو جائیں تو پھر ترقیاتی منصوبوں کا کیا بنے گا؟ این جی اوز کے روز تراشے خواب کس قبرستان میں دفنائے جائیں گے؟ پانچ کلو گندم کا تھیلہ جھریوں بھرے ہاتھ کو پکڑاتے ہوئے یا دھڑ سے ننگے کسی معصوم کو گود میں لیے ہوئے کسی ہز ہائی نیس کی جو انسانی تصویر شائع ہوتی ہے وہ کون کھینچے گا؟

البتہ بلوچستان کے اندرون کا میں بالکل ذکر نہ کروں گا۔ لکھنے کے لیے آخر کوئی مسئلہ ہونا چاہیے۔ بلوچستان تو اتنا خالی ہے کہ تاحدِ نگاہ مسئلہ تک نظر نہیں آتا۔ ویسے بھی ان علاقوں کے بارے میں کیا لکھنا جن کے موازنے میں تھرپارکر بھی ہانگ کانگ محسوس ہو۔ کم ازکم تھرپارکر تک کوئی ایسی سڑک تو جاتی ہے۔ جس پر کسی ٹی وی چینل کی ڈی ایس این جی چل کے شام تک کراچی لوٹ سکے۔

دشت، آواران، خاران، چاغی وغیرہ وغیرہ کے اندرون تو ایسے لق و دق اور سناٹے دار ہیں کہ ترقی ان بیابانی راستوں میں ہی تڑپ تڑپ کے مر جاتی ہے۔

محسوس کرو گے تو گذر جاؤ گے جاں سے

وہ حال ہے اندر سے کہ باہر ہے بیاں سے

او نہیں نہیں، زیادہ ٹینشن نہیں لینے کا دوستو۔ بس کہنے کا مقصد یہ تھا کہ خوشحال پاکستان جو کہیں وجود نہیں رکھتا، البتہ نیم خوشحال پاکستان لاہور تا اسلام آباد جی ٹی روڈ کی پٹی اور اس کے اطراف بسے شہروں کا نام ہے۔ باقی سارا پاکستان غیر ضروری، غیر مہذب اور غیر پسندیدہ ہے۔ نجانے یہ کیوں ہے۔ پھر بھی اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں۔

Check Also

Apna Ghar

By Javed Ayaz Khan