Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Waqt Khud Hi Nithar Deta Hai

Waqt Khud Hi Nithar Deta Hai

وقت خود ہی نتھار دیتا ہے

تیس اکتوبر سنہ دو ہزار گیارہ کی شام تھی۔ خزاں کا موسم عروج پر تھا۔ تبدیلی کی ہوائیں شمال میں چل پڑیں تھیں اور وسطی پنجاب میں بھی فضا بدلنا چاہتی تھی۔ میں پی ٹی ڈی سی خپلو کی مرکزی لابی میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ میری ٹیم لاہور منٹو پارک پہ جلسہ کور کر رہی تھی۔ شمال میرا پہلا عشق تھا اور تبدیلی دوسرا۔ خزاں موسم کے سبب میں نے کوریج سے معذرت چاہی اور کام ٹیم کے حوالے کرکے شمال کی جانب نکل گیا۔ اس وقت ذہن میں ایک کیڑا تھا۔ نظام بدلے گا۔ جب آئے گا عمران بڑھے گی اس قوم کی شان۔۔

جاوید ہاشمی نے نون لیگ چھوڑتے ہوئے جلسے میں دھماکا دار انٹری دی تھی۔ خپلو میں بیٹھے بیٹھے میں اُچھل پڑا تھا۔ اس بات کو میں نے کبھی نہیں چھپایا برملا اظہار کیا ہے۔ الیکشن آئے تو سنہ دو ہزار تیرہ میں شدید کمپین کی۔ اتنی شدید کہ میرے نون لیگ کے دوست مجھے یہ کہہ کر چھوڑ گئے کہ تم فنکار آدمی ہو، سیاسی کمپین نہ کرو۔ مگر آپ جانتے ہیں نئی جوانی اور نیا ولولہ کہاں چین لیتا ہے۔ میں بھی ان کو "پٹواری" کہہ کر بلاک کر دیتا۔ انتخابات کے بعد خیبر پختونخواہ میں حکومت بن گئی۔ اس حکومت کے اعلیٰ لوگوں سے میری سلام دعا تھی۔ عاطف خان، اسد قیصر، خٹک صاحب سے شناسائی تھی۔

تبدیلی اندر سے دیکھنے کو نصیب ہوئی۔ رفتہ رفتہ مجھے احساس ہوا کہ یہاں بھی وہی کچھ ہے جو پہلے ہوتا تھا۔ وہی پروٹوکول، وہی خوشامدی سفارشی کلچر اور ویسے ہی شاہی اللے تللے۔ مگر دل سب دیکھ کر اگنور کرتا رہا۔ وقت اس سہارے بیتتا رہا کہ مرکزی حکومت بنے گی تو تبدیلی آئے گی ناں۔

سنہ دو ہزار اٹھارہ آیا۔ پھر سے کمپین کی۔ پھر کئیں عزیزوں کو ناراض کیا۔ ووٹ ڈلوائے۔ اپنے آبائی حلقے سیالکوٹ گیا۔ 43 ووٹ میں نے ڈلوائے۔ مگر خواجہ آصف دس ہزار کے مارجن سے وہ سیٹ نکال گئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس رات خواجہ صاحب نے آرمی چیف کو کال کرکے ریسکیو طلب کیا تھا۔ خیر، مرکزی حکومت بن گئی۔ مجھے اس وقت باخبر میڈیا کے دوست کہتے تھے تم اینٹی اسٹیبلشمنٹ سوچ کے ہو تو کیسے پی ٹی آئی کے لیے سپورٹ کر رہے ہو؟ کیا تم نہیں جانتے پیچھے کن کی سپورٹ ہے؟ میں جانتا تھا، لیکن میں سمجھتا تھا کہ فوج کی مدد مرکزی حکومت ملنے کی راہ ہے، ایک بار حکومت مل جائے خان صاحب ان سے ڈکٹیشن تھوڑی لیں گے۔ مجھے خان صاحب کے دعوؤں پر بھروسہ تھا۔ اس دور میں ہم جیسے سب ہی بلند و بانگ دعووں کے جھانسے میں ورغلائے گئے تھے اور پھر خان صاحب آئے اور فوج کے آگے لیٹ گئے۔ باجوہ باجوہ ہوگئی۔ سونجیاں ہوگیاں گلیاں۔

تبدیلی کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران میں نے اپنی آنکھوں سے بہت کچھ دیکھا۔ ایک تو کام کے سلسلے میں جانا رہتا تھا دوجا ویسے بھی اعجاز چودھری، میڈم یاسمین راشد، راجہ یاسر ہمایوں سے بسلسلہ آفیشل کام اور اس وجہ سے سلام دعا تھی کہ وہ مجھے بطور سوشل میڈیا انفلیونسر کے جانتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ میں نے پی ٹی آئی کے کئیں بڑے بڑے جلسے کور کئیے۔ سیالکوٹ کرکٹ سٹیڈیم کا جلسہ ہو یا لاہور منٹو پارک کا۔

ایک دن مرکزی سیکٹریٹ لاہور بیٹھا ہوا تھا۔ اعجاز چودھری صاحب دفتر میں موجود تھے۔ ان دنوں وہ دو بار ناراض ہو کر اپنا استعفیٰ مرکزی قیادت کو بھیج چکے تھے اور تیسری بار بھی بھجوانا چاہ رہے تھے۔ وجہ بس یہ تھی کہ وہ اپنے ایک دوست کو جن کا تعلق بہاولپور سے تھا ان کو چئیرمین زکوۃ کمیٹی لگوانا چاہتے تھے مگر ان کی بات مانی نہیں جا رہی تھی۔ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا "سر جی اگر بات نہ مانی گئی تو کیا سچ میں استعفیٰ دے دیں گے؟"۔ بولے "بڑی عمر کا بندہ ہے۔ شریف بندہ ہے۔ پارٹی کے لیے اس کی کافی خدمات ہیں۔ میں نے وعدہ کیا تھا کہ بنوا دوں گا۔ میری بات نہیں سننی تو پھر کیا فائدہ"۔ یہ سُن کر میں نے ہنستے ہوئے کہا "میں بھی شریف بندہ ہوں، پارٹی کے لیے بھاگ دوڑ و عکسی خدمات ہیں۔ مجھے چئیرمین لگوا دیں"۔ اس دن اعجاز چودھری صاحب سے آخری ملاقات تھی۔ اس کے بعد کبھی نہیں ملا۔ کچھ دن بعد وہ صاحب چئیرمین لگ گئے تھے۔

میرٹ کا قتلِ عام اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ جس نظام کو بدلنا تھا یہ اسی نظام سے حصہ وصولنے لگے۔ وہی سب کچھ ہوا جو پہلے ہوتا آیا تھا۔ پنجاب ہیلتھ فسیلٹی کمپنی میں سندھ سے ڈپیوٹیشن پر بیوروکریٹ عرفان میمن کو بلا کر اٹھارہ لاکھ ماہانا تنخواہ پر سی ای او کس نے بنوایا تھا؟ کس نے اپنی دوستی بھگتائی تھی؟ عمران خان صاحب کا ٹوئٹر اکاؤنٹ ہینڈل کرنے والا پولیو کا انچارج بنا دیا گیا۔ جب شور مچا تب ہٹا دیا۔ انیل مسرت سرکاری میٹنگز کا حصہ بننے لگا۔

مجھے ایک بار بیرون ملک جانے کے واسطے ویزا لینا تھا۔ ویزا ڈاکومنٹس میں پولیس کریکٹر سرٹیفکیٹ لازم تھا۔ میں نے ایک تعلق والے پولیس آفیسر کو کال کی جو ڈی پی او سیالکوٹ رہ چکے تھے اور ان دنوں ایس ایس پی آپریشنز لاہور تعینات تھے۔ انہوں نے مجھے دفتر بلا لیا کہ پانچ منٹ میں ایشو ہو جائے گا اس طرح ملاقات بھی ہو جائے گی۔۔ پہلی بار گوگی کا نام اسی دفتر سے سنا تھا۔ پھر معلوم ہوا کہ گوگی ایک کردار ہے جو مستقل طور پر وزیراعلیٰ ہاؤس میں رہائش پذیر ہے۔ اس وقت تک عام پبلک گوگی سے شناسا بھی نہیں تھی۔ کئیں دیہاڑی باز لوگ بزدار حکومت کی چھتری تلے کام پر لگے ہوئے تھے۔ شہباز گل پنجاب میں بطور مشیر کام کر رہا تھا لیکن سب جانتے تھے کہ ڈی فیکٹو چیف منسٹر وہ ہے۔ پھر اچانک اسے ہٹا کر مرکز میں بلا لیا گیا۔ اس کو ہٹانے کی وجہ فرح گوگی کی اس سے ناراضگی تھی۔ وہ کچھ سرکاری افسران کے تبادلوں پر ضد لگا رہا تھا۔

بہت کچھ دیکھا ہے۔ کئیں باتیں آن ریکارڈ نہیں لا سکتا کئیں نام بوجوہ مجبوری نہیں لے سکتا۔ جن کے لے سکتا تھا لے لئے ہیں۔ عمران خان صاحب کو بھی قریب سے دیکھا ہے۔ تبدیلی کا کیڑا مرا نہیں پارٹی کی طرف سے مارا گیا تھا۔ جیسے فوزیہ قصوری کا مارا گیا تھا۔ جیسے وجیہہ الدین کا مارا گیا تھا۔ جیسے ہر اس نظریاتی کارکن کا مارا گیا تھا جو پارٹی کو سچ میں تبدیلی کا استعارہ دیکھنا چاہتا تھا۔ مگر پارٹی میں خوشامد کا کلچر اتنی گہری جڑیں پکڑ چکا تھا کہ جو جتنا ٹی سی ماسٹر تھا وہ اتنا ہی قیادت کے قریب تھا اور اس کی ہی سُنی جاتی تھی۔ شہزاد اکبر سمیت کئیں پیراشوٹئے لینڈ ہونے لگے تھے۔ آٹھ ماہ کے دوران میں نے بہت کچھ اندر سے دیکھ کر توبہ کر لی۔ دکھ تو بہت ہوا مگر کیا ہو سکتا ہے۔

گلگت بلتستان کے الیکشنز آئے۔ میں ان دنوں گوجال میں فوٹوگرافی کر رہا تھا۔ پھر سے خزاں موسم تھا۔ پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے صدر امجد ایڈووکیٹ صاحب سے اتنا ہی پرانا تعلق ہے جتنا گلگت بلتستان سے میرا۔ ان دنوں بلاول زرداری صاحب کمپین کرنے ہنزہ تشریف لائے۔ امجد ایڈووکیٹ صاحب نے مجھے انگیج کیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ گلمت گاؤں کی پولو گراؤنڈ میں بلاول کا جلسہ کرتے چند تصاویر لے لوں تو اچھا ہو جائے گا۔ میں چونکہ وہاں موجود تھا اور امجد صاحب سے تعلق بھی اچھا ہے میں نے حامی بھر لی کہ انہوں نے چھوٹا سا کام ہی تو کہا ہے اگر ان کی خوشی اسی میں ہے تو چلو ٹھیک ہے۔

مگر ہوا یوں کہ بلاول شام کو پہنچا۔ جلسہ کرتے رات کے سائے پھیلنے لگے اور رات میں جو فوٹوگرافی کا پلان کینسل ہوگیا۔ پلان یہ تھا کہ جلسہ چار بجے ختم ہو جائے گا۔ اس کے بعد بلاول صاحب کی تصاویر گلمت گاؤں کی گلیوں میں یا خزاں رسیدہ درختوں کے درمیاں اچھی سی باقاعدہ فوٹوشوٹ جیسی لوں گا۔ خیر، جلسے کے بعد سرینا ہوٹل ہنزہ ڈنر تھا۔ میں مدعو تھا۔ وہاں امجد صاحب نے بلاول سے میرا تعارف لمبا چوڑا کروا دیا کہ یہ ہمارے گلگت بلتستان کی شان ہیں، آن ہیں جان ہیں وغیرہ وغیرہ۔ جیسے سیاستدان بولتے ہیں۔ بلاول نے سُن کر مجھے کہا "بخاری صاحب آپ پیپلز پارٹی جوائن کیوں نہیں کرتا؟ ہم کو آپ جیسا لوگوں کا ضرورت ہے۔ آپ لکھنے بولنے گھومنے والا لوگ ہے"۔ میں نے ہنس کے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ایسا کبھی سوچا نہیں مگر آپ نے کہا ہے تو غور کروں گا۔

سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں اک جانب۔ ان کا ذکر چھوڑتے ہوئے ان کا ذکر کروں جن کے پاس اصل طاقت ہے۔ آئی ایس پی آر کے واسطے میں نے کام کیا ہے۔ گیارہ کور کے واسطے کیا ہے۔ سدرن کمانڈ بلوچستان کے واسطے کیا ہے۔ سکستھ ایویشن اسکوارڈن کے واسطے کیا ہے۔ اس وقت کے اعلیٰ فوجی افسران سے بہت اچھی سلام دعا تھی اور اب بھی کئیوں سے ہے۔

آج یہ ساری کتھا سنانے کا مقصد یہ ہے کہ اب وقت بیت چکا ہے۔ اب میں کہہ سکتا ہوں۔ اگر بہت سی خوشامد اور زبردست چاپلوسی اور جینے مرنے کی قسمیں کھانے والا ہوتا تو کوئی نوکری کوئی عہدہ لے چکا ہوتا۔ اگر فوج سے کچھ مانگا ہوتا تو ان کے پے رول پر ہوتا۔ میرے جیسے لوگ نہ کسی سیاسی جماعت کو سوٹ کرتے ہیں ناں ہی کسی قدغن میں رہ سکتے ہیں۔ میں بطور پاکستانی اپنے ملک کی فلاح چاہتا ہوں اور جب دیکھتا ہوں کہ یہاں سارا نظام اُلٹ چلتا ہے تو دکھ ہوتا ہے۔ اسی سبب لکھتا بولتا ہوں اور اسی وجہ سے کھُل کے جرنیلوں کی کرتوتوں اور سیاستدانوں کی دھوکا دہی پر لکھتا ہوں اور ایسا انسان تب ہی کر سکتا ہے جب وہ کسی کے زیر اثر نہ ہو۔

میں سمجھ سکتا ہوں کہ جو لوگ اس نظام کو اندر سے نہیں دیکھتے۔ یا جن کو پرکھنے کا موقعہ نہیں ملتا۔ یا جو ان سیاستدانوں سے قریب سے آشنا نہیں یا جو بیرون ممالک مقیم ہیں ان کے جذبات اپنی جگہ ٹھیک ہیں۔ انہوں نے وہی دیکھا جو میڈیا یا سوشل میڈیا نے دکھایا اور اسی سے اپنی سوچ کے مطابق نتیجہ اخذ کرکے اپنی سائیڈ منتخب کر لی۔ آپ سب لوگ اپنی اپنی جگہ بالکل ٹھیک ہو۔ آپ ان نظام سے تنگ ضرور ہو مگر اس نظام سے آشنا نہیں۔ میں تنگ بھی ہوں آشنا بھی ہوں۔

آپ میں سے جو جہاں جہاں لگا ہوا ہے لگا رہے۔ خوش رہے۔ وقت خود ہی نتھار دیتا ہے۔ جیسے ففتھ جنریشن وار نتھر گئی۔ یہاں سب سیاسی میٹیریل کچھ ساخت کے رد و بدل کے ساتھ خصوصیات میں ایک سا ہی ہے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari