Traveling Mood On Hai
ٹریولنگ موڈ آن ہے

میرے کمرے کی دیواروں پر میری تصویریں لگی ہیں جو پچھلے سترہ سالوں سے میرے جنون کی عکاس ہیں، میں جب کمرے میں ان کے بیچ کھڑا اپنے آپ کو دیکھتا ہوں تو گزرے ہوئے ماہ و سال، سفر میں بیتے لمحے، جلتی دوپہریں، ٹھنڈی شامیں، سُلگتی راتیں، چاند کی وارداتیں، بچوں کی ہنسی سب ایک ٹائم لیپس فلم کی صورت میرے ذہن کے پردے پر چلنے لگتے ہیں کبھی کبھی تو تصویریں سچ میں باتیں کرنے لگتی ہیں اور کہتی ہیں تم نے ہمیں قید کیا ہمیں اس فریم سے رہائی دو اور خود بھی ہماری یادوں سے آزادی پاؤ۔۔
مجھے وہ منتر بھول گیا ہے جس کو پڑھ کر میں ان منظروں اور مجسم لوگوں کو رہا کر سکتا۔۔ میرے خدا نے مجھے صرف قید کرنا سکھایا تھا۔۔ میرے لیئے یہ بھی ایک دل پر پتھر ہے کہ روز دکھ سکھ کے دنوں کو خیال میں لا کر اداس ہو جاؤں۔۔ ایک نگر کی بچی کی ہنستی تصویر ہے جس کی آنکھوں کی پُتلیوں سے اس باغ کا عکس نظر آتا ہے جہاں وہ کھڑی تھی، جو کہتی ہے کہ آؤ ہمارے ساتھ کھیلو اور میں نمزدہ آنکھوں سے جواب دیتا ہوں کہ کھیلنے کی عمر تو اب خواب ہوگئی۔ اب تو نہ جنوں ہے نہ سکوں ہے یوں ہے۔۔
بدلتے موسموں کی دلداری اور بیتے شب و روز کی دل آزاری دونوں پر یقین کرنے کے لئے کبھی کبھی بھولی بسری یادوں کو چھُو لینا بھی اچھا ہے۔ میرے پاس ایک یہ حیلہ بھی تو ہے کہ لوگ میری ذاتی زندگی کے بارے بھی پوچھتے ہی رہتے ہیں۔ مجھے یاد ہے میں بڑی باقاعدگی سے ڈائیری لکھتا تھا۔ لمحوں کی انگلی تھام کر چلتا اور لفظوں میں سانس لیتا۔ جذبوں کو پہچاننا ابھی نہیں سیکھا تھا مگر ہاں جو وہ روز و شب جو میرے اندر ہی طلوع و غروب ہوتے ان کا حساب درج کرتا جاتا۔
سید قبیلے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے میرے آنگن میں تب اذانوں کے اجالے تھے، دعاؤں کے سویرے تھے مگر طاقوں میں روایات کے بُت بھی سجے ہوئے تھے جو ہر چیز سے برتر تھے۔ اصول تھے ایسے کہ جن کو توڑنا خدا کے حکم کو جھُٹلانے جیسا تھا۔ زمین تھی مگر خاندانی جھمیلوں کی وجہ سے نسل در نسل مقدمہ بازی منتقل ہوتی چلی جاتی اور آخر میں کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ ہر فریق اپنے آپ سے ہی پچھتاوے میں دست و گریباں ہُوا۔ میں نے والد کے گزرنے کے بعد سب تیاگ کر خاندانی و زمینی جھملیوں سے راہ فرار اختیار کی۔ پاؤں میں سفر کے بھنور پڑے تو ہاتھ میں کیمرا بھی آ گیا۔
میرے ابا کے کزن یعنی چچا انہی زمینوں کے سبب ارب پتی ہوئے۔ سیالکوٹ شہر کا وہ رقبہ کمرشل زون میں آ گیا۔ آج بھی ان کے بیٹے رفتہ رفتہ سب بیچ باٹ کر ٹھاٹ سے رہ رہے ہیں۔ میری والدہ کے انتقال پر چچا کو نجانے کیا سوجھی۔ گھر آ گئے اور مجھے کہنے لگے تم کوئی کاروبار کرنا چاہتے ہو تو مجھے بتاؤ، پیسوں کی پرواہ نہ کرو، جتنے لگے میں دوں گا۔ ان کا شکریہ ادا کرکے رخصت کر دیا۔ آخری بار سنہ 2014 میں ان کے جنازے پر جانا ہوا تھا۔ اس کے بعد پلٹ کر گاؤں نہیں دیکھا۔ سفر میں ماضی یاد آتا رہتا ہے، حال میں مقامی دوستوں سے ملاقاتوں میں ہنسی مزاق بھی چلتا رہتا ہے اور مستقبل کے نقشے بنانے چھوڑ چکا ہوں۔ خود کو اندیشوں و وسوسوں سے آزاد کر لیا ہے۔ سمے کا دھارا اپنے ساتھ بہاتے مجھے آج یہاں لے آیا ہے۔ کل یہ جہاں بھی لے جائے سو لے جائے۔
آنے والے کچھ دن ایک بار پھر گلگت بلتستان کے خزاں موسم کو دیکھتے سکردو، ہنزہ، گوجال اور غذر کی وادیوں میں بیتیں گے۔ میرا ٹریولنگ موڈ آن رہے گا۔ فوٹوگرافی میرے لیے ہمیشہ ثانوی رہی، اول سفر ہی رہا۔

