Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Train To Pakistan

Train To Pakistan

ٹرین ٹو پاکستان

خشونت سنگھ کا ناول "ٹرین ٹو پاکستان" حقیقی کرداروں اور حقیقی واقعات پر مشتمل ناول ہے جس پر بعدازاں بھارتی سینما نے اسی نام سے فلم بنائی۔ اس کا مرکزی کردار جگا سنگھ ہے جو جگا گجر کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ جگے نے اپنی محبوبہ نِمو کو پاکستان جانے والی ٹرین پر چڑھنے سے بچاتے ہوئی اپنی جان دے دی تھی۔ جگا جانتا تھا ٹرین پر تلواروں سے لیس مشتعل سکھ جتھا حملہ کرے گا۔ خیر، جگا تو مارا گیا لیکن اس کی بہن حمیداں عرف میداں لاہور میں کافی عرصے تک کہانیاں بن کر لوگوں کے زبان پر چھائی رہی۔ خشونت سنگھ نے میداں کو ڈھونڈ نکالا تھا اور اس سے ملنے پاکستان آئے تھے۔ سو سال سے زائد عمر پانے والے خشونت سنگھ لاہور کچہری میں وکیل تھے۔ جولائی سنہ 47 کو وہ لاہور چھوڑ کر دہلی چلے گئے۔ تقسیم کے بعد انہوں نے لاہور کے متعدد چکر لگائے۔ خشونت سنگھ کو لاہور مرتے دم تک نہ بھول سکا۔

جگے کی بہن حمیداں عرف میداں نے بھاٹی دروازے کے باہر واقع داتا دربار کے اطراف میں ڈیرہ بنایا تھا۔ تھی وہ گجر، جیسا اس کا بھائی گجر تھا۔ میداں علاقے میں مشہور تھی۔ مشہوری کا سبب ایک تو جگے کی بہن ہونا تھا، دوجا اس نے سو کے قریب بھینسیں پال رکھی تھیں اور ان کی دیکھ بھال خود کرتی تھی۔ اس نے سکھ مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کر لیا تھا۔ علاقے پر اس کا اثر و رسوخ تھا۔ چھ فٹ قد کی عورت تھی جو لاچا پہنا کرتی، ڈیرے پر چارپائی ڈالے حقہ پیتی رہتی۔ میداں اپنی گجر برادری میں مشہور تھی۔ وہ اپنی برادری کی کوٹ کچہری بھی لگاتی تھی۔ تھانہ بھاٹی دروازے میں چلے جائیں آپ کو دلچسپ قصہ سننے کو ملے گا۔ ایک مقدمہ آج بھی درج ہے۔

ارد گرد کے دیہاتوں سے چوری کی گئیں بھینسیں چور لا کر میداں کو سستے داموں بیچ جاتے تھے۔ میداں پر ایف آئی آر کٹی تو سنہ 73 میں تھانیدار نے میداں کو گرفتار کر لیا۔ ایک گھنٹے بعد تین سو سے زائد گجروں نے تھانے پر دھاوا بول دیا۔ صورتحال پر قابو پا کر پولیس نے میداں کو جوڈیشل کر دیا۔ پانچ روز تک گجروں نے لاہور کو دودھ کی سپلائی بند رکھی۔ لاہور میں دودھ کا بحران آ گیا۔ میداں کے مقدمے کی پیروی کے لیے لاہور کے ہر گجر نے اس زمانے میں ایک ایک تولہ سونا مشرکہ فنڈ میں دیا۔ مشہور قانون دان عبد الحفیظ پیرزادہ کو وکیل کیا۔ یہ پیرزادہ وہی ہیں جنہوں نے سنہ 73 کے آئین کا ڈرافٹ تیار کیا تھا۔

پہلی پیشی پر ہی جج نے میداں کو ضمانت پر رہا کر دیا اور ایس ایچ او کی سرزنش کی۔ میداں نے رہا ہو کر نعرے مارے۔ اس روز لاہور میں دودھ مفت تقسیم کیا گیا۔ میداں نے لمبی عمر پائی۔ وہ سنہ 2003 میں فوت ہوئی۔ آج بھی میداں کا ڈیرہ داتا گنج بخش ٹاؤن میں ہے۔ اس کی دیکھ بھال میداں کی منہ بولے بھائی کا بیٹا کرتا ہے۔

میداں کا ڈیرہ اسی اور نوے کی دہائی میں لاہور میں جاری گینگ وار میں اجرتی قاتلوں کی پناہ گاہ بنا رہا۔ میداں صرف گجروں کو پناہ دیتی تھی۔ اچھو، گوگا، بالا وغیرہ وغیرہ جیسے کئی بے رحم اجرتی قاتل گجر برادری سے تھے۔ یہ اغوا برائے تاوان والے گینگز کا بھی حصہ تھے۔ ان پر جب لاہور کی زمین تنگ ہو جاتی یہ فرار ہو کر لنڈی کوتل کے علاقے جمرود چلے جاتے جہاں بھولا سنیارا گینگ نے ڈیرہ بنا لیا تھا اور وہ ڈیرہ پاکستان بھر سے مفروروں کی پناہ گاہ تھی۔ میداں براہ راست ملوث تھی نہ اس کا نام کسی مقدمے میں داخل ہوا۔ یہ بس گجروں کی سرپنچ ہونے کے ناطے کچھ دن پناہ دیتی تھی۔

جہاں ہیرا منڈی کا ماما مودا یا جگ ماما ایک عجب کریکٹر ہے جس کا ذکر مُلا مظفر پر لکھی تحریر میں کر چکا وہیں میداں بھی ایک عجب کریکٹر ہے۔ ایک بار انکاؤنٹر سپیشلسٹ انسپکٹر نوید سعید عرف نیدی پہلوان نے ڈیرے پر مجرموں کی تلاش میں چھاپا مارا۔ میداں کی وہ عزت کرتا تھا۔ اس کا سبب کہ میداں براہ راست جرم کی دنیا میں شریک نہیں تھی۔ میداں نے اسے گرم دودھ پلایا اور بولی "نیدی، جیسے تم اپنا کام کرتے ہو میں اپنا کام کرتی ہوں۔ گجر میرے بچوں جیسے ہیں۔ اگر کوئی یہاں آتا ہے اماں میداں اس کو آنے سے نہیں روکے گی۔ تجھے کوئی باہر ملتا ہے جو چاہے تُو کر، لیکن میرے ڈیرے پر پولیس وردی اور پولیس ٹیم کے ساتھ نہ آ"۔

گذشتہ روز میں نے ہیرا نامی ایک بندے کی کال کا ذکر کیا جس نے کال پر کہا تھا میں اس کے بارے بھی تھوڑا لکھ دوں۔ اس پر بھی کئی مقدمات ہیں۔ شاید وہ مزاق یا پرینک کر رہا تھا۔ خیر، انعام رانا بھائی نے اس پر برائے شغل کمنٹ کرتے کہا کہ مہدی بھائی آپ ہیرامنڈی کی مشہور رقاصاؤں پر لکھیں تاکہ آپ کو بہتر کالز آئیں۔ مزاق کے سوا، بازار حسن کا جرم کی دنیا سے تعلق رہا ہے۔ زمرد بیگم، نیلی بائی، نیناں، نادرہ، ماما مُودا، سمیت کئی کردار ہیں جو یا تو جرم کی دنیا کے ہاتھوں کسی تنازعے کے سبب قتل ہوئے یا جرم کی دنیا میں براہ راست شریک رہے۔ اسی بازار نے فلم اور تھیٹر کی دنیا میں کئی اداکاراؤں کو بھی جنم دیا۔ ان کے کرپٹ افسران اور جرائم پیشہ افراد سے تعلق بھی رہے۔

آج بھی کہیں کوئی جگ ماما ہے، گینگسٹرز ہیں، انکاؤنٹر سپیشلسٹس ہیں، مجرموں کے تحفظ کو بڑے وکلاء بھی ہیں، بڑے بڑے مجرموں کی میڈیا میں وکالت کرنے والے صحافی و اینکرز بھی ہیں، مجرموں کی پناہ گاہیں سیاسی شخصیات کے ڈیرے بھی ہیں، پولیس اور انتظامیہ بھی ویسی ہی چل رہی ہے جیسے چلتی آئی ہے۔ نظام چلتا آ رہا ہے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam