Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Trabzon

Trabzon

ٹریبزون

بحیرہ اسود کے کنارے بسا ٹریبزون جمہوریہ ترکیہ کا ایک دلکش شہر ہے۔ خوبصورت ساحل اس کی دلکشی کو چار چاند لگاتا ہے۔ شام گئے سفر کرتا اس شہر میں داخل ہوا تو پہاڑوں پر بسی آبادیوں کے برقی قمقمے جگمگا رہے تھے۔ ساحل کے ساتھ ساتھ چلتی سڑک پر سفر کرتا آ رہا تھا۔ پہلی نظر میں یہ شہر سجی سجائی دُلہن جیسا لگا۔ اپنے ہوٹل کی پارکنگ میں گاڑی لگا کر اندر داخل ہوا۔

ریسپشن پر ایک بزرگ تُرک خاتون بیٹھی تھی اور اس کے برابر میں اس کی بیٹی تھی۔ بیٹی کی عمر میری بیٹی جتنی ہوگی۔ پندرہ سال۔ دونوں انگریزی سے نابلد تھے اور مجھے ترکش نہیں آتی۔ بلآخر ٹرانسلیشن ایپ کا سہارا لینا پڑا۔ لڑکی نے اس پر لکھ کر میرے سامنے کر دیا۔ وہ پاسپورٹ مانگ رہی تھی۔ اس نے پاسپورٹ کو سکین کیا۔ چیک ان کارڈ پر میری معلومات خود لکھیں۔ عورت چپ بیٹھی دیکھتی رہی۔ لڑکی نے مجھے کمرے کی چابی تھمائی۔ وائی فائی کا پاسورڈ دیا اور میں اپنے کمرے میں چلا گیا۔

کچھ دیر سستانے کے بعد کھانے کی خاطر باہر نکلا۔ ریسپشن پر ماں بیٹی موجود تھیں۔ لڑکی اپنے سکول کی کتابیں ریسپشن پر بکھیرے کام کرنے میں مگن تھی۔ اسے یوں سکول ورک کرتے دیکھ کر مجھے اپنی بیٹی یاد آ گئی۔ میں ریسپشن پر گیا۔ ٹرانسلیشن ایپ کے توسط سے پوچھا" آپ سکول ورک کر رہی ہو؟ سکول جاتی ہو یا ہوٹل کی ریسپشن ہی سنبھالتی ہو اور پرائیوٹ سٹڈی کرتی ہو؟"۔ لڑکی میسج پڑھ کر مُسکرائی۔ پھر اس نے اپنی ماں کو اپنی زبان میں بتایا۔ ماں نے ترکش زبان میں مجھے نجانے کیا کہا پھر خود ہی سر جھٹک کر اپنی بیٹی کو کچھ کہنے لگی۔ بیٹی نے اپنا موبائل اُٹھایا۔ اس میں بول کر ٹرانسلیٹ کرنے والی ایپلیکیشن موجود تھی۔ وہ مسلسل موبائل کے سپیکر پر بولتی رہی۔ میں الرٹ ہوگیا کہ یہ اتنا لمبا کیا بولنا چاہ رہی ہے۔ بلآخر اس نے موبائل میرے سامنے کر دیا۔

"میں سکول نہیں جاتی خود پڑھتی ہوں۔ ہوم سٹڈی۔ میری ماں کہہ رہی ہے کہ تم پاکستان سے یہاں گھومنے آئے ہو یا کام کرنے؟ پاکستان کے حالات ترکی سے اچھے ہیں کیا؟ یہ چھوٹا سا ہوٹل ہمارا ہے۔ میرا ایک جڑوا بھائی ہے وہ شام کو آ جائے گا۔ "

میں نے اپنی ایپ پر لکھ کر جواب دیا " ماں کو کہو کہ پاکستان کے حالات اس سے بھی خراب ہیں۔ میری بیٹی بالکل تمہارے جیسی ہے اور ایسے ہی کتابیں ہر جگہ بکھیر کر ان کے اوپر جھُک کر پڑھتی ہے۔ تمہارا جڑوا بھائی سکول جاتا ہے یا وہ بھی ہوم سٹڈی کرتا ہے؟"۔ اس نے پڑھ کر جواب دیا

"بھائی سکول جاتا ہے۔ اسی لیے تو شام کو آتا ہے اور پھر رات کی شفٹ وہی کرتا ہے۔ "

یہ پڑھ کر میں نے پوچھا " تم سکول کیوں نہیں جاتی بھائی کے ساتھ؟"۔ جواب ملا " میں جاؤں گی تو ہوٹل کون سنبھالے گا؟ ماں کو نہیں سنبھالنا آتا۔ ماں بس مہمانوں کے لیے کچن میں کھانا بنا سکتی ہے اور یہاں کوئی مہمان کھاتا ہی نہیں۔ سب باہر جا کر کھاتے ہیں"۔

میرا یہ جواب سن کر نجانے کیوں دل بھر آیا۔ میں نے اسے کہا " تمہاری ماں دالوں کا سوپ بناتی ہوگی۔ مجھے ایک پیالہ وہ بنا دو اور ایک کوفتے کی ڈش (یہاں کوفتے شوربے والے نہیں ہوتے۔ گرل پر بنے ہوتے ہیں جیسے بار بی کیو بنتا ہے)"۔ آرڈر دے دیا۔ میں واپس اپنے کمرے میں آ گیا کہ کھانا اب یہیں آ جائے گا۔

کچھ دیر ہی گزری کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ لڑکی سامنے کھڑی تھی۔ موبائل میرے سامنے کر دیا " ماں کہہ رہی ہے کہ آج تم باہر سے کھا لو۔ پتہ نہیں تم کو ہمارا کھانا کیسا لگے۔ کوفتے فریز ہوئے ہیں ان میں وقت لگ جائے گا۔ کل بھی تم یہیں ہو تو کل ماں ضرور بنا دے گی۔ میری ماں کھانا بناتے شرما رہی ہے۔ وہ کہہ رہی ہے کہ یہ سفر کرکے بھوکا ہے اگر اسے اچھا نہ لگا تو ٹھیک نہیں ہوگا۔ "۔

یہ تین کمروں پر مشتمل چھوٹا سا ہوٹل ہے۔ ہوٹل بھی کیا بس گھر نما ہے جو انہوں نے ائیر بی این بی پر بکنگ کے لیے لگایا ہوا تھا۔ میں نے لوکیشن دیکھ کر بک کر لیا تھا۔ سامنے ساحل ہے۔ چند قدموں پر اس شہر کا سب سے بڑا مال "فورم مال" ہے اور چند قدموں پر ہی شہر کا مرکزی اسکوئر اور بازار ہے۔ میں کھانا کھانے باہر نکل گیا۔ واپس آتے مجھے خیال آیا تو میں نے دو عدد کارنیٹو آئس کریم لیں۔ ہوٹل پہنچا۔ ریسپشن پر دونوں بہن بھائی اور ماں موجود تھے۔ میں نے ان دونوں کو آئسکریم دی۔ لڑکے نے مصافحہ کیا اور دونوں نے شرماتے شرماتے قدرے تردد کے بعد آئسکریم لے لیں۔ مجھے موبائل پر لکھ کر ان کو پڑھانا پڑا

"لے لو۔ تم دونوں کے لیے ہی لایا ہوں۔ میری بھی ایک بیٹی ہے بالکل تمہاری بہن جیسی اور ایک بیٹا جو تم سے تین سال چھوٹا ہے مگر لگتا تمہارے جتنا ہی ہے"۔ وہ دونوں پڑھ کر ہنسے۔ ان کی ماں نے ان سے اپنی زبان میں کچھ بات کی۔ پھر لڑکی نے موبائل پر بول کر میرے سامنے رکھا " ماں پوچھ رہی ہے کہ تمہاری ماں بھی میری جیسی ہے کیا؟"۔ یہ پڑھتے ہی میرا موڈ سنجیدہ ہوگیا مجھے اپنی ماں یاد آ گئی۔ میں نے لکھا " ہاں اگر زندہ ہوتی تو اب ایسی ہی ہوتی شاید" اور اپنے کمرے میں آ گیا۔

سفر سے مجھے اس لیے لگاؤ ہے کہ سفر میں اداسی غالب رہتی ہے۔ اور میرا مزاج ایسے ہے ڈھلا ہے کہ مجھے اکیلے سفر کرنا اور مناظر کو اکیلے دیکھتے رہنا اچھا لگتا ہے۔ اس پر کبھی ماضی کی یاد آ جائے تو ناسٹالجیا کا شکار لوگ لو بلڈ پریشر کے مریض کی مانند ایک جگہ ہی ساکت بیٹھے رہ جاتے ہیں۔ اماں کو بچھڑے ڈیڑھ دہائی بیت گئی مگر یہ وہ کمی ہے جو قبر تک بھی اپنا احساس شدت سے دلاتی رہے گی۔

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail