The Mystic, The Cricketer And The Spy: Pakistans Game Of Thrones
دی مسٹک، دی کرکٹر انڈ دا سپائی: پاکستانز گیم آف تھرونز

2010 کی دہائی کے وسط میں عمران خان شاید ادھورے پن کا شکار تھے۔ 1992 کے کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستان کی ٹیم کو فتح دلانے کے بعد وہ ملک کے طول و عرض میں ہیرو کے طور پر جانے جاتے تھے۔ مگر جب ان کی عمر ساٹھ کے قریب پہنچی تو شہرت، چمک دمک اور نت نئی محفلیں انہیں ادھورا سا محسوس ہونے لگیں۔ خان سیاست میں کوئی بڑا نشان چھوڑنا چاہتے تھے۔ ان کے پاس کئی مواقع آئے۔ 1990 کی دہائی کے اوائل میں بڑی سیاسی جماعتیں ان کی مقبولیت کا فائدہ اٹھانا چاہتی تھیں اور انہیں اپنی صفوں میں شامل کرنے کی کوشش کرتی رہیں، مگر وہ انہیں بدعنوان سمجھتے ہوئے ان سے دور رہے۔ انہوں نے اپنی ہی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی بنیاد رکھی اور سیاست کو صاف کرنے کا عزم کیا۔ تاریخی طور پر پاکستان میں دو سیاسی جماعتوں کا غلبہ رہا ہے، دونوں طاقتور سیاسی خاندانوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ اپنی جماعت بنا کر الیکشن لڑنا گویا سیاسی صحرا میں بھٹکنے کے مترادف تھا اور انہیں سنجیدگی سے نہ لیا جاتا تھا۔
جب بھی صحافی ان سے پاکستان کی حالت پر گفتگو کرنا چاہتے، وہ یا تو کرکٹ کے بارے میں پوچھتے یا ان کی نئی گرل فرینڈ کے بارے میں۔ ایک لمحے کو ایسا لگا کہ عمران خان اپنی منزل کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ 2014 میں انہوں نے نواز شریف، جو نئی منتخب شدہ وزیراعظم تھے، کے خلاف احتجاجی تحریک چلائی۔ خان کا الزام تھا کہ انہوں نے دھاندلی سے وزارتِ عظمیٰ حاصل کی ہے۔ یہ بات کہ ان احتجاجوں کو اسلام آباد کے مرکز تک آنے کی اجازت ملی، اس خیال کو تقویت دیتی تھی کہ شاید فوج جو پاکستان کی بظاہر جمہوری سیاست کے پیچھے اصل قوت سمجھی جاتی ہے اب حکومت کی تبدیلی چاہتی ہے۔ مگر آخرکار یہ تحریک ٹھنڈی پڑ گئی۔ خان نے 2016 میں دوبارہ کوشش کی، جب پاناما پیپرز کے نام سے مشہور دستاویزات کے لیک میں نواز شریف کے بچوں پر کرپشن کے الزامات لگے (انہیں بعد میں بری کر دیا گیا)۔ سابق کرکٹر نے پشاور میں احتجاجی کیمپ لگایا، مگر دارالحکومت کی طرف مارچ کبھی نہ ہو سکا۔ سیاسی حلقوں میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں کہ شاید خان کا وقت گزر چکا ہے۔
گھر کی زندگی بھی ان کے لیے سکون کا باعث نہ رہی۔ ان کی دوسری اہلیہ، ریحام خان، جو بی بی سی میں موسمیاتی خبریں پڑھا کرتی تھیں، سے تعلقات اس حد تک بگڑ گئے کہ وہ ایک ہی کمرے میں مشکل سے بیٹھ سکتے تھے (بعد میں خان نے اس رشتے کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کہا)۔ پھر عمران خان کی ملاقات ایسی شخصیت سے ہوئی جس نے ان کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ ان کو روحانی رہنمائی بھی ملی اور دنیاوی کامیابی کی امید بھی۔
بشریٰ مانیکا، ایک شادی شدہ خاتون تھیں جنہیں صوفی ازم میں گہری دلچسپی تھی۔ پاکستان میں صوفی اپنے روحانی مشورے کے لیے باعلم افراد سے رجوع کرتے ہیں، اگرچہ خواتین کا ایسا مقام کم ہی ہوتا ہے۔ بشریٰ، جنہیں پاکستانی میڈیا میں "بشریٰ بی بی" کہا جاتا ہے، اپنے دوستوں اور خاندان کو روحانی مشورے دینا شروع کر چکی تھیں۔ خان کی ملاقات بشریٰ بی بی سے ان کی بڑی بہن مریم کے ذریعے ہوئی۔ مریم، جو متحدہ عرب امارات میں رہتی تھیں، عمران خان کی قوم پرستانہ، اسلام پسند اور مغرب مخالف سیاسی سوچ سے متفق تھیں اور پی ٹی آئی کے لیے رضاکارانہ کام کرتی تھیں۔ خان اکثر مذہب اور زندگی کے معنی پر پریشان رہتے تھے، تو مریم نے انہیں اپنی بہن سے بات کرنے کا مشورہ دیا۔
بشریٰ بی بی یقیناً عمران خان سے واقف ہوں گی۔ ان کے بچپن کے زمانے میں ملک بھر کے گھروں میں خان کی تصاویر آویزاں تھیں۔ لڑکے ان جیسا کرکٹر بننے کا خواب دیکھتے اور لڑکیاں ان سے شادی کا۔ ابتدا میں بشریٰ بی بی نے فون پر بات کرنے پر آمادگی ظاہر کی اور یہیں سے سلسلہ شروع ہوا۔ یہ فون کالز رات بھر چلتی رہتیں۔ بالآخر فون کالز ملاقاتوں میں بدل گئیں۔ بشریٰ کے شوہر خاور مانیکا ابتدا میں خوش تھے۔ انہیں اپنے گھر میں اتنی مشہور شخصیت کا آنا اچھا لگتا تھا۔ مگر جیسے جیسے قربت بڑھی، انہیں تشویش ہونے لگی۔ وہ کہتے ہیں، "وہ ان کے ساتھ اکیلے بیٹھ کر بات کرنا چاہتی تھیں۔ میں کہتا تھا، میں شوہر ہوں، ہم ایک ساتھ کیوں نہیں بیٹھ سکتے؟" خاور کے مطابق وہ جب کبھی دونوں کے پاس جاتے تو ماحول اچانک خاموش ہو جاتا۔
مانیکا کے مطابق ان کی بیوی نے عمران خان سے کہا تھا کہ انہوں نے مستقبل دیکھ لیا ہے۔ اگر وہ دونوں شادی کر لیں تو عمران خان وزیراعظم بن جائیں گے۔ 2017 کے آخر میں انہوں نے اپنے شوہر سے طلاق لے لی اور 1 جنوری 2018 کو انہوں نے عمران خان سے خفیہ نکاح کر لیا۔ خان کے مطابق انہوں نے شادی سے پہلے اپنی دلہن کا چہرہ تک نہیں دیکھا تھا۔ سابق پلے بوائے کے لیے اب ظاہری حسن کی اہمیت نہ رہی تھی۔ انہوں نے ایک برطانوی اخبار سے کہا، "صوفی ازم ایک سلسلہ ہے جس کے بہت سے درجات ہیں، مگر میں نے اپنی بیوی جیسی روحانی بلندی رکھنے والی شخصیت کبھی نہیں دیکھی"۔
اگر واقعی انہوں نے خان سے کوئی سیاسی پیشگوئی کی تھی تو چند ماہ بعد پی ٹی آئی کی الیکشن میں فتح نے عمران خان کا یقین پختہ کر دیا۔ آخرکار وہ وزیراعظم بن چکے تھے۔ ان کی فتح میں فوج کی حمایت ایک اہم عنصر تھی، مگر عوامی سطح پر ان کا اینٹی کرپشن بیانیہ اور سیاسی نظام سے بیزاری بھی پوری طرح گونج رہا تھا۔ مگر پاکستان میں اقتدار میں رہنا جیتنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ سیاسی نظام غیر مستحکم ہے، جو لیڈروں کو اوپر اٹھاتا بھی ہے اور بے رحمی سے نیچے بھی گراتا ہے۔ پانچ وزرائے اعظم اقتدار چھوڑنے کے بعد جیل جا چکے ہیں۔ فوج طاقتور ہے اور کئی بار براہِ راست اقتدار سنبھال چکی ہے اور جب سول حکومت چل رہی ہو تو بھی سیاسی رہنماؤں کو یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ فوج کیا چاہتی ہے۔ (پاکستان کی تاریخ میں صرف ایک منتخب سول حکومت نے اپنی مدت پوری کی ہے۔)
اقتدار میں آکر خان اپنے بلند وعدوں، اسلامی فلاحی ریاست اور ایک کروڑ نوکریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے۔ سیاسی اور عسکری اشرافیہ سے ان کے تعلقات جلد ہی خراب ہوگئے۔ ان کی اہلیہ نے بھی کئی اہم اتحادیوں کو ناراض کیا۔ وزراء اور گھر کے عملے کو شکایت تھی کہ خاتونِ اول غیر معمولی حد تک امورِ حکومت میں مداخلت کرتی ہیں۔ ایک وزیر نے بتایا کہ "ان کی مداخلت مکمل تھی"۔ 2022 میں پارلیمان نے ان کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ پاس کیا (جس کے بارے میں عام خیال تھا کہ فوج نے اس کے پیچھے کردار ادا کیا) اور عمران خان اقتدار سے ہٹا دیے گئے۔ خاموشی سے رخصت ہونے کے بجائے انہوں نے فوج پر تنقید شروع کر دی اور سڑکوں پر احتجاج کی تحریک بھی۔ جیسا کہ عام طور پر فوج کے ناپسندیدہ رہنماؤں کے ساتھ ہوتا ہے، خان پر کرپشن کے مقدمات بنا کر انہیں جیل بھیج دیا گیا۔
جیل جانے کے بعد خان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ پاکستان کے کرپٹ طبقے کے خلاف ان کی جدوجہد نے انہیں بے شمار چاہنے والے دے دیے۔ اس حد تک کہ فوج نے ٹی وی پر ان کا نام لینا غیر اعلانیہ طور پر ممنوع کر دیا۔ اس کے باوجود "چیئرمین بانی پی ٹی آئی" ہر نیوز پروگرام کا اہم موضوع بنے رہتے ہیں۔ خان ایک مخمصے میں پھنسے ہوئے ہیں: یا تو اصولوں پر قائم رہتے ہوئے جیل میں رہیں، یا فوج کے بارے میں نرم لہجہ اپنائیں اور رہائی حاصل کریں جس سے ان کی جماعت دوبارہ حکومت میں آ سکتی ہے۔
بشریٰ بی بی بھی جیل میں ہیں (ان پر بھی کرپشن کے الزامات ہیں)۔ پنجاب کے ایک دور دراز قصبے کی ایک گھریلو خاتون کس طرح ملک کی سیاست میں اتنی طاقتور شخصیت بن گئیں، یہ پاکستان میں کبھی نہ ختم ہونے والا موضوعِ بحث ہے۔ عمران خان کے دوست کہتے ہیں کہ ان کی سادگی نے بشریٰ بی بی کو اتنی طاقت دے دی۔ دوسروں کے مطابق پاکستانی سیاست کے پس پردہ چالوں اور پوشیدہ ایجنڈوں نے انہیں اتنا بااثر بنایا۔ دونوں باتوں میں کچھ نہ کچھ حقیقت ہے۔ خان کے قریبی لوگوں اور عسکری ادارے کی اہم شخصیات سے کی گئی بات چیت سے ایک چیز واضح ہوتی ہے کہ بشریٰ بی بی کی کہانی، پاکستان کی ہر کہانی کی طرح، جتنی نظر آتی ہے اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔
بچپن میں بشریٰ ریاض وٹو کہلانے والی بشریٰ ہمیشہ دیندار نہیں تھیں۔ ان کی پرورش دیہی پنجاب میں ہوئی جہاں ان کے خاندان کے ایک فرد کے مطابق ان کے دادا اوسط درجے کے زمیندار تھے۔ مگر ان کے والد نے زمین بیچ کر چائنیز ریسٹورنٹ کھول لیا۔ کچھ عرصے بعد بشریٰ اور ان کی بہن مریم کو لاہور بھیج دیا گیا، جہاں وہ بزرگ رشتہ داروں کے ساتھ رہیں۔ مریم کے مطابق دونوں نے کوئین میری کالج میں تعلیم حاصل کی، اگرچہ کالج کے ریکارڈ میں ان کے نام موجود نہیں!
لاہور کا سماجی ماحول اس وقت بھی متحرک اور منفرد تھا۔ وڈیروں اور اشرافیہ کے گھرانے اپنی شان و شوکت دکھانے کے لیے تقریبات منعقد کرتے رہتے۔ بشریٰ بی بی کا خاندان اس اشرافیہ سے ایک درجے نیچے تھا۔ ان کے کچھ جاننے والوں کے مطابق وہ ذرا آزاد مزاج محفلوں میں جایا کرتی تھیں۔ بشریٰ بی بی دیہات میں رشتہ داروں کے ہاں جاتے ہوئے دوپٹہ اوڑھنے سے بھی انکار کر دیتی تھیں۔ ایک دیہاتی پڑوسی کے مطابق "وہ بہت زیادہ ماڈرن تھیں"۔
18 برس کی عمر میں بشریٰ بی بی کی شادی خاور مانیکا سے ہوگئی، جو پنجاب کے ایک معروف سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ لاہور کے ایک سماجی مبصر کے مطابق یہ شادی بشریٰ کے لیے بڑا اعزاز تھی: "مانیکا خاندان بڑے زمیندار ہیں اور وہ نچلے طبقے سے آئی تھیں"۔ شادی نے انہیں آسائش بھی دی مگر پابندیاں بھی۔ ایک امیر گھرانے کی بہو ہونے کے ناطے ان سے توقع تھی کہ وہ بچوں کی پرورش، رشتہ داروں کی میزبانی اور گھریلو ملازمین کے انتظام میں وقت گزاریں (ان کے پانچ بچے ہوئے)۔ مریم کے مطابق بشریٰ بی بی کی شادی خوشگوار نہیں تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے صوفی ازم میں پناہ ڈھونڈی۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ صوفی بزرگ بابا فرید کی درگاہ پر زیادہ وقت گزارنے لگیں، جہاں لاکھوں لوگ اپنی الجھنیں سلجھانے آتے ہیں۔
پاکستان میں مسلمانوں کا تنوع بہت وسیع ہے: صوفی جو موسیقی اور وجد کے ذریعے روحانیت تلاش کرتے ہیں اور شدت پسند گروہ جو صوفی مزارات تک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ مگر صوفی روایت پاکستان میں سب سے زیادہ مقبول ہے۔ صوفی ازم میں ایک مرشد اور پیر کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ کچھ پیر علم اور عبادت پر توجہ رکھتے ہیں، کچھ بڑے جاگیردار بھی بنتے ہیں، کچھ کے پاس اتنے پیروکار ہوتے ہیں کہ وہ آسانی سے انتخابات جیت سکتے ہیں۔ بشریٰ بی بی اپنی تیس سال کی عمر تک ایک چھوٹی پیرنی بن چکی تھیں، جو اپنے حلقے کو مشورے دیتی تھیں۔ وہ راتوں کو عبادت کرتی اور اسلامی تصوف پر کتابیں پڑھتی تھیں۔ خاور مانیکا بھی بظاہر ان کی حمایت کرتے تھے، اگرچہ ان کے بقول وہ خود "پارٹی ٹائپ" انسان تھے۔
پاکستانی سیاست ایک نیٹ فلکس ڈراما سی محسوس ہوتی ہے: بغاوتیں، قتل، دہشت گردی، احتجاج، قبائلی شورشیں اور کبھی کبھی ایٹمی جنگ کی دھمکیاں۔ جب یہ خبر پھیلی کہ عمران خان نے پاکپتن میں ایک نئی خاتون پیرنی سے رابطہ کیا ہے، تو ملک بھر میں تجسس پیدا ہوگیا۔ عمران خان کے نام کئی مشہور خواتین سے جوڑے جاتے رہے ہیں، اس لیے لوگوں نے فوراً اندازہ لگایا کہ شاید یہ بھی کوئی نیا رومانس ہے۔ مگر خان نے ٹی وی پر کہا کہ ان کا تعلق خالصتاً روحانی ہے۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ یہ نقاب پوش، پراسرار عورت ان کے دل پر گہرا اثر چھوڑ چکی تھی۔ اسی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ وہ اسے اپنی بیوی بننے کی درخواست کر چکے ہیں (حالانکہ اس وقت دونوں پہلے ہی شادی کر چکے تھے، جس کی پی ٹی آئی نے بعد میں تصدیق کی)۔
خان کے دوست پریشان تھے۔ ان کے بچپن کے دوست مسعود چشتی نے کہا "وہ کہتے تھے کہ وہ ان کی زندگی میں آنے والی سب سے اچھی چیز ہیں۔ وہ بہت سادہ ہیں اور لوگوں کے بارے میں فیصلہ کرنے میں کمزور"۔ خان کے ایک اور قریبی دوست سلمان احمد، جو موسیقار ہیں، نے کہا: "وہ اس صوفیانہ ہالہ سے باہر نہیں دیکھ پاتے جو وہ اپنے اردگرد رکھتی ہیں۔ یہ ان کی بڑی کمزوری ہے"۔ بشریٰ بی بی کے خان کے گھر آنے کے بعد سب سے زیادہ اعتراض ان کے ڈرائیور محمد سفیر نے کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ریحام خان کے ساتھ شادی انہیں ایک غلطی لگی تھی، مگر بشریٰ بی بی کو لانا "سپر بلنڈر" تھا۔ بشریٰ کے سابق شوہر کے خاندان نے بھی خبردار کیا کہ وہ "کالے جادو" میں ملوث ہیں۔ ایک رشتہ دار نے جہانگیر ترین کو بتایا کہ وہ عملیات کرتی ہیں۔ پاکستان میں ایسی رسومات عام ہیں، جیسے بری نظر سے بچنے کے لیے گوشت پر پھیر کر چھت پر رکھ دینا۔ صدر آصف زرداری کے دور میں بھی ایک پیر ان کے ساتھ رہتا تھا اور روزانہ ان کے نام پر بکرے کی قربانی دی جاتی تھی۔
بشریٰ بی بی کے بارے میں البتہ میڈیا میں بہت بڑھا چڑھا کر کہانیاں بیان کی گئیں۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے مطابق یہ سب خان کے عملے کے نکالے گئے افراد کی سازش تھی۔ سفیر کے مطابق انہیں حکم دیا جاتا کہ 1.25 کلو گوشت لائیں، جو خان کے سر کے گرد گھمایا جاتا اور پھر چھت پر ڈال دیا جاتا۔ سرخ مرچیں بھی سر کے گرد گھمائی جاتیں اور جلائی جاتیں تاکہ بدروحوں کو بھگایا جائے۔ سفیر نے یہ بھی کہا کہ انہیں روزانہ کالے بکرے کے سَر یا مرغیاں لا کر قبرستان میں پھینکنے کو کہا جاتا۔ جہانگیر ترین نے بتایا کہ خان کے شادی کے ڈنر میں بشریٰ بی بی سفید لباس میں حاضر ہوئیں اور ان سے کہا: "میں نے سفید کپڑے صرف اس لیے پہنے ہیں کہ آپ مجھے بلیک میجک والی عورت نہ سمجھیں"۔ ترین نے اسی رات پارٹی چھوڑ دی۔ جو لوگ بشریٰ بی بی پر تنقید کرتے، پارٹی سے نکال دیے جاتے۔ عون چوہدری، خان کے قریبی ساتھی، کو بھی خان نے میسج بھیجا کہ بشریٰ بی بی نے خواب میں دیکھا ہے کہ اگر وہ حلف برداری میں موجود ہوں گے، تو وہ وہاں نہیں جا سکتیں۔ اس کے اگلے دن انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
خان سیاسی فیصلوں کے لیے بھی بشریٰ بی بی کی رائے لیتے۔ امیدواروں کی تصویریں انہیں دکھائی جاتیں تاکہ وہ "چہرہ شناسی" کے ذریعے فیصلہ کریں۔ وہ خان کے سفر تک میں مداخلت کرتیں اور "غیر موزوں وقت" ہونے کی وجہ سے گھنٹوں جہاز روک دیا جاتا۔ فیصل واوڈا، جو عمران خان کے بڑے حامی ہوا کرتے تھے، کہتے ہیں کہ وہ حیران تھے کہ خان اور آرمی چیف جنرل باجوہ کی ملاقات میں بھی زیادہ بات بشریٰ بی بی ہی کرتی تھیں۔
پی ٹی آئی ان تمام بیانات کی سختی سے تردید کرتی ہے۔ خان کے ایک سابق ترجمان نے کہا"میں نے کچھ فیصلے ہوتے دیکھے جن کے بارے میں میڈیا کہتا تھا کہ وہ (بشریٰ بی بی) کرتی ہیں، مگر میں وہاں موجود تھا۔ وہ شامل نہیں تھیں"۔ طاقتور مردوں کی ناکامیوں کو ان کی "چالاک بیویوں" کے کھاتے میں ڈالنے کی ایک پرانی روایت موجود ہے، جیسا کہ لیڈی میکبیتھ کی مثال۔ اس طرزِ فکرکے حامیوں کے لیے بشریٰ بی بی بالکل اسی سانچے میں فِٹ ہوتی ہیں: ایک جادوگرنی جو قوم کے ہیرو کو مسحور کرکے اسے اپنی مرضی کے مطابق چلا رہی ہے۔
لیکن ایک اور نظریہ بھی ہے جس میں بشریٰ بی بی کے اثر و رسوخ کا تعلق جادو سے کہیں کم اور مکّاری سے زیادہ جوڑا جاتا ہے یعنی یہ کہ ان کا اثر خفیہ طور پر آئی ایس آئی کے منصوبے کا حصہ تھا، پاکستان کی وہ خوفناک ایجنسی جو ہر جگہ پہنچ رکھتی ہے۔ آئی ایس آئی پاکستان کی ہر پرت میں گھسی ہوئی ہے: فون ٹیپنگ، لوگوں کی کمزوریاں جمع کرنا، جہادی گروہوں اور سیاست دانوں کے ساتھ تعلقات استعمال کرنا سب شامل ہے۔ اس کی اعلیٰ قیادت فوجی افسروں پر مشتمل ہوتی ہے، اس لیے یہ ایجنسی بنیادی طور پر فوجی سوچ کی نمائندہ ہے۔
ایجنسی کی بشریٰ بی بی میں دلچسپی کا پہلا اشارہ ان کی خفیہ شادی کے فوراً بعد سامنے آیا۔ صحافی طلعت حسین نے عمران خان کی شادی سے متعلق ان کے دعوے پر شکوک ظاہر کیے۔ کچھ ہی دیر بعد وہ جم میں ورزش کر رہے تھے جب جنرل فیض حمید جو اس وقت آئی ایس آئی کے کاؤنٹر انٹیلیجنس کے سربراہ تھے ان کا فون آیا۔ طلعت کے مطابق جنرل نے کہا"یہ ٹھیک نہیں ہے، آپ بشریٰ اور عمران کی شادی کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ وہ اچھی جوڑی ہیں"۔
طلعت نے حیران ہو کر پوچھا کہ کیا آئی ایس آئی اس رشتے میں دلہا دلہن بننے کا کردار ادا کر رہی تھی؟
جنرل نے جواب دیا: "نہیں، ہم نے نہیں کرایا۔ لیکن ہم کافی عرصے سے اسے دیکھ رہے تھے اور اس میں کوئی غلط بات نہیں۔ تو براہِ مہربانی یہ باتیں نہ کریں"۔
اگرچہ آئی ایس آئی نے یہ شادی نہیں کرائی، لیکن کچھ اشارے ملتے ہیں کہ اس نے اس رشتے سے فائدہ ضرور اٹھایا۔ اس ادارے کی یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ سیاسی خاندانوں کے نوکروں اور ملازمین کو اپنے مخبر بنا لیتا ہے۔ مگر فیض حمید نے ایک زیادہ نفیس اور مؤثر طریقہ اپنایا۔ آئی ایس آئی اپنا ایک افسر بشریٰ بی بی کے کسی پیر کے پاس بھیجتی، جو "الہامی پیغام" کے طور پر بشریٰ تک پہنچایا جاتا اور وہ آگے عمران خان کو بتاتیں۔ چونکہ آئی ایس آئی کے پاس مخبروں کا جال ہے اور وہ فون کالیں سن سکتی ہے، اس لیے اکثر اسے پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں کیا ہونے والا ہے۔ افسر مثلاً کسی سیاستدان کی گرفتاری کے بارے میں پہلے سے اطلاع پیر کو دیتا، پیر بشریٰ بی بی کو بتاتا اور وہ عمران خان کو یہ کہہ کر آگاہ کرتیں کہ انہیں "روحانی کشف" ہوا ہے۔ جب وہ واقعہ پیش آتا تو خان حیران رہ جاتے اور سمجھتے کہ بیوی واقعی غیبی علم رکھتی ہیں۔ ایک سینئر انٹیلیجنس افسر نے پسِ پردہ اس منصوبے کی مجموعی شکل کی تصدیق کی۔ خان کے قریبی لوگ بھی قائل ہیں کہ یہ ہوا تھا۔ یہ واضح نہیں کہ بشریٰ بی بی جانتی تھیں کہ انہیں استعمال کیا جا رہا ہے ممکن ہے انہیں علم نہ ہو۔ پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا: "یہ سب آگاتھا کرسٹی کی کہانی لگتی ہے"۔
جلد ہی فوجی قیادت عمران خان سے بددل ہوگئی، جس کی ایک وجہ بشریٰ بی بی کی ہر معاملے میں موجودگی تھی۔ جنرل باجوہ انہیں ناگوار اور رکاوٹ سمجھتے تھے۔ خان کی ایک سابق کابینہ رکن نے کہا "جنرل باجوہ ہمیشہ ان پر غصہ کرتے رہتے تھے، کہتے تھے کہ وہ کالا جادو کرتی ہیں۔ انہیں لگتا تھا کہ خان ان کی بات اپنی سے زیادہ سنتے ہیں"۔
2019 میں خان نے جنرل عاصم منیر کو صرف آٹھ ماہ بعد آئی ایس آئی کے سربراہ کے عہدے سے ہٹا دیا۔ افواہ یہ تھی کہ جنرل منیر نے بشریٰ بی بی پر اپنے دوستوں کو فائدہ پہنچانے کے الزامات کے ثبوت خان کو دکھائے تھے۔ خان نے اس کی سختی سے تردید کی اور الٹا کہا کہ جنرل منیر اپنی برطرفی کا بدلہ لے رہے ہیں۔ خان کی عوامی مقبولیت بھی کم ہونے لگی کیونکہ انتخابی وعدے پورے نہ ہوئے۔ برطرف کیے جانے کے بعد انہوں نے فوج پر کھلا تنقید شروع کر دی۔ نومبر میں ایک جلسے کے دوران انہیں ٹانگ میں گولی لگی۔ خان نے فوراً الزام لگایا کہ یہ حملہ فوجی اداروں کی طرف سے تھا۔
24 نومبر 2022 کو عاصم منیر جنہیں خان نے نکالا تھا فوج کے سربراہ بن گئے اور ملک کے طاقتور ترین شخص۔ مئی 2023 میں خان کو گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کے ساتھ ہی پورے ملک میں احتجاج پھوٹ پڑا، پہلی بار لوگوں نے فوجی تنصیبات پر حملہ کیا۔ خان نے جرأت کے ساتھ سیدھا فوجی سربراہ کو موردِ الزام ٹھہرایا۔ اگرچہ فوج نے الیکشن میں ہر ممکن رکاوٹ ڈالی حتیٰ کہ پی ٹی آئی امیدواروں سے بلّا کا انتخابی نشان بھی چھین لیا۔ فوجی قیادت نے ہار نہ مانی اور خان پر درجنوں مقدمات بنا دیے۔ ان میں سے تین میں بشریٰ بی بی بھی نامزد تھیں۔ پہلا مقدمہ شادی سے متعلق تھا کہ طلاق اور دوسری شادی کے درمیان اسلامی عدت پوری نہیں ہوئی۔
گزشتہ سال نومبر میں پی ٹی آئی نے خان کی حمایت میں مارچ کیا، جس کی قیادت پہلی بار خود بشریٰ بی بی نے کی، پوری طرح برقع پوش ہو کر ٹرک پر کھڑی۔ کچھ لمحوں کے لیے لگا کہ شاید وہ پارٹی قیادت کے لیے ابھر رہی ہیں۔ مگر احتجاج پر فائرنگ ہوئی، کم از کم آٹھ افراد مارے گئے۔ احتجاج کے بعد بشریٰ بی بی کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان تمام الزامات کے باوجود خان کی مقبولیت کم نہیں ہوئی۔ بہت سے لوگ انہیں دیانت دار سمجھتے ہیں اور ان کے لیے کوئی مقدمہ ان کی رائے نہیں بدل سکتا۔ فیصل واوڈا نے بھی کہا کہ خان "پیسے میں دلچسپی نہیں رکھتے"۔
کاغذ پر خان کی صورتحال مایوس کن ہے۔ وہ 74 سال کے ہیں اور اپنے خط کے مطابق ایک "پنجرہ نما" سیل میں اکیلے رکھے گئے ہیں۔ حکومت بدسلوکی سے انکاری ہے۔ بشریٰ بی بی کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ انہیں کتابیں اور علاج تک نہیں دیا جا رہا۔ فیلڈ مارشل منیر پہلے سے زیادہ طاقتور ہیں۔ انہیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے قریبی تعلقات پر داد ملی ہے اور پارلیمنٹ نے اب انہیں تاحیات استثنیٰ دے دیا ہے۔ فیض حمید اب خود زیرِ حراست ہیں۔ مگر فوج کے خلاف عوامی غصہ بدستور موجود ہے اور عمران خان اب بھی بہتوں کے نزدیک "اخلاقی رہنما" ہیں۔ ان کے قریبی لوگ، بشمول بہن علیمہ خان، انہیں فوج سے ڈیل نہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ایک سابق وزیر کے مطابق بشریٰ بی بی "بات چیت" کے حق میں زیادہ ہیں۔
عام پاکستانیوں کے لیے، جو خان کو ملک کا واحد نجات دہندہ سمجھتے ہیں، صورتحال نہایت سنگین ہے۔ لیکن خان اپنی بیوی کے بارے میں کہتے ہیں
"بشریٰ بی بی نے مجھے کمزور نہیں بنایا۔ ان کی بہادری نے مجھے مضبوط کیا ہے"۔
(دی اکانومسٹ میں شائع کالم کا اردو ترجمہ)

