The Goat Life
دی گوٹ لائف
عرصہ دراز بعد ایک ایسی فلم دیکھی جس کو دیکھ کر یقین ہو جاتا ہے کہ سینما انسانی ذہن پر اثرانداز ہونے کی گہری طاقت رکھتا ہے۔ یہ فلم نیٹ فلکس نے اردو/ہندی ورژن میں لانچ کی ہے۔ کیا خوبصورت عکس بندی ہے اور باکمال جذباتی کہانی ہے۔ فلم ایک شخص کی حقیقی زندگی پر مشتمل ہے۔
نیلے سبز پانیوں، دریاؤں اور جھرنوں کی بھارتی جنوبی سرزمین سے ایک مسلمان شخص اپنے مالی حالات آسودہ بنانے کی خاطر ورک ویزا پر سعودیہ عرب جاتا ہے اور پھر کفیل کے ہاتھوں یرغمال ہو کر دور صحرا کے اندر بھیڑ بکریاں اور اونٹ چرانے کی مشقت پر لگا دیا جاتا ہے۔ چار سال وہ صحرا میں کفیل کے مظالم برداشت کرتا ریوڑ چراتا ہے۔ بلآخر بھاگ نکلتا ہے۔ اپنے جیسے دو دیگر یرغمال ساتھیوں کے ہمراہ پیدل صحرا عبور کرتا ہے۔ ریتلے ٹیلوں سے بھرا وسیع لینڈاسکیپ ہے جس کے درمیاں ایک بے سمت سفر ہے۔
اداکاری بہترین۔ عکس بندی کمال۔ کہانی بے مثال۔ بیک گراؤنڈ موسیقی ترتیب دی ہے دی لِونگ لیجنڈ اے آر رحمٰن نے۔ یہ فلم اپنے آغاز سے ہی بھوت بن کر چمٹ جاتی ہے۔
جذباتی کہانی ہے۔ ڈپریشن میں مبتلا کر دینے والی داستان ہے۔ بیگم کے ساتھ دیکھنا شروع کی۔ وہ گاہے گاہے روہانسی ہو جاتی۔ میں نے کہا " بیگم فلم ہے یار، کیا ہوگیا"۔ بولی "دراصل اس کے ہیرو کی شکل آپ سے بہت ملتی ہے۔ دُکھ ہو رہا۔ "۔ میں نے یہ سن کر غور کیا تو مجھے بھی درد فِیل ہونے لگا۔ جب تلک فلم کا مرکزی کردار شیو اور مونچھ کے ساتھ رہا بیگم مجھے دیکھ کر آبدیدہ ہو جاتی اور مجھے سمجھ نہیں آتی اس پر ہنسنا ہے یا مجھے بھی تکلیف محسوس کرنی ہے۔
آگے چل کر جب گردشِ حالات کے سبب ہیرو نے داڑھی بڑھا کر مجوسیوں سی حالت اپنا لی تو تب مجھے سکون ملا۔ مگر بیگم کو نہیں ملا۔ وہ جذباتی سین دیکھ کر مجھے دیکھتی اور منہ کے اندر زبان تالو سے لگا کر "ٹا ٹا ٹا" جیسی پرسوز آواز نکالتی۔ ایک بار پھر کہا " ابے یار اس کی شکل اتنی ہی مجھ سے ملتی تھی جتنی ہر ساؤتھ انڈین کی مجھ سے ملتی ہے۔ پر اب تو اس کا حلیہ یکسر بدل چکا ہے اب تو وہ ذرا سا بھی مجھ سے نہیں ملتا۔ "بولی" ہاں مگر ہے تو وہی بندہ ناں؟ آپ سے مشابہ صورت پر ظلم ہوتا دیکھ کر اچھا نہیں لگتا۔ "بس بھائیو بیگم کے سبب مجھے فلم زیادہ پُردرد محسوس ہوئی ہے۔
مزاح اپنی جگہ مگر یہ فلم ایک بہترین پروڈکشن ہے اور بھارتی جنوبی سینما کی خوبصورتی کا مظہر ہے۔