Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Thanks But I Quit

Thanks But I Quit

تھینکس بٹ آئی قوئٹ

کبھی کبھی انسان اپنے ماضی سے لیکر حال تک نظر دوڑائے، کچھ یادیں کھنگالے، کچھ گئے بسرے لمحوں میں سانس لے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک پُل پر کھڑا ہے جس کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ زندگی بدل چکی ہے۔ وہ شب و روز ہوا ہو چکے ہیں۔ وقت کی یہ خوبصورتی ہے کہ وہ سدا ایک سا نہیں رہتا اور یہی المیہ بھی۔

لڑکپن ایسے ماحول میں بیتا جہاں ایک وقت کا نوالہ پورا کرنے کو والدہ کو سرکاری سکول میں نوکری کرنا پڑی۔ گھر میں ایک وقت کا کھانا میسر ہوتا تو دل کو دھڑکا سا لگا رہتا کہ کل ملے گا یا نہیں؟ مجھے یاد ہے گھر میں جس دن چکن بنتا اس دن عید ہوتی تھی۔ میری چھوٹی بہن جو اب اپنے شوہر کے ہمراہ کینیڈا منتقل ہو کر وہیں بس چکی ہے اور خوشحال زندگی بسر کر رہی ہے وہ کھانا کھاتے وقت اپنے حصے کے سالن سے چکن نکال کر میری پلیٹ میں رکھ دیتی اور کہتی "تم کھا لو، میں زیادہ نہیں کھاؤں گی"۔ کئی دفعہ اماں نے دیکھ لیا اور اس کو سمجھاتے بولتیں"تم اس کی عادت نہ بگاڑو۔ اپنے حصے کا اسے نہ دیا کرو۔ یہ بڑا ہو کر تمہارے حصے پر اپنا حق نہ جتانے لگے۔ "

پھر وہ وقت بھی آیا کہ بچہ بڑا ہوا۔ آسائشیں نصیب ہوئیں۔ بڑے لوگوں سے تعلقات بنے۔ ایسے بنے کہ ان لوگوں کی کمپنی میں شکار کھیلنا ایک مشغلہ تھا۔ میں نے زندگی میں کبھی بندوق نہیں تھامی ماسوائے سکول کالج کے ان دنوں کے جب این سی سی ٹریننگ لازم ہوا کرتی تھی۔ میں سمجھتا ہوں بندوق زندگی چھیننے والا آلہ ہے اس کا ہاتھ میں آنا کسی صورت بھی مہذب نہیں ہو سکتا۔ شکار میرے جیسے نے کیا کھیلنا تھا۔ ایک بار دوست کے ہمراہ اس کے مشغلے پر جانا پڑا۔ یہ گلگت بلتستان تھا۔ دور پہاڑوں پر آیبیکس کا ریوڑ تھا۔ نشانہ سادھ چُکا تو عین وقت پر بندوق رکھ دی۔ مجھ سے گولی نہیں چل پائی۔ کہاں وہ دن کہ چکن ترس کر ملتا تھا اور کہاں وہ دن کہ آئیبیکس سامنے کھڑا تھا جو پورا میرا تھا۔

مجھے یاد ہے گھر میں جام شیریں کی بوتل صرف رمضان میں آیا کرتی۔ اور میں روزے اس لالچ میں رکھتا کہ افطار پر سموسے کے ساتھ شربت ملے گا۔ یا پھر کسی کے ہاں مہمان جانا ہوتا تو وہاں شربت مل جاتا۔ ان دنوں مہمانوں کی تواضع پیپسی کوک سے بھی کی جاتی تھی مگر متوسط گھرانوں کا مشروب جام شیریں ہی تھا۔ ایک دن مارے تجسس کے میں نے جام شیریں کی بوتل کچن سے ڈھونڈی اور اسے گھول کر پی رہا تھا۔ اماں نے اچانک دیکھا اور پکڑ لیا۔ اماں جب خوب بھڑاس نکال چکیں اور مار چکیں تو بولیں"یہ تم بتا کر پیتے تو کچھ نہیں ہوتا مگر چوری کر کے پینا حرام ہوتا ہے۔ "

حلال حرام کو اماں نے میرے ذہن میں ایسا بٹھایا کہ ساری عمر میں اسی تفریق میں پڑا رہا۔ میرے کچھ خوشحال دوست، میرے فارنر کولیگز، میرے بیرون ممالک میں بستے دوست جو میری سفری زندگی کے سبب بنے یہ سب مشروب مغرب سے شغف رکھنے والے ہیں۔ آفس کی جانب سے کسی تقریب میں مدعو ہوں تو ڈپلومیٹس سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ ان تقریبات کا اہم حصہ مشروب مغرب ہی ہوتا ہے۔

برسوں قبل میں نے فوٹوگرافی کی فیلڈ میں چند پیسے کمانے کو فیشن انڈسٹری میں کام کرنے کا سوچا تھا۔ مجھے ایک دوست نے لاہور میں فیشن شوز شوٹ کرنے کا موقعہ فراہم کیا۔ برائیڈل کیچور ویک تھا۔ ملک کے تمام بڑے برائیڈل کپڑوں کے برآنڈز، نامور ماڈلز اور فیشن ڈیزائنرز اس میں حصہ لیتے تھے۔ میں ریمپ والک شوٹ کرتا اور شو ختم ہونے کے بعد ماڈلز اور ڈیزائنرز کو کیمرے میں ان کی تصاویر دکھاتا۔ یہ معمول تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ شو کے اختتام پر یہ سب جمع ہو کر مشروب مشرق کی محفل سجاتے ہیں۔ میں اس محفل سے قبل نکل جایا کرتا۔

ایک دن ایک بہت مشہور فیشن ڈیزائنر نے مجھے روک لیا۔ کمرے میں فیشن انڈسٹری سے منسلک نامور ماڈلز و ڈیزائنرز بیٹھے تھے۔ اس نے مجھے پیشکش کرتے کہا "تم بھی لے سکتے ہو مہدی"۔ میں نے جھٹ سے کہہ دیا "نہیں، شکریہ۔ میں نہیں پیتا"۔ میرا اتنا کہنا تھا کہ محفل برہم ہوگئی۔ مجھے کہا گیا کہ تم نہیں پیتے تو کمرے میں کیا کر رہے ہو؟ گٹ آؤٹ۔ اس دن میں کمرے سے نکلا اور مجھے اپنی بےعزتی پر اتنا شدید غصہ آیا کہ اس روز کے بعد میں کبھی واپس نہیں گیا۔ میں نے پھر زندگی میں کبھی فیشن شوٹ یا ریمپ شوٹ کیا نہ ہی اس انڈسٹری سے منسلک کسی سے دوستیاں بنائیں۔

فارنرز کولیگز میں، ڈپلومیٹس کے ساتھ اور ایسی ہی تقریبات کا حصہ بننا جاب کی مجبوری بن گئی۔ جب بھی مجھے کوئی آفر کرتا میں بول دیتا "نہیں، شکریہ، میں نہیں پیتا"۔ کچھ لوگ جواب سن کر مجھے عجیب نظروں سے گھورتے اور کچھ اگنور کر دیتے۔ میں سوچتا کہ آخر میں نے ایسی کیا غلطی کر دی ہے کہ اگر میں نہیں پیتا تو مجھے اگنور کیا جائے؟ پھر ایک دن مجھے اس کا جواب مل گیا۔ مجھے احساس ہوا کہ غلطی میری جانب سے ہی ہوتی ہے۔

صاحبو، فارنرز کا، بیرونی دنیا کا یا ایسی محافل کا جو لوگ حصہ ہوتے ہیں یہ ان کا کلچر ہوتا ہے۔ یہ ان کا معمول ہوتا ہے۔ الکوحل کا استعمال ان کے کھانوں سے قبل اور کھانوں کے بعد کا روزمرہ ہے۔ وہاں اس کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ جب ان کے سامنے یا محفل میں صاف جواب دے دیا جائے "میں نہیں پیتا" تو یہ ان کے واسطے انسلٹ ہوتی ہے۔ یعنی آپ انہیں دوسرے لفظوں یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ یہ غلط کام ہے اور میں نہیں کرتا۔ ان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے وہ کچھ غلط کر رہے ہیں اور انہیں ایک شخص جج کرتے ہوئے ایسا کہہ رہا ہے۔

ایک دفعہ جب ایسی ہی محفل میں مجھے پیشکش ہوئی تو میں نے کہا "شکریہ، مگر میں چھوڑ چکا ہوں۔ I Quit"۔ وہ سب خوش ہو کر میری جانب متوجہ ہوگئے اور کہنے لگے "واہ، زبردست۔ یہ کیسے کر لیا یار؟ ہم سے تو نہیں ہو پاتا۔ مگر تم کمال ہو"۔ اس دن کے بعد یہ معمول بنا لیا کہ جب کوئی آپ کو آفر کرے اور اس جگہ موجود رہنا آپ کی جاب یا بزنس کی مجبوری ہو تو آپ سمپل اتنا کہہ دیں"Thanks but i quit"۔ یہ بنیادی مینرز ہیں۔ ان کو سیکھتے اک عمر لگ جاتی ہے۔ اس طرح کوئی ناراض نہیں ہوتا بلکہ وہ آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا شروع ہو جاتے ہیں۔

پل کے نیچے سے کافی پانی گزر چکا ہے۔ زندگی آگے بڑھ جاتی ہے۔ روز ایک نیا چیلج دیتی ہے۔ ان چیلنجز کا سامنا کرتے انسان وقت کے ساتھ میچور ہوتا جاتا ہے۔ پھر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ اسے میسر تمام آسائشیں بھی اس کے واسطے کوئی معنیٰ نہیں رکھتیں۔ بس اپنی نسل یا بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر وہ جئیے جاتا ہے اور دن گزارتا جاتا ہے۔ اپنا آپ تو اندر ہی اندر کب کا دفن ہو چکا ہوتا ہے۔ وقت کی یہ خوبصورتی ہے کہ وہ سدا ایک سا نہیں رہتا اور یہی المیہ بھی۔

Check Also

Waldain Se Husn e Salook, Naye Zaviye Se

By Muhammad Saleem