Tehzeeb Ki Maut Qatal Se Nahi Khudkushi Se Hoti Hai
تہذیب کی موت قتل سے نہیں خودکشی سے ہوتی ہے
اب سے کوئی ڈھائی ہزار سال قبل یونان کے مشہور فلسفی افلاطون نے کہا تھا کہ "ریاستیں شاہ بلوط کی لکڑی سے نہیں بنتیں۔ ریاستیں انسان کے کردار سے بنتی ہیں"۔ مؤرخ آرنلڈ ٹوئن بی نے بارہ جلدوں پر مشتمل اپنی شہرہ آفاق تصنیف (A Study of History) میں قوموں کے عروج و زوال کی تفصیلات دینے کے بعد آخری جلد میں یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ "تہذیب کی موت قتل کے ذریعے نہیں ہوتی، خودکشی کے ذریعے ہوتی ہے"۔
سیاسی اخلاقیات، معاشرے کی عمومی اخلاقیات ہی کا حصہ ہوتی ہیں۔ کہنے کو یہ ضرور کہا جاتا ہے کہ جیسی قوم ویسی قیادت لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوسروں پر اثر انداز ہونے اور اپنی چھاپ چھوڑنے میں جو گرفت برسر اقتدار افراد اور حکمران کو حاصل ہوتی ہے وہ عوام کو حاصل نہیں ہوتی۔ ہماری سیاست میں جو لب و لہجہ اختیار ہوا ہے، ہمارے سیاستدان جس قسم کی سطحی زبان استعمال کرنے لگے ہیں اس پر یہ عرض کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بدقسمتی سے بحیثیت مجموعی ہماری سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت خواہ وہ برسر اقتدار ہو یا حزب اختلاف سے اس کا تعلق ہو، اس کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ ہے ہی نہیں۔
اوائل سے ہی اقتدار پر قابض افسر شاہی نے اپنے مخالفین کو غدار کہنا شروع کر دیا۔ خان عبدالغفار خان، جی ایم سید، حسین شہید سہروردی غدار قرار پائے۔ وزیراعظم لیاقت علی خان نے ایک تقریر میں بنگال کے سابق وزیراعلیٰ اور تحریک آزادی کے سرکردہ رہنما حسین شہید سہروردی کو ہندوستان کا بھیجا ہوا ایجنٹ قرار دے دیا۔ ایوب خان کے زمانے میں ہمارے سیاسی کلچر میں مزید نئے عناصر داخل ہوئے۔
سرکاری مشینری نے فاطمہ جناح کی کردار کشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ فاطمہ جناح کو نیشنل عوامی پارٹی اور عوامی لیگ کی حمایت حاصل تھی جس کے رہنما سہروردی اور غفار خان کو پہلے ہی غدار کا لقب دیا جا چکا تھا سو فاطمہ جناح بھی غدار قرار دے دی گئیں۔ ایوب خان نے بعد ازاں اپنی کتاب "فرینڈز ناٹ ماسٹرز" میں لکھا کہ ہم نے قائداعظم کی بہن ہونے کے ناطے فاطمہ جناح کا خیال رکھا ورنہ ہم بہت کچھ کہہ سکتے تھے۔ گویا بانی پاکستان کی ہمشیرہ کو غدار قرار دینے کے بعد بھی کچھ گنجائش باقی تھی؟
بھٹو صاحب اقتدار میں آئے تو انہوں نے بھی دوسری جماعتوں کے لیڈروں کو القاب دینے سے گریز نہیں کیا۔ مولانا مودودی کو "اِچھرہ کا پوپ" اور قیوم خان کو "ڈبل بیرل خان" کے القابات انہوں نے ہی دیے۔ جواب میں مخالفین نے بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ایئر مارشل اصغر خان نے بھٹو کو کوہالہ کے پل پر پھانسی دینے کا اعلان کیا تو پی پی پی کی طرف سے اصغر خان کو "آلو" قرار دے دیا گیا۔ بھٹو مخالف پی این اے تحریک نے بھٹو کے لئے "گنجے کے سر پر ہَل چلے گا" کا نعرہ لگایا۔
سیاسی اخلاقیات کا زوال مزید اس وقت آگے بڑھا جب ضیاءالحق کی موت کے بعد موجودہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے تمام اخلاقی حدود کو پامال کرکے رکھ دیا۔ بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کی تصاویر کو جعلسازی کے ذریعے بیہودہ رنگ دے کر جلسوں میں تقسیم کیا۔ ملک میں باقاعدہ مہم چلائی گئی کہ ایک عورت کسی اسلامی مملکت کی حکمران نہیں ہوسکتی۔ ماضی میں بھی ایسی مہم محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف چلائی گئی تھی۔
عورت کی حکمرانی کی مذمت کرنے والوں نے ضروری سمجھا کہ عورت کو برا اور بدکردار بھی ظاہر کیا جائے۔ ایک مذہبی پس منظر رکھنے والے رسالے نے بے نظیر کے ایک جلوس کی تصویر سرورق پر شائع کی جس میں وہ دونوں ہاتھ اٹھا کر تالیاں بجا رہی تھیں۔ اس تصویر کے نیچے سرخی لگائی گئی تھی "ٹھمکے پہ ٹھمکہ"۔ اسی زمانے میں ایک اور لفظ ہماری لغت میں شامل ہوا اور وہ تھا "سیکیورٹی رِسک" بے نظیر بھٹو سیکیورٹی رسک قرار پائیں۔ گویا اب وہ ملک دشمن بھی تھیں۔
بینظیر صاحبہ نے پارلیمینٹ میں صدر غلام اسحٰق خان کے خلاف "گو بابا گو" کے نعرے لگوائے۔ ایک دوسرے کے خلاف طعن و تشنیع اور الزام تراشیوں کا یہ کلچر 2013 کے انتخابات کے بعد اور بھی مضبوط ہوا۔ اب تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان سیاست کے مرکزی دھارے میں نمودار ہوئے۔ عمران خان جو آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ ہیں اور جن کو مغربی دنیا کا بہت زیادہ exposure بھی حاصل ہے اُن سے توقع تھی کہ وہ ملک کے سیاسی کلچر کو غیر اخلاقی عوامل سے پاک کرنے کا کام کریں گے لیکن انہوں نے تو اس کلچر کو اور بھی بڑھاوا دے ڈالا۔
ایک پولیس افسر کو جس نے مبینہ طور پر دھرنے کے شرکاء کی پارلیمنٹ کی طرف پیش قدمی کو روکنے کی کوشش کی تھی، اسے دھمکی دی کہ وہ خود اپنے ہاتھ سے اس کو پھانسی دیں گے۔ اُس موقع پر اور 2018 میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد تو انہوں نے غیر پارلیمانی زبان استعمال کرنے کو اپنی مستقل عادت بنا لیا۔ چور، ڈاکو، بھگوڑا، یہ الفاظ وہ زرداری اور نواز شریف کے لیے استعمال کرتے رہے۔
فضل الرحمٰن کو "ڈیزل" اور زرداری صاحب کو "بیماری" کہتے ہیں۔ برسرِ اقتدار آنے کے بعد تحریک انصاف اور اپوزیشن کی جماعتوں کے درمیان الفاظ، الزامات اور جوابی الزامات کی ایک جنگ مستقل جاری ہوئی۔ صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان، اور اسی طرح ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان انتہائی قابلِ اعتراض زبان اپنی پریس کانفرنسوں اور ٹی وی کے پروگراموں میں استعمال کرتے رہے۔ ٹی وی چینلوں کے ناظرین کو شاید وہ پروگرام یاد ہو جس میں ڈاکٹر صاحبہ اور کشمالہ طارق الجھ پڑی تھیں اور پھر ڈاکٹر صاحبہ کے منہ سے وہ فقرے ادا ہوئے جو ادا نہ ہوتے تو بہتر ہوتا۔
ڈاکٹر صاحبہ نے پھر مریم نواز صاحبہ کے لیے مسلسل "راجکماری" اور ن لیگ کے خواتین کے لیے "کنیزیں" کے الفاظ استعمال کئیے۔ نون لیگ نے ریحام خان کی کتاب کے توسط سے جوابی گھٹیا وار جاری رکھے۔ "زانی، نشئی، پوڈریا، ہومو سیکسوئل" جیسے القابات کا کھُلے عام استعمال کیا جاتا ہے۔ شیخ رشید نے بلاول کو "بلو رانی" کا خطاب دیا۔ جواب میں"بغیرت" کا لفظ بلاول کی زبان پر بھی آتا رہا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی اخلاقیات کے زوال کے اس رجحان کے آگے بند کس نے باندھنا ہے؟ لیڈران تو خود اخلاقی زوال کا شکار ہیں۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے ایک لمحے کو فرض کر لیجئیے کہ عمران خان عوامی طاقت سے دوبارہ مسندِ اقتدار پر براجمان ہو جاتے ہیں تو کیا ان کے پاس ملک کے گھمبیر مسائل کا کوئی روڈ میپ ہے؟ کیا وہ اکیلے نیا پار لگانے کی سکت رکھتے ہیں؟ اور کیا اسی طرز کی سیاست پر چلتے مخالفین ان کو چلنے دیں گے؟ اور کیا وہ اسٹیبلشمنٹ کو سچ میں ان کی آئینی حدود میں رکھنے والے ہیں؟ اگر ان سوالات کا جواب سو فیصد ہاں ہے تو ٹھیک ہے۔ کیری آن اور اگر آپ کو بھی یقین نہیں تو پھر سوچیں اس ملک کے ڈیفالٹ ہونے اور تقسیم ہونے میں کتنا عرصہ بچ گیا ہے۔
اگلے تین سالوں میں لگ بھگ ستر بلین ڈالرز صرف قرضوں کے سود کی مد میں چکانا ہے۔ اگر صرف اتنا ہی کر لیں کہ قائدین ایک دوجے کو کتا بلا کہنے سے باز آ جائیں اور ان کے کارکنان اپنے مخالفین سے صرف سیاسی اختلاف رکھیں ذاتی نہیں تو یہ معاشرے میں کم از کم خوشگوار مثبت تبدیلی ہوگی۔ مگر جو تربیت اُٹھائی گئی ہے اس کو دیکھتے یہ بھی کارِ محال معلوم ہوتا ہے۔ تہذیب کی موت قتل سے نہیں خودکشی سے ہوتی ہے۔