Surat e Haal Bhayanak Hai
صورتحال بھیانک ہے

فوجی ترجمان نے پشاور میں غم و غصہ بھری پریس کانفرنس کی ہے۔ اس سے فوج کے اندرون غصے اور غم کی سطح کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آرمی آفیسرز کی روز شہادتیں ہو رہی ہیں۔ خیبرپختونخواہ میں فوج سے ٹکراؤ کی پالیسی واضح ہے۔ فوجی ترجمان کی باتوں کا لب لباب دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے وہ صوبے کی حکمران جماعت اور اس کی پالیسیوں سے سخت ناخوش ہیں۔ عمران خان صاحب بھی واضح پوزیشن لے چکے ہیں اور ان کی پوزیشن ریاستی پالیسی کے متضاد ہے۔ ٹکراؤ کی صورتحال واضح ہے۔
یہ صورتحال کسی صورت خوش آئند نہیں ہے۔ لیکن کیا اس کے حل واسطے ہر راہ مسدود ہوگئی ہے؟ جو بات فوجی ترجمان عوام کو سمجھانا چاہتے ہیں کیا وہی بات یا گلے شکوے عمران خان صاحب سے مل کر نہیں ہو سکتے؟ کیا ان سے معاملات طے کرنے میں انا کا مسئلہ ہے؟ طاقت و اختیار کی جنگ میں کیا بالخصوص صوبے اور بالعموم پاکستان کے عوام اور مجموعی طور پر فوجی جوانوں نے اس ٹکراؤ کا خمیازہ بھگتنا ہے؟
کچھ حقائق بہت بھیانک ہوتے ہیں۔ فوج کو تحریک انصاف اور اس کے قائد و صوبائی عمائدین پر بہت غصہ سہی لیکن براہ مہربانی جان کی امان پاؤں تو اتنا کہنے دیجئیے کہ اسی جماعت کا مراد سعید چیختا رہا کہ سوات اور بالائی علاقوں میں ٹی ٹی پی کے جتھے آ رہے ہیں اس جانب توجہ کریں۔ مراد سعید کی سیاسی وابستگی یا بیانئیے سے آپ ہزار اختلاف رکھ سکتے ہیں لیکن اس وقت باجوہ رجیم کا سارا زور عمران خان کی رخصتی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے ڈیمیج کنٹرول پر مرکوز تھا۔ کیا آپ باجوہ صاحب سے بھی پوچھ سکتے ہیں کہ کیسے ان کے چھ سالہ دور میں حالات اس نہج تک پہنچے کہ ٹی ٹی پی پھر سے صوبے میں پناہ گاہیں بنانے لگی۔
کیا جنرل فیض سے یہ سوال کیا جائے گا کہ جب آپ کابل میں چائے پیتے طالبان حکومت کے ٹیک اوور کے واسطے سہولت کاری فرما رہے تھے اس وقت طالبان راہنماؤں سے ٹی ٹی پی کے خاتمے یا نجات واسطے ان سے کچھ ضروری معاملات کو طے کیا تھا؟ جی نہیں۔ ہم بہت آرام سے اس کا الزام عمران خان صاحب پر ڈالتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ ان کی حکومت تھی، ان کا پسندیدہ اور رائٹ ہینڈ جرنیل تھا اس لیے یہ ناکامی خان صاحب کی ناکامی ہے۔ برائے سیاسی بیانئیہ یہ بات تو کہی اور پھیلائی جا سکتی ہے لیکن اس ملک کی ننگی حقیقیت تو یہ ہے کہ یہ ڈیپ سٹیٹ ہے جہاں اختیارات، فارن پالیسی و داخلہ پالیسی مکمل طور پر مقتدرہ کے زیر اثر ہوتی ہے۔ یہاں وزراء اعظم یا سول سیٹ اپس بٹھائے جاتے ہیں، لائے جاتے ہیں اور پھر بھیجے جاتے ہیں۔ یہاں حکمرانوں کے پاس لوازمات زندگی میں سب کچھ ہوتا ہے صرف اختیار نہیں ہوتا۔ اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرنا گو کہ سخت عمل ہے لیکن پھیرنی چاہئیے۔ بہت سے جواب آپ کو اسی عمل سے مل سکتے ہیں۔
ہاں، صورتحال بدلتی ہے، سیاست کا رُخ بدلتا ہے، اقتدار رخصت ہوتا یا ملتا ہے تو پھر نئے حریف اور حلیف بھی بنتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ یہ وہ ڈائن ہے جو اقتداری خواہش کے حصول واسطے اپنے بچے بھی کھا جاتی ہے۔ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ پھر عمران خان صاحب نے بھی فوج کو ہیڈ آن لیتے ہوئے طالبان یا افغان جنگجوؤں یا مسلح جتھوں کی ہمدردی حاصل کی۔ ان کے ساتھ گفت و شنید پر زور دیتے رہے ہیں اور تاحال دے رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی اور اس سے منسلک گروہوں کا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہونا شروع ہوا۔ کم و بیش تین ہزار تربیت یافتہ دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے ملے اور اب صورتحال یہ ہو چکی کہ احسان اللہ احسان بھی عمران خان صاحب کے گُن گاتا پھرتا ہے۔ عمران خان صاحب کا سیاسی بیانیہ ان کو سوٹ کرتا ہے اور ان کی موجودگی خان صاحب کو سوٹ کرتی ہے۔ یہ ہے اصل المئیہ۔ اب ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں پرو طالبان سمجھے جانے والے ہارڈ لائنر ایک شخص کو صوبے کا وزیر اعلیٰ لایا جا رہا ہے۔
ٹکراؤ کی سیاست کرتے کرتے اب ایک ایسی نسل وجود میں آ چکی ہے جو فوجی جوانوں کی شہادتوں والی خبروں پر لافٹر ری ایکٹ کرتی ہے۔ ہنستی ہے۔ یہ ہے وہ دُکھ اور یہ ہے وہ اخلاقی بنجر پن جس کا نوحہ لکھنا بھی محال ہو رہا ہے اور کیا کیجئیے گا اس انٹیلیجنشیا کا جو کابل میں طالبانی حکومت آنے پر قرآنی آیات سناتے خوشی کی نوید دیتے رہے؟ جَآءَ الُحَقُّ وَ زَهَقَ الُبَاطِلُ-اِنَّ الُبَاطِلَ كَانَ زَهُوُقًا۔ کس کس سے جواب طلب کریں؟ جب ساری قوم کو اچھے طالبان اور برے طالبان کا پاٹ رٹایا جا رہا تھا اس وقت ان مسائل پر توجہ دی تھی کیا؟
میں صدق دل سے سمجھتا ہوں کہ صورتحال بھیانک یا Messy ہے۔ اس سے نمٹنے کی راہ موجود ہے لیکن اس کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ سیاسی جماعت اور فوج کو فریق نہیں بننا چاہئیے لیکن بدقسمتی سے بن چکے ہیں۔ فریقین کو اپنی اپنی انا سرنڈر کرکے گفتگو کا دروازہ کھولنا ہوگا۔ خیبر پختونخواہ کی ننگی حقیقت یہ بھی ہے کہ وہاں کے عوام روٹی کپڑا مکان یا گڈ گورنس نہیں چاہتے۔ وہ صرف خان صاحب کو چاہتے ہیں۔ اس کے جو بھی عوامل رہے ہوں لیکن اب یہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں ان عوامل میں ایک بڑا ہاتھ وہاں بستی عوام کی محرومیاں بھی ہیں۔ بالائی علاقوں اور ایکس فاٹا میں مسلسل آپریشنز، حقوق کی پامالی، بیروزگاری، کاروبار یا انفرادی معیشت کی تباہی اور اس احساس کا اُجاگر ہونا ہے کہ ہمارے وسائل پر وفاق اور وفاق کے پردے میں فوج قابض ہے۔ مائن اینڈ منرلز بلز نے اس آگ پر تیل کا کام کیا ہے اور اب ستائیسویں آئینی ترمیم میں وفاق کو مزید طاقتور بنا کر صوبوں کے اختیارات صلب کرنے کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔
حقائق بھیانک ہوتے ہیں۔ سچ تلخ ہوتا ہے۔ سچ کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ ذاتی طور پر میں رائے دینے یا لکھنے سے بیزار ہو چکا ہوں۔ یہاں کوئی بات سننا چاہتا ہے نہ سمجھنا چاہتا ہے۔ ہر کوئی اپنی سرخ لکیر کھینچ چکا ہے۔ وطن یا ملک سیاسی و عسکری انا اور اختیار کی جنگ کا شکار ہے۔ اس صورتحال پر لکھنے والے کو فریقین کی جانب سے بہت کچھ بھگتنا پڑتا ہے۔ ایک فریق کا سوشل میڈیا ٹرولنگ گالی گلوچ گروپ منظم ہے جس سے کسی کی ماں بہن بیٹی محفوظ نہیں اور مقتدرہ کے مزاج کی برہمی کا خمیازہ لکھنے والے سمیت اس کے خاندان کو بھگتنا پڑتا ہے۔ بس آج اس سنگین صورتحال پر دل کڑھا تو کچھ گذارش کر دی۔ وطن چونکہ اپنا ہے اس لیے اس کی پریشانی بھی اپنی ہے۔
یہ فیصلہ ہر فرد نے خود کرنا ہے کہ وہ اس ٹکراؤ کی صورتحال میں کونسی سائیڈ پر کھڑا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس ملک کے ساتھ کوئی صدق دل سے مخلص ہوتا تو کم از کم آج اس کی ایسی حالت نہ ہوتی۔ کسی نہ کسی مقام پر پہنچتے۔ کوئی نہ کوئی سمت متعین ہوتی۔ کوئی منزل کا نشان ہوتا۔ ہم تو چھہتر سالوں سے یہی طے نہیں کر پائے کہ جمہوریت یا آمریت۔ عسکری آمریت یا سول شخصی آمریت۔ ہائبرڈ سسٹم یا ہائبرڈ پلس پلس۔ اسلامی ریاست یا فلاحی ریاست یا اسلامی فلاحی ریاست۔ تو پھر ایسے سماج میں کہا لکھا ایک کارِ بیکار ہی تو ہوتا ہے اور کوئی کارِ بیکار کب تک جاری رکھ سکتا ہے۔ خلاص۔
چلنے کا حوصلہ نہیں، رُکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا
اے مری گُل زمیں تجھے چاہ تھی ایک کتاب کی
اہلِ کتاب نے مگر کیا تیرا حال کر دیا

