Sugar Kahani
شوگر کہانی

آج سے چار ماہ پہلے میرا HBA1C ٹیسٹ 11.6 آیا۔ یہ بلڈ سیلز میں شوگر کی موجودگی کا تین ماہ پر محیط سکریننگ ٹیسٹ ہوتا ہے۔ اس قدر ہائی آنے کی وجہ میری بدپرہیزی رہی۔ میٹھا میری کمزوری رہا ہے بالخصوص گاجر حلوہ میری شدید کمزوری ہے۔ ناشتے میں پین کیکس، ہیزل نٹ فلیورڈ سویٹ کافی، چاکلیٹ کوکیز یا براؤنی بھی کھاتا رہا۔ مطلب جو دل کرتا تھا کھا لیتا تھا۔ کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ پائے، نہاری، ہریسہ، حلیم، بریانی، پلاؤ وغیرہ وغیرہ وغیرہ جب دل چاہا دوپہر یا رات کے کھانے میں کھا لئیے۔ نتیجتہً ایک تو شوگر آؤٹ آف کنٹرول ہوگئی۔ دوم، میرا کولیسٹرول تباہ ہوگیا۔ ٹرائی گلیسرائڈز خطرناک حد تک بڑھ چکے تھے جو خون میں چربی یا فیٹ پارٹیکلز کے ہونے کا نشان ہیں۔ جن کے سبب ہارٹ سٹروک ہوتا ہے۔
ایک دن یونہی اچانک خیال آیا کہ مجھے ہیلتھ انشورنس پر چھ ماہ میں ایک بار تمام ٹیسٹس فری ہیں تو ایک بار چیک کریں۔ جب رپورٹس آئیں تو باقی دل، گردہ، جگر، بلڈ کیمسٹری، وٹامنز وغیرہ وغیرہ تو سب ٹھیک تھا صرف شوگر اور کولیسٹرول خطرناک حد تک زیادہ تھے۔ وٹامنز میں صرف وٹامن ڈی کافی حد تک لو تھا۔ خیر، اس دن کے بعد سے میں نے اپنا لائف سٹائل بدل لیا۔ بہت مشقت کرنا پڑی۔
مکمل پرہیزی ڈائیٹ پر آیا۔ گڈ کولیسٹرول لیتا ہوں۔ مکھن، دیسی گھی، پی نٹ بٹر وغیرہ۔ اومیگا تھری ڈائیٹ اپنائی جس میں مچھلی، چکن اور انڈے شامل ہیں۔ پروٹین بڑھائی مٹن، بیف کا استعمال (بنا گھی یا خالص دیسی گھی میں)۔ میٹھا مکمل ترک کر دیا۔ اس قدر کہ مجھے آخری میٹھی بائٹ لیے بھی شاید دو ہفتے گزر چکے ہیں اور وہ بھی صرف ایک چھوٹی سی بائیٹ پتیسے کی لی تھی۔ بیکری آئیٹمز، چاول اور کولڈ ڈرنکس مکمل ختم۔ ناشتے میں اُبلے انڈے یا چیز آملیٹ، بلیک کافی۔ دوپہر میں ایک سیب یا ناشپاتی کے ساتھ کھیرے، ٹماٹر کا سلاد اور شام سات بجے تک میں ڈنر کر لیتا ہوں۔ گندم کی روٹی ترک کر دی۔ ملٹی گرین آٹے کی روٹی کھاتا ہوں۔ ابتداء میں تو بہت سخت اور بدذائقہ سے لگتی ہے پھر عادت ہو جاتی ہے۔ اس آٹے کو اگر تھوڑا سا نیم گرم دودھ ڈال کر گوندھا جائے تو پھر روٹی نرم بنتی ہے۔
الغرض ایکدم ٹائٹ ڈائیٹ پر آیا۔ میں لندن گیا تو انعام رانا ایک صبح کہنے لگا یار حلوہ پوری کھائے مجھے بھی عرصہ ہوگیا چل تو بھی ایک دن موج مار لے۔ ایک پوری سے کچھ نہیں ہو جائے گا۔ ہم دونوں ایسٹ لندن کے ایک مشہور ناشتہ پوائنٹ پر چلے گئے۔ پوری چنے کھائے ساتھ تھوڑا سا حلوہ چکھا۔ اس کے بعد آپ یقین کریں کہ محض اس بدپرہیزی کو ڈائجسٹ کرنے یا شوگر لیول نارمل کرنے کو ہم دونوں ایسٹ لندن الفورڈ سٹریٹ سے پیدل نکلے اور سینٹرل لندن ہائیڈ پارک تک اٹھارہ کلومیٹر واک کی۔ یعنی اگر کچھ بدپرہیزی کر بھی لی تو بعد میں مکمل انصاف کیا۔
گذشتہ روز رپورٹس کرائیں۔ اب HBA1C کم ہوتا ہوتا 6 پر آ گیا ہے اور میں نے اسے 5.5 تک لانا ہے جو کہ شوگر فری یا گرین زون ہے۔ کولیسٹرول مکمل سیٹ ہو چکا ہے۔ گڈ کولیسٹرول کی مقدار بہترین ہوگئی ہے۔ ٹرائی گلیسرائیڈز اپنی کم لمٹ پر آ گئے ہیں۔ وٹامن ڈی بڑھانے کے لیے وٹامن ڈی کیپسول کے ساتھ میں نے صبح صبح کی دھوپ میں واک بھی روٹین بنائی اور اب وٹامن ڈی اپنی نارمل رینج میں بلکہ بہت اچھی مقدار میں ہے۔
اب آپ پوچھیں گے میڈیسنز کا استعمال کیا؟ جی ہاں ظاہر ہے شروع میں اس قدر ہائی شوگر کو کنٹرول کرنے اور کولیسٹرول کم کرنے کو ڈاکٹر کی ہدایات پر ٹیبلٹس لیں۔ ایک ماہ بعد مجھے محسوس ہونے لگا کہ ٹیبلٹس کے ساتھ میرا شوگر لیول لو سائیڈ پر رہنے لگا ہے۔ میں نے اپنے بازو کی پشت پر continuous glucose monitoring sensor لگا رکھا تھا جو پل پل خون سے شوگر مونیٹر کرکے اپنی موبائل ایپ پر رپورٹ دیتا رہتا ہے۔ یہ ایک سینسر ہے جس کی پِن آپ کے جسم میں داخل ہوتی ہے اور پندرہ دن تک وہ سینسر رپورٹ کرتا ہے۔ اس طرح آپ کو بار بار شوگر چیک کرنے کے واسطے گلوکو میٹر کا استعمال نہیں کرنا ہوتا اور نہ ہی بار بار انگلیوں میں سوئی چبھو کر خون کا قطرہ نکالنے کی زحمت اٹھانا پڑتی ہے۔ میری شوگر 80 سے 100 تک رہنے لگی۔ کھانے کے دو گھنٹے بعد وہ 140 سے 155 تک جاتی اور پھر ڈاؤن ہو کر 100 کے اندر آ جاتی۔ جو کہ پرفیکٹ نارمل رینج ہے۔
پھر سوچا چونکہ میں غذائی پرہیز سے شوگر کنٹرول کر رہا ہوں اس لیے شوگر کی ٹیبلٹ ترک کرکے دیکھتا ہوں۔ میں نے ٹیبلٹ لینا چھوڑ دی۔ شوگر کنٹرول میں رہی۔ اس کہ وجہ یہ کہ میں کوئی ایسی غذا لے ہی نہیں رہا تھا جو کاربوہائیڈریٹس پر مشتمل ہوتی جس کے سبب بلڈ شوگر بڑھتی ہے۔ چونکہ شوگر کو مسلسل مونیٹر کر رہا تھا اس لیے معلوم ہو رہا تھا وہ نارمل رینج میں جا رہی ہے۔ اس کے بعد میں نے کولیسٹرول کی دوائی بھی چھوڑ دی۔ واک کی۔ وزن میرا کم ہوا اور اب باڈی کو جتنی انسولین چاہئیے وہ خود ہی پروڈیوس کرنے لگ گئی ہے۔ کچھ عرصہ اسی ڈائیٹ پر رہا تو یہ مکمل ریورس ہو سکتی ہے۔
ریورس ہونے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اگر HBA1C کو میں 5.5 تک لے آؤں تو پھر نارمل ہو جاؤں گا اور پھر جب چاہو جیسا چاہو میٹھا کھانے لگوں یا سوڈے اور بدپرہیزی شروع کر دوں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ نارمل کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ بلڈ میں گلوکوز کی مقدار نارمل صحتمند انسان جیسی ہے اور یہ غذائی پرہیز کے سبب ہی مینٹین رہے گی۔ یہی لائف سٹائل مستقل چلے گا ورنہ بدپرہیزی پھر سے شوگر کو بڑھا دے گی۔ بس آپ کی ادویات یا جو لوگ انسولین لیتے ہیں ان سے جان چھوٹ جائے گی۔ کبھی کبھار سویٹ ڈش بھی کھا لیں، پھل کھائیں کوئی ایشو نہیں لیکن بے تحاشہ نہیں۔ ایک مقدار میں۔ جیسا مرضی پھل کھائیں ماسوائے کھجور، کیلا، آڑو، انگور اور آم کے۔ ان کا گلوکو انڈیکس بہت ہائی ہے۔ یہ پھل جسم میں بہت زیادہ شوگر پروڈیوس کرتے ہیں۔ ایک سیب، ایک ناشپاتی، گرما، تربوز، الغرض کچھ بھی کھائیں لیکن لمٹ میں۔ کسی بھی پھل کا جوس نہیں پئیں۔ پھل کو اس کے فائبر کے ساتھ کھائیں بس۔
اچھا اب یہ سب داستان بیان کرنے کا ایک مقصد ہے۔ پاکستان ان ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہے جہاں شوگر کے مریض الارمنگ حد تک ہیں۔ سوا تین کروڑ افراد اس مرض کا شکار ہیں۔ جن میں آدھ سے زائد کو معلوم ہی نہیں کہ وہ ذیابیطس کا شکار ہیں۔ معلوم نہ ہونے کا سبب غربت یا عدم توجہ یا لاپرواہی یا لاعلمی ہے۔ ایک دن اچانک ہی کسی میڈیکل ایمرجنسی میں معلوم پڑتا ہے کہ صاحب آپ کو تو شوگر ہے جو ناقابل کنٹرول ہے۔ یہ مرض سلو پوائزن ہے۔ انسان کو دہائیوں میں مارتا ہے۔ لیکن مسلسل ہائی شوگر انسان کو دس سالوں کے اندر ہی مار دیتی ہے۔ ہارٹ سٹروک کا سب سے بڑا سبب ہائی شوگر ہے، جس کے سبب دل کی شریانیں سکڑ جاتیں ہیں۔ ذیابیطس صرف مسلسل میٹھا کھانے یا فاسٹ فوڈ لینے یا کاربوہائیڈریٹس پر مبنیٰ غذا لینے سے نہیں ہوتی۔ یہ جنیاتی مرض بھی ہے۔ یہ ٹینشن سے بھی پیدا ہوتا ہے۔ اس کی ماں ہائی ٹینشن یا سٹریس ہے۔ شوگر تو جھگی والے کو بھی ہوتی ہے جس کو بنیادی لوازمات زندگی میسر ہی نہیں ہو پاتے۔
شوگر کو کنٹرول کرنا بھی غریب کے بس کا نہیں رہا۔ آسودہ انسان تو خرچ کر لیتا ہے۔ کہاں سے خرچ کرے گا ایک دیہاڑی دار یا اپنا پیٹ کاٹ کر اولاد کو پالنے والا ایک عام پاکستانی اپنی خوراک کو مینٹین کرنے، پروٹین والی غذا لینے اور ادویات اور شوگر مونیٹرنگ سسٹم یا گلوکومیٹر کی سٹرپس کو افورڈ کرنے یا پھلوں کا استعمال روزمرہ کا حصہ بنانے کو؟ جس کو عام گھی کا پیکٹ بھی مشقت کرکے بمشکل دستیاب اور پورا پڑتا ہو وہ کہاں سے کھائے دیسی گھی، مکھن اور انڈے؟ ہاں ڈاکٹرز بتاتے ہیں کہ پروٹین تو دالوں میں بھی ہوتی ہے لیکن دالیں کس بھاؤ بکتی ہیں۔ الغرض ایک عام پاکستانی کی زندگی جہنم بن چکی ہے۔ وہ متعدد بیماریوں کے ساتھ چلتا چلا جا رہا ہے۔ ایکدم اچانک ہی گُل ہو جاتا ہے اور گھر والے روتے کہتے رہ جاتے ہیں "اچھا بھلا تھا، ابھی ابھی گیا اور گر گیا" یا "رات کو سوئے اُٹھے ہی نہیں۔ "یا" ابھی تو میری ان سے فون پر بات ہوئی تھی"۔
تو بھائیو اینڈ لیڈیز۔ اس ملک میں آپ نے اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنا ہے اور صحتمند بھی رہنا ہے تو آپ کو بہت سا کمانا ہے۔ آپ کو اپنا معیار زندگی بلند کرنا ہے۔ اس کے لیے آپ کو کسی شعبے میں باہنر بننا ہوگا۔ کوئی ایسی سکلز سیکھنا ہوں گی جو آپ کو پے بیک کر سکیں۔ ارباب اختیار آئین، جمہوریت، مارشل لاء یہ سب چولہے میں ڈالیں یہ عوام کو کیا دیں گے۔ ایک عام پاکستانی کو اگر صرف صحت دے دیں تو وہ ساری عمر ریاست کا احسان مند رہے گا۔ صحت کے شعبے میں ہی انقلاب برپا کر دیں تو پاکستانی اسی کو من و سلوا مان کر خوش رہیں گے۔ مگر عوام واسطے کچھ تو کریں۔ یہ کیا کہ سب کچھ اشرافیہ اپنے لیے کرے اور عام پاکستانی غربت، افلاس، مشقت اور بیماری سے مرتا رہے۔ کتنے خوش جمال عام پاکستانی، ادیب، شاعر، دانشور، ہنرمند کاوش روزگار کے اسی چکر میں مر گئے۔ فراز کی ایک نظم ہے۔
کئی آبشار سے جسم تھے
کہ جو قطرہ قطرہ پگھل گئے
کئی خوش جمال طلسم تھے
جنہیں گرد باد نگل گئے
مرے پاسباں مرے نقب زن
مرا ملک ملک یتیم ہے
مرا دیس میر سپاہ کا
مرا شہر مال غنیم ہے
یہاں روز حشر بپا ہوئے
پر کوئی بھی روز جزا نہیں
یہاں زندگی بھی عذاب ہے
یہاں موت میں بھی شفا نہیں

