Siyah Nahi Siah
سیاح نہیں سیاہ

شہر کی سڑکیں اور چوراہے تنگ ہیں، ہر ایک کے پاس نان کسٹم پیڈ گاڑی ہے اوپر سے ٹورسٹس کا رش ہے۔ یہ سکردو ہے اور جام پیک ہے۔ یادش بخیر وہ دن جب سکون ہوتا تھا۔ پاکستانیوں کو سکردو اور بالعموم شمال سے متعارف کروانے والے میرے جیسے لوگوں کو اب حالتِ حال دیکھ کر ملال ہوتا ہے۔ ہماری جھیلیں، دریا، شہر، چراہ گاہیں کچرے کا ڈھیر بنتی جا رہی ہیں۔ سیاح کی بجائے سیاہ آ گئے ہیں۔ گاڑیوں کے دھویں نے وادیاں دُھندلا دی ہیں۔
کبھی یوں تھا کہ ناٹکو کی بس میں بکریوں کے ہمراہ سفر کرتا گلگت یا سکردو پہنچتا اور ہزار روپے فی نائٹ والے ہوٹل کی تلاش شروع کر دیتا۔ سیاحت کبھی بھی سستا شوق نہیں رہا۔ اس وقت ہزار روپیہ والا ہوٹل تلاشنا بھی جوئے شیر لانے جیسا ہوتا تھا۔ گلگت بلتستان کی جانب سیاحت کا رجحان نہیں تھا۔ کچھ فارنرز نظر آتے تھے جن کی اکثریت بیک پیکرز کی ہوتی۔ جھیلیں، دریا، ندی نالے صاف شفاف تھے۔ ایسے نیلگوں یا ایسے سبز گویا قدرت نے کینوس پینٹ بھرا ہو۔ شام ڈھلے راستے سنسان ہو جاتے۔ کبھی کبھار کوئی ٹرک گزرتا تو ساری وادی انجن کے شور سے جاگ اُٹھتی۔
اب تو سیاحت مڈل کلاس طبقے کے بس سے باہر ہو چکی ہے۔ ہوٹلز کے ریٹس، جیپ کے ریٹس اور کھانوں کی قیمتیں ناقابل برداشت ہو چکی ہیں۔ میں جب یہ لکھ رہا ہوں تو اسی خیال سے لکھ رہا ہوں کہ میں افورڈ کر سکتا ہوں مگر یہ خیال آتا رہتا ہے کہ ایک تنخواہ دار انسان کیسے اپنے بال بچوں کو چند دن کے لیے گھما سکتا ہے۔ میرے واسطے تو سو ڈالر ہے مگر عام پاکستانی کے واسطے تیس ہزار ہے جو جیپ سکردو سے دیوسائی آنے جانے کا لے لے گی۔ میں پچاس ڈالرز کا ایک عامیانہ سا کمرہ لے لوں گا جو صاف ستھرا ہو مگر عام پاکستانی کے لیے پندرہ ہزار پر نائٹ بن جائے گا۔ ایک وقت کا کھانا پانچ سے چھ ہزار میں پڑ جاتا ہے۔
اور پھر یہ سب کوئی کرے تو کیوں کرے؟ ایک شخص جمع پونجھی لگا کر شمال جائے تو کیا دیکھنے؟ پیمپر سے بھری جھیلیں؟ کچرے سے لدے پہاڑ یا دھوئیں سے بھری وادیاں؟ سیاح نہیں سیاہ ہیں ہم لوگ۔ دُکھ ہوتا ہے یہ سب دیکھ کر۔ دیکھتے ہی دیکھتے کنکریٹ جنگلات کو نِگل گیا ہے۔ کمرشل ازم نے جہاں مقامی لوگوں کا معیار زندگی بلند کیا ہے وہیں ان کی ثقافت، اخلاق اور مروت کو بھی کمپرومائز کیا ہے۔ کون سا پیغمبر اب آنا ہے جو صرف و صرف یہ بتلائے کہ صفائی نصف ایمان ہے؟ پتہ نہیں ہمارے ڈی این اے میں کیا فالٹ ہے مگر کچھ تو ہے۔
وقت کے ساتھ انسان اور معاشرے ترقی کرتے ہیں۔ اگر یہ ترقی ہے تو زوال کیا شے ہے؟ گلگت بلتستان ریڈیو نے مجھ سے انٹرویو لیا اور میزبان کا مسلسل سوال مجھ سے یہی تھا کہ آپ ماحولیاتی آلودگی کے بارے کیا کہتے ہیں؟ ہمارے علاقے سیاحت کی کثرت کے سبب کچرا بن رہے ہیں۔ میں نے شرمندہ ہو کر جواب دیا کہ قابل افسوس ہے۔ اس نے پھر سوال دہرا دیا "بخاری صاحب اس میں آپ کس کو زیادہ قصور وار سمجھتے ہیں؟ گلگت بلتستان کے حکومتی اداروں یا سیاحوں کو؟"
میرا جواب تھا "سب سے پہلے خود کو۔ میں نے اپنے تئیں ساری عمر ان علاقوں کا حُسن اجاگر کرنے میں لگائی تاکہ ہمارے لوگ اپنے جغرافئیے سے آشنا ہوں اور بیرونی دنیا کے لوگ پاکستان کا خوبصورت چہرہ بھی دیکھیں۔ افسوس دراصل مجھے خود پر ہوتا ہے۔ اور یہ صرف میرا ملال نہیں ہر اس انسان کا ہے جس نے اپنے فن کے ذریعہ یہی کوشش کی۔ وہ فوٹوگرافر ہو، لکھاری ہو، کوہ پیما ہو، ٹریکر ہو۔ "
کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے اس سارے کچرے کا ذمہ دار تھوڑا سا میں ہوں۔ میرے بچے مجھ سے پوچھتے رہے "بابا یہ گند پہلے بھی ہوتا تھا؟" میں یہی کہتا رہا کہ ہاں ہوتا تو تھا مگر ذہنوں میں ہوتا تھا اب سڑکوں، جھیلوں اور وادیوں میں آ گیا ہے۔ میں آج مسلسل یہی سوچ رہا تھا۔ اور اب رات کے اس پہر بھی یہی سوچ سونے نہیں دے رہی۔

