Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Siah Ko Surkh Hona Chahiye Tha

Siah Ko Surkh Hona Chahiye Tha

سیاہ کو سرخ ہونا چاہئیے تھا

سرخ رنگ مزاحمت، قربانی اور ملوکیت کی ہر شکل کے خلاف جہدِ مسلسل کا استعارہ ہے۔ جبکہ سیاہ رنگ سوگ اور ٹھہراؤ کی کیفیت ظاہر کرتا ہے۔ کربلا میں امام حسین کے روضے پر آج بھی سرخ پھریرا لہراتا ہے۔ یعنی باطل کے مقابل حق کا بنیادی رنگ۔ مگر طاغوت یا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت کے پیغام کی رسائی کو محدود و مسخ کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کیے گئے۔ اسے اموی و ہاشمی قبائلی و خاندانی رقابت کا شاخسانہ قرار دیا گیا۔

اسے تخت نشینی کی لڑائی قرار دیا گیا۔ اسے ایک مسلمان ریاست کے خلاف ایک باغی گروہ کا خروج بتایا گیا۔ اسے ایک فرد کی دوسرے فرد سے اقتدار چھیننے کی کوشش قرار دیا گیا۔ یا پھر لوگ سیاہ و سفید کے بارے میں ازخود فیصلہ کرنے سے باز رہیں، چنانچہ کہا گیا کہ ہم کون ہوتے ہیں یہ طے کرنے والے کہ دونوں میں سے کون حق پر ہے اور کون ناحق۔ یہ فیصلہ تو صرف خدا کی عدالت میں ہی ممکن ہے۔

اور یہ تمام سازشی نظریات ملوکیت سے نتھی مذہبی اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے تیار کیے اور پھیلائے گئے تاکہ اہلِ بیت کی قربانی کے اصل پیغام کو عوام الناس کا ترانہ بننے سے روکا جا سکے اور اسے مسلمانوں کے اتحاد کا محور بننے کے بجائے مزید فروعی تقسیم کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ عباسی دور کے اختتامی زمانے تک جب اصولوں کی سربلندی کے لیے تن من دھن کی پرواہ نہ کرنے والا آئمہ کرام کا سلسلہ تھما۔ تو آلِ بویہ اور پھر صفوی دور میں نظریہ مزاحمت کو رسومات و ادب آداب کے سانچے میں ڈھالنے کا سلسلہ شروع ہوا اور یوں ایک اور طرح کی دربار دار مذہبی اسٹیبلشمنٹ وجود میں آئی (اسٹیبلشمنٹ کا مطلب ہی سٹیٹس کی برقراری اور نظریاتی جمود کا دفاع ہے۔)

یوں باطل کی ہر شکل کے خلاف جدوجہد اور کسی صورت سمجھوتا نہ کرنے کی کربلائی روح کو رسومات کے جسد میں قید کرکے محض سوگ کا رنگ اوڑھا دیا گیا اور سرخ پھریرا بتدریج پیچھے ہوتا چلا گیا۔ ایک طبقہ فکر نے وہ تلوار جو طاغوت و جبروت کے سینے پر چلانا تھی وہ سیاہ رنگ اوڑھ کر اپنی پیٹھ پر برسا لی اور دوسرے طبقہ فکر نے سفید رنگ اوڑھ کر حسینیت یا حسینی مشن کو ختم شریف، قُل خوانی اور قبرستان کے دورے تک محدود کر دیا۔

مذہبی اسٹیبلشمنٹ سے مراد وہ تمام راہب، فقیہہ، رباعی، پنڈت، بھکشو، پادری، علما و مشائخ ہیں جنہوں نے اہلِ حق کو راہ سے ہٹانے کے لیے حاکمِ وقت کو شریعت کے نام پر جواز مہیا کئے۔ لوگوں کی تعلیم کرتے رہنے اور انہیں سچائی کے راستے پر رکھنے کے لیے مشکلات و قربانیوں کا راستہ چھوڑ کر سچائی کو ریاست و ملوکیت کے مفادات کے تابع کر دیا اور مزاحمتی روح کو تھپک تھپک کے سلا دیا اور بدلے میں مراعات، ملوکیت کی عطا کردہ دستارِ فضیلت، اقتدار میں حصہ داری، سجادہ نشینیاں اور فروغ دین کے نام پر نسل در نسل املاک و خطابات و جاگیریں پائیں اور بنائیں اور اس سب کا جواز دین سے جوڑ کر اسے جائز ثابت کرنے اور دکھانے کی کوشش کی۔

آپ دیکھیں کہ جتنے بھی بڑے مذاہب اور نظریات وجود میں آئے ان کا بنیادی ہدف باطل کے مقابلے میں حق و انصاف کا بول بالا تھا۔ مثلاً یہودیت حضرت ابراہیمؑ سے شروع ہوتی ہے جنہوں نے نمرود کی خدائی کو چیلنج کیا اور پھر حضرتِ موسیٰ فرعونیت کے آگے سینہ سپر ہو گئے۔ شریعتِ موسوی وجود میں آ گئی۔ اور پھر رفتہ رفتہ روح نکلتی چلی گئی اور رسومات کی شکل میں جسم باقی رہ گیا اور پھر جسم کو بھی موقع پرستی کھا گئی۔

حضرت عیسیٰؑ کی جدوجہد یہودی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف شروع ہوتی ہے۔ آپ سمیت آپ کے حواریوں اور پھر ان کے بعد آنے والے تابعین نے عدم تشدد کی بنیاد پر استوار عیسوی نظریے کی سربلندی کے لیے کیا کیا مظالم نہ سہے اور کون سی قربانیاں نہیں دیں۔ مگر پھر ریاست اور مسیحی نظریے میں اتحاد ہوگیا اور جدوجہد کا پیغام ایک نئے سٹیٹس کو اور رسوماتی جال میں پھنس گیا۔ اور پھر آنے والی صدیوں میں پاپائیت نے بھی وہی شکل و حربے اختیار کئے جو کسی بھی ملوکیت کا طرہِ امتیاز ہے۔

اسلام بنیادی طور پر انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال اور ملوکیت کی ہر شکل کے خاتمے کے لیے وحدانیت کے محور پر پیش کیا گیا۔ مگر رسول اللہ نے خطبہ حجتہ الوداع میں اتحادِ بین المسلمین، ردِ عصبیت، عربی و عجمی کے امتیاز پر تقویٰ کی فوقیت اور معیشت کے بارے میں جو جو اصول دھرائے اور نصیحتیں کیں۔ آپ کے پردہ فرمانے کے بعد چند عشروں میں ہی ایک کے بعد ایک ہدایت و نصیحت طاق پر رکھ دیے گئے اور پھر وہی ہوا جو کہ ہوتا ہے یعنی ہر شکل کی ملوکیت و مذہبی اسٹیبلشمنٹ کا گٹھ جوڑ یا پھر نظریے کی بالادستی کے نام پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور عوام الناس کو ضعیف الاعتقادی و جہالت سے نجات دلانے کے بجائے اسے اپنے فائدے کے لیے ہتھیار بنانے کی کوشش۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ سرخ کا سیاہ میں بدلنا جتنا آسان ہے۔ سیاہ پر دوبارہ سرخ رنگ چڑھانا اتنا ہی مشکل۔ مگر مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ سرخ رنگ ہر دور میں ایک نئے انداز میں تازہ ولولے کے ساتھ ابھرتا ہے اور رفتہ رفتہ جب اس پر مصلحتی سیاہ رنگ غالب آنے لگتا ہے تو کہیں اور سے ایک اور سرخ فوارہ ابل پڑتا ہے۔

خود ہمارے گرم خون کے ساتھ بھی تو یہی ہوتا ہے۔ کچھ دیر سرخ رہتا ہے مگر گرنے کے بعد بتدریج سیاہی مائل ٹھنڈا ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ معرکہ سرخ و سیاہ شاید اسی طرح جاری رہے گا۔

Check Also

Aaj Ki Raniyan Aur Ranaiyan

By Mirza Yasin Baig