Thursday, 19 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Shehad Ki Khushbu Ya Badbu?

Shehad Ki Khushbu Ya Badbu?

شہد کی خوشبو یا بدبو؟

ائیر امارات سے اک بار میں کولالمپور سے دبئی آ رہا تھا۔ مجھے جو سیٹ ملی وہ جہاز کی سب سے آخری سیٹ تھی۔ یہ دو سیٹیں ساتھ ساتھ تھیں۔ دائیں ہاتھ برابر میں واش روم تھا اور بائیں ہاتھ ایک ونڈو سیٹ تھی جس پر ایک بھارتی آ کر بیٹھ گیا۔ اس نے شہد چڑھا رکھا تھا اور اس کے منہ اور کپڑوں سے شہد کی شدید بدبو آ رہی تھی۔

کچھ دیر گزری کہ اس نے مجھ سے پوچھا "کہاں سے تعلق رکھتے ہو؟"۔ میں نے سانس بند کر کے جلدی جلدی کہا "پاکستان"۔۔ بس یہ سننا تھا کہ وہ بیوڑا ہندوستان پاکستان دوستی پر بھاشن دینا شروع ہو گیا۔ بس وہ بولتا جائے اور میرا دم شہد کی بدبو سے گھٹتا جائے۔ میں چہرہ دوسری جانب پھیر کر ہوں ہاں کرتا رہا۔۔ وہ چونکہ شہد کے نشے میں ڈوبا ہوا تھا اسے پتا ہی نہیں تھا وہ کیا بول رہا ہے۔ بس واہگہ بارڈر، دوستی بس اور ٹرین سے لے کر دلی سرکار اور اسلام آباد کی پالیسیوں پر بھاشن دیتا رہا۔۔

آخر تنگ آ کر ائیر ہوسٹس جب ایک بچے کو واش روم لے کر آئی تو میں نے اسے اشارہ کیا کہ آپ سے ایک بات کرنی ہے ذرا پیچھے سائیڈ پر آئیں۔ ظاہر ہے میں یہ بات اس بھارتی کے سامنے تو نہیں کر سکتا تھا کہ برائے مہربانی میری سیٹ بدل دو۔۔ ہوسٹس یہ سن کر مجھے مشکوک قسم کا مرد سمجھی، بولی "یہاں ہی بولیں آپ میں سن رہی ہوں "۔ میں نے اسے مسکین صورت بنا کر اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بات ایسی ہے جو یہاں نہیں کر سکتا پلیز تھوڑا پیچھے آ کر سن لو۔۔ وہ ایکدم الرٹ ہو گئی اور قدرے ناگوار چہرہ بناتے ہوئے بولی کہ نہیں آپ سیٹ سے نہیں اٹھ سکتے یہاں ہی بتائیں۔۔

میں نے اسے بلآخر بھارتی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آہستہ سے کہا کہ دیکھیں یہاں بات نہیں ہو سکتی۔۔ وہ صورتحال کچھ سمجھ گئی اور مجھے اشارے سے اس نے پیچھے آنے کا کہا۔۔ میں سیٹ سے اٹھا اور جہاز کے آخری کونے میں جہاں بمشکل کھڑے ہونے کی جگہ تھی وہاں جا کر اس سے گزارش کی شہد کی وجہ سے وہاں میرا بیٹھنا ممکن نہیں اور وہ بندہ مجھے ہندوستان پاکستان دوستی پر مسلسل بھاشن دئے جا رہا ہے پلیز میری سیٹ بدل دو۔۔

بات سن کر اس کا پہلے سے حیران و ڈرا ہوا چہرہ نارمل ہوا اور اسے ہنسی آ گئی۔ اس نے کہا کہ آپ بیٹھو میں کچھ ارینجمنٹ کرتی ہوں۔ کچھ منٹوں بعد وہ آئی اور مجھے بلایا۔ میں اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ کیبن کریو کے پاس آ کر وہ بولی " میں خود انڈین ہوں اور معذرت خواہ ہوں کہ ایک انڈین کی وجہ سے آپ کو تکلیف اٹھانا پڑی، جہاز میں کوئی سیٹ خالی نہیں ہے۔ آپ کیبن کے ساتھ منسلک کریو کی سیٹ پر بیٹھ جائیں۔ یہاں پسنجر کو بٹھانے کی اجازت تو نہیں ہوتی مگر میں نے کاک پٹ سے اجازت لی ہے آپ کی صورتحال بتا کر"۔۔

میں اس منی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر ہی گزری ہو گی کہ وہ بیوڑا پتا نہیں کیا کرنے اس جگہ سے گزرا۔ اس نے مجھے دیکھا تو بولا" تم یہاں کیوں بیٹھے ہو میں تو سوچ رہا تھا واش روم میں گئے ہو۔ چلو اپنی سیٹ پر آ جاو ابھی بہت سی باتیں کرنی ہیں "۔۔ یہ سن کر میرے چودہ طبق روشن ہو گئے مجھے اور کچھ نہ سوجھا میں نے کہا "مجھے vomit ہو رہی ہے۔ دل خراب ہو رہا ہے اس لئے یہاں بیٹھا ہوں یہاں کچھ بہتر محسوس ہوتا ہے"

وہ چلا گیا۔ دبئی لینڈ ہوتے پھر ملا اور جاتے جاتے جپھی ڈالنے لگا۔ میں نے سانس روک کر جپھی ڈالی تو وہی ائیر ہوسٹس راہداری سے گزرتے ہوئے مجھے دیکھ کر کھلکھلا کر ہنسی اور پھر اپنی کولیگ کو ہمارا قصہ سنانے لگی۔۔

ہندوستان پاکستان دوستی اختتام کو پہنچی تو مجھے سکھ کا سانس آیا۔۔

امیگریشن کی لائن سے نکل کر جیسے ہی میں فری ہوا مجھے ایک پولش لڑکی نے روک لیا۔ اس کے پاس سے بھی شہد کی "خوشبو" آ رہی تھی۔ اس نے مجھے پاکستان کا پاسپورٹ دیکھ کر روکا۔ امیگریشن کی لائن میں وہ مجھ سے پیچھے کھڑی تھی۔ اپنا تعارف کروانے لگی کہ وہ پولیٹیکل سائنس کی اسٹوڈنٹ ہے اور پاکستان افئیر پر کچھ ریسرچ کر رہی ہے۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ ایبٹ آباد آپریشن اور اسامہ کی پاکستان موجودگی کے بارے کچھ معلومات جو پاکستانی سے مل سکیں (ان دنوں ایبٹ آباد آپریشن تازہ تازہ ہوا تھا)

بہر حال چونکہ وہ پولش لڑکی تھی اس لئے اس سے آنے والی شہد کی بدبو اگنور کی اور ایک گھنٹہ اس کو بریف کیا، یوں بھی وہ میری طرف مدد طلب نظروں سے دیکھتی تھی۔۔ اس کے بعد سارا دن مجھے خود سے شہد کی خوشبو آتی رہی۔ یقین مانیئے دیسی اور بدیسی شہد میں بہت فرق ہوتا ہے۔

Check Also

Mujawza Aaeeni Tareem Par Hukoomat Aur Opposition Ka Muaqif

By Asif Ali Yaqubi