Sharam Bhi Mehsoos Nahi Hoti
شرم بھی محسوس نہیں ہوتی

حکومت اور اس کے حامی آپ کو بتائیں گے کہ پارلیمنٹ سپریم ہے اور وہ آئین میں جو چاہے ترمیم کر سکتی ہے۔ وہ یہ بھی کہیں گے کہ ایسی ترامیم کو کوئی عدالت چیلنج نہیں کر سکتی کیونکہ آئین کے آرٹیکل 239 کے تحت قوانین میں ترمیم کرنے کا پارلیمنٹ کو مکمل اختیار حاصل ہے۔
پارلیمانی بالادستی کے اس دعوے کے کئی جوابات ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ دنیا بھر کی آئینی جمہوریتیں یا جمہوری ممالک اس بات پر متفق نہیں کہ اختیارات کی اصل تقسیم کیا ہے اور آئینی اختیارات کا توازن کس کے پاس ہے۔ جہاں کامن لا سسٹمز رائج ہیں جیسے کہ امریکہ اور بھارت وہ آئینی بالادستی کے اصول پر قائم ہیں۔ عدالتوں کے پاس وسیع بنیاد پر عدالتی نظرِثانی (judicial review) کا اختیار ہے۔ آئین کی بنیادی خصوصیات جیسے کہ اختیارات کی تقسیم، جمہوریت اور عدلیہ کی آزادی کو پارلیمنٹ بھی تبدیل نہیں کر سکتی۔ پارلیمان صرف اس وجہ سے کہ اسے ترمیم کا طریقہ معلوم ہے وہ بنیادی عمرانی معاہدے (social contract) کو اپنی مرضی کی کسی بھی شکل میں تبدیل نہیں کر سکتا۔
موجودہ ریجیم کے من پسند جج جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے راولپنڈی بار فیصلے میں یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ 1973 کا آئین پارلیمان کو طاقت نہیں دیتا کہ وہ عدالتوں کو ترامیم پر نظرثانی سے روکے۔ آرٹیکل 239 کی وہ شق جس میں عدالتی نظرثانی پر پابندی عائد کی گئی دراصل آٹھویں ترمیم کے ذریعے ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے اپنی طاقت بڑھانے کے لیے شامل کی۔ لہٰذا یہ دفعات بنیادی طور پر غیر جمہوری اور غیر قانونی ہیں۔
1973 کے آئین کے اوپننگ شاٹ یعنی preamble میں بھی جمہوریت، وفاق اور عدلیہ کی آزادی کا ذکر ہے۔ اگر ان تمام خصوصیات کو ختم کیا جا سکتا ہے تو پھر آئینی دستاویز کی نوعیت ہی کیا رہ جاتی ہے؟ ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا ایک مضبوط اور آزاد عدلیہ جو آئین کی بنیادی خصوصیات کی نگران ہو وہ جمہوریت اور بنیادی حقوق کی بہتر محافظ ہے یا پھر ایک بے لگام اور ربڑ سٹیمپ پارلیمنٹ جس کے اختیارات کی کوئی حد نہ ہو؟ ایک بات نہیں بھولنی چاہیے چاہے پارلیمنٹ سپریم ہی کیوں نہ ہو مگر ایک غیر نمائندہ پارلیمنٹ جس کی بنیاد فارم سینتالیس پر رکھی گئی ہو اسے پاکستان کے آئین میں بنیادی ڈھانچے کو متاثر کرنے والی ترامیم کرنے کا کوئی جواز حاصل نہیں۔
آئینی ترامیم جمہوری اتفاقِ رائے، عوامی مباحثے اور مہینوں اور برسوں پر مشتمل شفاف مکالمے کا نتیجہ ہوتی ہیں نہ کہ اُن پوشیدہ قوتوں کا کام جو گھنٹوں اور دنوں میں ترامیم منظور کروائیں۔
کوئی بھی عام پاکستانی چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت یا نظریے سے تعلق رکھتا ہو وہ عدلیہ کی تباہی اور عسکری اشرافیہ کے مزید مضبوط ہونے سے فائدہ نہیں اٹھائے گا اور یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوگا۔ ایگزیکٹو کے کنٹرول میں چلنے والی عدالت کیا نقصان پہنچا سکتی ہے صرف ماضی قریب بلکہ چھبیسویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کی آئینی بینچ کی کارروائی اور فیصلوں کو ہی دیکھ لیں۔ اس بینچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے کو الٹ کر نشستیں حکمران اتحاد میں بانٹنے کو دے دیں جس کے نتیجے میں حکومت کو دو تہائی اکثریت عطا کر دی گئی۔ اسی بینچ نے پاکستانی شہریوں کے خفیہ کورٹ مارشل کی اجازت دی۔ اس نے ججوں کے تبادلے کو ججز پر کنٹرول کا بٹن بنا دیا۔
ریاست کا ہر اس جج کو ہٹانے یا بدلنے کا اختیار جو ان کے حق میں فیصلہ نہ دے سکے آئین پاکستان کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ یہاں یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا ماضی سے حال تک ججز کے اندر سیاست کی جھلک نمایاں جھلکتی رہی ہے جس کے ردعمل نے موجودہ ریجیم کو ایسے اقدامات اٹھانے پر مجبور کر دیا جس کو کسی صورت جسٹیفائی نہیں کیا جا سکتا۔ ضرورت اس امر کی تھی عدلیہ سے سیاست کو پاک رکھنے، ججز کی بھرتی طریقہ کار کو پروفیشنل بورڈ کے حوالے کرنے، ججز کے آپسی تنازعات یا گروہ بندی میں سیاسی خطوط لکھنے پر پابندی عائد کرنے، تقرریوں و تبادلوں پر شفاف نظام یا بورڈ بنانے کے ساتھ سپریم جوڈیشل کونسل کے حدود و اختیار طے کرنے اور وفاقی شرعی عدالت (موجودہ آئینی کورٹ) میں ججز کی تعیناتی کے عمل کو اتنا مضبوط، خودکار اور شفاف بنانا چاہئیے تھا کہ اس پر کوئی سوال نہ اُٹھایا جا سکے۔ یعنی عدلیہ کو آزاد اور مضبوط بنانے کی بجائے اس کو باندھ کر زنجیر ایگزیکٹیو کے کھونٹے پر ٹانگ دی گئی اور اس پر ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ اس کو جمہوری نظام کا نام دے کر شادیانے بجانے کے ساتھ تاعمر حاصل استثنیٰ پر ڈھول پیٹے جاتے ہیں۔
اور دکھ یہ ہے صاحبان اختیار اور ان کے ہمنواؤں کو ایسا کرتے شرم بھی محسوس نہیں ہوتی۔ گر آئین سے بالا کوئی کام باامر مجبوری کرنا ہی پڑے تو نگاہیں جھکی اور چہرے پر ندامت رہنی چاہئیے تھی۔ یہاں تو سینہ تان کر اور سر اُٹھا کر فخریہ اعلان فتح فرمایا جاتا ہے اور یہ ہے وہ دکھ جو اصل دکھ ہے۔

