Seychelles (2)
سیشلز (2)
مندر سے باہر نکل کر میں نے لڈووں کو دیکھا جن سے دیسی گھی کی مہک اٹھ رہی تھی۔ لڈو کا دھرم نہیں ہوا کرتا لہذا ان کو کلمہ پڑھانے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ دونوں لڈو میں نے کھا لیے اور یقین مانیئے ایسے لذیذ لڈو تو پاکستان میں نہیں مل پائے۔ ان کا سواد آج بھی میری یادداشت میں محفوظ ہے۔
بطور سیاح میرا جہاں جانا ہوا میں نے بنی نوع آدم کی عبادت گاہوں میں قدم رکھا ہے۔ بدھ مندر ہوں، چرچ ہوں، ہندو مندر ہوں یا مساجد و امام بارگاہیں۔ ان عبادت گاہوں میں اپنے اپنے خدا کے ماننے والے عقیدت و احترام سے سرشار عبادت میں مگن دیکھے ہیں۔ مذاہب نے انسان کو انسان سے جوڑنا چاہا ہے مگر بدقسمتی سے منبر و محراب و مندر و کلیسا کے "چاہنے ماننے والوں" نے اپنے ہی مذہب کو ٹھیس پہنچاتے ہوئے انسان میں نفرتیں ابھاری ہیں۔ دین کوئی بھی ہو، کہیں کا بھی ہو، اس نے انسانوں کو نفرت نہیں سکھائی۔
ایک صبح وکٹوریا کی بندرگاہ چھوڑی۔ فیری بحر ہند میں جھولتی چلی جا رہی تھی۔ اس کی سمت مڈغاسگر کی طرف تھی۔ براعظم افریقہ کی حدود میں آسمان شفاف اور روشن تھا۔ سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ میں بحر ہند کے ایک جزیرے "لا ڈیگ" پر جا رہا تھا۔ تین کلومیٹر لمبا اور محض ایک کلومیٹر چوڑا ناریل کے درختوں میں گھِرا اُتھلے پانیوں کے شفاف ساحلوں کی وجہ سے دیکھنے کے قابل ہے۔ ایسا گماں ہوتا ہے جیسے کسی مصور نے بہت سوچ کر اپنے تخیل کے زور پر بنا دیا ہو۔ فیری ہال میں یورپی سیاحوں کی کافی تعداد سفر کر رہی تھی۔ ہال ائیر کنڈیشنڈ تھا۔ سمندر پر ڈولتی فیری کے اندر زیاده دیر بیٹھا نہیں جا سکا تو میں اُٹھ کر جہاز کے عرشے پر آ گیا۔ عرشہ سنسان پڑا تھا میرے علاوه کوئی موجود نہیں تھا۔ حدِنظر تک نیلے پانی تھے، کھُلا سمندر تھا۔۔
آسمان پر بادل کے ٹکرے بکھرے ہوئے تھے جن کا عکس پانیوں پر جھلکتا مگر فیری کے انجن سے پیدا ہونے والی لہریں سطح پر ارتعاش پیدا کر دیتیں۔ میں نے دو چار تصاویر لیں اور عرشے پر چوکڑی مار کر بیٹھ گیا۔ ہوا سے بال بکھر رہے تھے۔ پانی کی پھوار بھگو رہی تھی۔ فلائنگ فِش پانی سے نکلتیں اور دور تک ہوا میں اپنے پنکھ پھیلائے اڑتی جاتیں اور پھر پانی میں غائب ہو جاتیں۔ سطح کے چند انچ اوپر اڑتے ہوئے یہ مچھلی بالکل پرنده معلوم ہوتی تھی۔ وہیں اوپر ان کے شکاری کالے رنگ کے پرندے منڈلا رہے تھے۔ ایک فلائنگ فِش نے پانی سے باہر نکل کر اڑان بھری تو پرندے نے شکار کر لیا اور اسے چونچ میں دبا کر دور اڑ گیا پھر نظر کے سامنے مصور کی تصویر کھُلی۔ فیری نے بھونپو بجایا اور لا ڈیگ کے ساحل پر لنگر ڈال دیا۔۔
ساحل پر اترا تو یوں لگا جیسے میں کسی پینٹنگ کا حصہ بن گیا ہوں۔ سبز شفاف اُتھلے پانیوں کا ساحل تھا جس کے کناروں پر چٹانیں اور سفید ریت تھی۔ ناریل کے درخت تھے۔ سورج کی روشنی پانی کی تہہ تک اترتی اور منعکس ہو کر یوں لگتا جیسے کناروں پر پانی کی نہیں روشنی کی لہریں ہوں۔ اندر سفید اور رنگین چھوٹی چھوٹی مچھلیاں تیرتی دکھائی دیتں۔ وہیں کہیں سے اکارڈین کی آواز گونجی۔ دُھن محسور کن تھی۔ ایک کالا فنکار بڑے سے پتھر پر بیٹھا مست ہو کر اکارڈین بجا رہا تھا۔ میں اس کے سامنے رک کر سننے لگا۔ اس نے ہیٹ اتار کر خوش آمدید بولا تو میں نے پچاس مقامی روپے اس کے سامنے رکھ دئیے۔ دن بھر اکارڈین کی دھنیں گونجتی رہیں۔ میں فوٹوگرافی کرتا رہا اور کبھی تھک کر ریت پر بیٹھ جاتا۔ شام ڈھلنے لگی تو فیری نے واپسی کا بھونپو بجا دیا۔
واپسی کا سفر شروع ہوا تو شام ڈھل رہی تھی۔ جہاز کے عرشے پر کھڑا میں ڈھلتے سورج کو دیکھ رہا تھا۔ پھر شام کے رنگ بکھرنے لگے۔ بادلوں کے ٹکرے رنگے گئے۔ پانیوں پر عکس جھلکنے لگا۔ کھلے سمندر میں غروب آفتاب دیکھ کر دل میں بھی لہریں اٹھنے لگیں۔ تصاویر لے کر میں نے کیمرا رکھ دیا۔ کچھ پل یا کچھ لمحے صرف اپنے لئے ہوتے ہیں جن کو فوٹوگراف نہیں کیا جا سکتا۔ بحر ہند پر سورج ڈوبتا جا رہا تھا پھر پانی میں اتر کر بجھ گیا۔ ہوا میں نمی بھر آئی۔ تاریکی پھیلنے لگی۔ سامنے وکٹوریا کی بندرگاه کی روشنیاں نظر آنا شروع ہوگئیں۔ فیری نے بھونپو بجایا تو اس کی آواز بحر ہند کی نم فضا کو تار تار کرتی پھیل گئی۔ کھلے سمندر میں ایسا منظر میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔ سامنے بندرگاه تھی اور میں جیسے جہاز کے عرشے پر کھڑا بت بن چکا تھا۔ میرے مقدر کی لکیر میں ایک اور جزیرے کی مسافت ابھر آئی تھی۔ اگلی صبح مجھے اک نئے جزیرے کی سمت نکل جانا تھا۔ بحر ہند کے کھلے سمندر پر بیتی اس شام نے اب ایک عمر تک مجھے سلگائے رکھنا ہے۔۔
اگلی صبح سامنے ایک جزیرہ تھا۔ ایک چھوٹا سا جزیرہ، چند چٹانوں پر مشتمل۔ فیری اس کے قریب سے گزری تو میں نے رُکوا لی۔ یہ پرائیوٹ فیری تھی جس کو فی گھنٹوں کے حساب سے بُک کیا گیا تھا۔ اُتھلے پانیوں میں قدم رکھا تو شفاف پانیوں میں رنگین مچھلیاں کا گروہ گھبرا کر منتشر ہوگیا۔ ایک سٹار فِش ساتھ لگ گئی۔ وہ کناروں تک مجھے چھوڑنے آئی۔ میں نے اس جزیرے پر قدم رکھا تو پل بھر کو یوں لگا جیسے میں اس کا مالک ہوں۔ سمندر کے بیچوں بیچ کوئی انسانی آبادی نہیں تھی۔ سمندری ہوا بالوں کو بکھیر رہی تھی۔ تنہائی کا عالم تھا۔ یہاں لہریں بھی پیدا نہیں ہوتی تھیں۔ سمندر رُکا ہوُا سا لگ رہا تھا۔ وقت رُکا ہوا سا لگ رہا تھا۔ عین اُسی لمحے میرا دل چاہنے لگا کہ یہیں بیٹھے بیٹھے عمر بیت جائے اور یہیں قبر بن جائے۔
فیری والے نے بھونپو بجایا۔۔ یہ واپسی کا اشارہ تھا۔۔ واپس ڈیک پر پہنچا تو فیری کا کپتان ڈیک پر آ گیا اور بولا "یہاں سمندر میں لا تعداد ایسے چھوٹے چھوٹے جزیرے بکھرے ہوئے ہیں کبھی کبھی میرا دل کرتا ہے کہ کسی ایک پر اپنا مستقل ٹھکانہ بنا لوں اور یہیں مر جاؤں"۔۔ میں نے سُنتے ہی اُسے بتایا کہ میں بھی تو کچھ دیر پہلے یہی سوچ رہا تھا۔۔ کپتان نے خوش ہو کر زور سے ہاتھ ملایا اور بولا "ایک بئیر میری طرف سے"۔۔
میں نے شکریے کے ساتھ انکار کرتے ہوئے بتایا کہ میں بئیر نہیں پیتا تو کپتان اندر سے کوکا کولا کا کین اُٹھا لایا۔۔ جہاز بحرِ ہند کی سطح پر تیرتا رہا۔ میں جزیرے کو تب تک دیکھتا رہا جب تک وہ آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوگیا۔ تنہائی کا وہ چھوٹا سا جزیرہ اب خواب میں آتا ہے جس کے بیک ڈراپ میں کپتان کی ہنسی گونجتی ہے۔