Safar Meri Life Line
سفر میری لائف لائن
برسوں قبل جب زندگی آسودگی کے ساحل سے بہت دور بھنور بنی مجھے چکر دے رہی تھی اور شب و روز کے آنے جانے میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا تھا، ان دنوں کسی طرح میرا لاہور کا چکر لگا۔ انارکلی کے فٹ پاتھوں پر بکتے پرانے رسالوں کا ڈھیر جمع کیا۔ یہ رسالے فوٹوگرافی سے متعلقہ تھے۔ نیشنل جیوگرافک میگزین سمیت یورپ کے چھپے کچھ پرانے رسالے تھے۔ مجھے یاد ہے وہ سارا ڈھیر سو روپے میں مل گیا تھا۔ بیچنے والا بابا اسی ردی سمجھ کر نکال رہا تھا۔ اس قبیل کے رسالوں میں گاہک دلچسپی نہیں دکھاتے تھے اور نجانے کب سے وہ فٹ پاتھوں کی دھول کھا رہے تھے۔
میں شام گئے لاہور سے واپس سیالکوٹ میں واقع اپنے گھر داخل ہوا تو اماں نے وہ ردی کا ڈھیر دیکھ کر کہا "یہ سب کیا لے آئے ہو؟ کہاں سے لے آئے ہو؟"۔ اس وقت اماں کو یہ بات سمجھانے میں بہت وقت لگا کہ امی یہ فوٹوگرافی اور ٹریولنگ کے میگزین ہیں۔ مجھے شوق ہے تو لے لئے ہیں۔ مگر امی مسلسل یہی کہتی رہیں کہ پہلے پڑھائی پر توجہ دے لو، یہ شوق کوئی سستا شوق نہیں ہے۔ یہ کونسے کاموں میں دلچسپی لینے لگ گئے ہو۔ وغیرہ وغیرہ۔ وہی سب جو بظاہر مشکل مالی حالات میں ناممکنات میں شامل شوق کی جانب رجحان دیکھ کر ایک ماں اپنے بچے کو سمجھا سکتی تھی۔
پہلا کیمرا اماں نے اپنی تنخواہ سے کمیٹی نکلنے پر خرید دیا۔ وہ پہلا ڈیجیٹل کیمرا تھا۔ پاکٹ سائز فکس لینز کے ساتھ کوڈیک 1.5 میگا پکسل۔ پہلا سفر میں نے ابو کی ڈانٹ کے سبب دلبرداشتہ ہوتے ہوئے گھر سے بھاگ کر کیا۔ سیالکوٹ سے نکل کر ہنزہ چلا گیا۔ اس سفر کے بارے میں کئی بار لکھ چکا ہوں، اپنے میڈیا انٹرویوز میں بتا چکا ہوں۔ پھر وقت کو پر لگ گئے۔ والدین دنیا سے چل بسے۔ میں نے نوجوانی میں شادی کر لی۔ پھر وہی نوکری سے گھر تک تیزی سے گزرتے شب و روز کا سلسلہ اور اس سلسلے کے دوران پائی پائی جمع کرتے اپنے شوق کی تکمیل کا سفر ہے۔ اس سفر میں کئی بار اپنے کچن اور فیملی کو تنگ کرتا رہا۔ کولیگز سے ادھار لے کر بھی ٹریولنگ کے جنون کو پُرسہ دیا اور پھر ادھار واپس لوٹاتے کچن کمپرومائز کیا۔ ایک دور تھا جو بیت چکا۔
ان میگزین میں قطب شمالی کی روشنیوں پر مبنیٰ تصاویر بھی تھیں۔ ان تصاویر سے پہلی بار تعارف ہوا۔ مجھے معلوم ہوا کہ آرکٹیک سرکل میں موجود سرد ممالک میں یہ فطری روشنیاں موسم سرما میں رات کو آسمان پر دکھائی دیتی ہیں۔ انہیں نادرن لائٹس کہا جاتا ہے۔ اس وقت یہ سب معلومات میرے لیے برائے معلومات تک ہی تھیں۔ میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ایک دن میں ان کے تعاقب میں جاؤں گا۔ اس وقت تو یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ سائبیریا کی جھیل بائیکال جو دنیا کی سب سے بڑی تازہ پانی کی جھیل ہے وہ اس قدر خوبصورت ہے کہ وہاں کبھی میرے قدم بھی پڑ سکتے ہیں، سڈنی کا اوپرا ہاؤس بہت پیارا سہی مگر بہت دور تھا۔ اس وقت تو وہ سب خواب سا تھا۔
پاؤلو کویلہو کے ناول "الکیمسٹ" کا ایک خوبصورت جملہ ہے۔ یہ جملہ بھی تب ہی پڑھا تھا۔ "جب تم کسی کو دل سے چاہنے لگتے ہو تو ساری دنیا اس کے حصول کے لیے مل کر سازش کرنے لگتی ہے"۔ اس وقت اس کو کون سمجھ سکتا تھا۔ پھر وہ سب خواب تعبیر میں ڈھلتے چلے گئے۔ ان کو تعبیر میں ڈھالنے کے پیچھے کی داستان بہت مشقت طلب ہے۔ خدا نے مجھے ہر وہ مقام دکھا دیا جس کی کبھی تمنا کی تھی جو تب ناممکنات میں سے لگتا تھا اور پھر میں شمالی روشنیوں کے تعاقب میں نکل پڑا۔
سویڈن کے نارتھ کی جانب سفر کرتا رہا۔ میرا ارادہ تھا کہ سویڈن کے نارتھ سے ناروے کے نارتھ میں داخل ہوں گا۔ آرکٹیک سرکل میں پہنچ کر بیٹھ جاؤں گا۔ خدا مہربان رہا تو روشنیاں دکھائی دیں گی۔ اگر موسمی حالات کے سبب نہ دکھائی دے سکیں تو بھی اس کا شکر کہ اس نے موقع تو دے دیا ہے۔ سردی سخت تھی۔ لمبے سفر کرتا میں آرکٹیک سرکل میں واقع سویڈن کے شمال میں ایک شہر لُولیو کی جانب سفر میں تھا۔ ابھی منزل قریب نہیں آئی تھی کہ گاڑی چلاتے مجھے آسمان میں لہریں دکھائی دیں۔ یہ ہلکی سبز لہریں تھیں جو تیزی سے اپنا مقام و ہئیت بدل رہی تھیں۔ ان ڈانسنگ لہروں کے رنگ واضح نہیں تھے۔ اس کا سبب ٹریفک لائٹس تھیں۔ جیسے ہی سڑک پر ٹریفک ختم ہوئی میں نے اپنی گاڑی کی ہیڈ لائٹس بند کر دیں۔ گھپ اندھیرا چھایا تو میرے سامنے آسمان روشن تھا۔ سبز روشنیاں رقص کر رہی تھیں۔ ابھی منزل دور تھی۔
جیسے جیسے میں لُولیو شہر کے قریب ہوتا گیا آسمان روشنیوں سے بھرتا گیا۔ رات دس بجے میں اپنے ہوٹل پہنچا۔ چیک ان کیا۔ ریسپشن پر ایک سویڈش لڑکی تھی جو نیند کے سبب اونگھ رہی تھی۔ میں نے ایکسائٹڈ ہوتے اسے کہا "آسمان آج بہت روشن ہے۔ نادرن لائٹس بکھر رہی ہیں۔ مجھے فوٹوگرافی کرنا ہے۔ کیا تم مجھے کچھ لوکیشنز کے بارے بتا سکتی ہو جہاں سے اچھی تصاویر لی جا سکیں؟"۔
اس کے لیے شاید یہ معمول تھا۔ وہاں کے بسنے والوں کے لیے نادرن لائٹس ہر شب کی داستان تھی۔ وہ اونگھ لیتے بولی"اچھا۔ تم جھیل پر چلے جاؤ۔ پھر پہاڑ کی ٹاپ پر چلے جانا۔ فلاں فلاں پوائنٹس بھی دیکھ لینا۔ بیسٹ آف لک"۔
جو مقامات اس نے مجھے بتائے وہ میری سمجھ میں نہ آ سکے۔ البتہ میں یہ سمجھ گیا کہ وہ اس وقت بس سونا چاہتی ہے اور مجھ سے جلد از جلد فری ہونا چاہتی ہے۔ میں ہوٹل سے نکل گیا۔ گاڑی نکالی اور خود ہی شہر سے باہر نکل کر نامعلوم مقامات میں لوکیشن تلاش کرتا رہا۔ آسمان ساری رات روشن رہا۔ شمالی روشنیاں رقص کرتی رہیں۔ میں نہیں جانتا کہ میں کہاں کہاں گھومتا رہا۔ کیمرا سیٹ کرتا۔ پھر گاڑی میں بیٹھ کر ہیٹر سے ہاتھ گرم کرتا۔ پھر چل پڑتا اور نئی لوکیشن جو دل کو بھاتی وہاں یہی عمل رپیٹ کرتا۔ صبح ہوتے میں تھکن اور سردی کے سبب نڈھال ہو چکا تھا۔
پو پھوٹنے لگی تو رنگوں کا کھیل ختم ہوا۔ قدرت نے اپنے شو کا پردہ گرا دیا۔ اب سرمئی سا رنگ تھا جو ساری دنیا پر پھیلا محسوس ہو رہا تھا۔ ہوٹل پہنچا۔ اب وہ لڑکی ایکدم فریش تھی۔ صبح کے آٹھ بج رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی بولی "تمہاری فوٹوگرافی کیسی رہی؟ ناشتہ وہاں لگ چکا ہے۔ کافی مشین یہاں لگی ہے۔ ناشتے کا ٹائم نو بجے تک ہے"۔
نیند اور تھکن سے میں نڈھال تھا۔ میں نے بس اسے سمائل پاس کی اور شکریہ ادا کرکے اپنے کمرے میں سونے چلا گیا۔ بستر پر گرتے ہی آنکھ لگ گئی۔ خواب میں اماں کا چہرہ آیا، انارکلی کی آوارگی آئی، جھیل بائیکال اور سڈنی اوپرا ہاؤس سمیت دنیا کے وہ سب مقامات گڈ مڈ ہو کر آتے رہے جہاں میں جا چکا اور ان سب کے اوپر شمالی روشنیاں چمک رہی تھیں۔
ایک خواب کی تعبیر پا لینے پر جو خواب آتا ہے وہ شاید ایسا ہی بے ربط آتا ہے۔ منزل ہر مسافر کو ملتی ہے بس ایک ہی شرط ہے۔ اس کے حصول کی خاطر مسلسل لگن اور انتھک محنت۔ میرے بہت سے روپ اس لیے ہیں کہ میں نے زندگی کو برتا ہے۔ گزارا نہیں۔ نامساعد حالات میں بھی بھرپور زندگی بسر کی ہے۔ میں سست الوجود نہیں رہا۔ جیب خالی تھی تو بھی متحرک تھا، کچھ نہ کچھ کرتا رہتا تھا۔ یہ زمین ہر طرح کی سستی کے لیے قبرستان ہے۔ جو درخت آب و ہوا ناموافق ہونے کے باوجود بڑھ نہیں سکتا وہ سوکھ جاتا ہے اور جو جاندار چل دوڑ نہیں سکتا وہ شکار ہو جاتا ہے۔ میرے اور میرے جیسے بہت سے لوگوں کی اتنی سی کہانی ہے کہ ہم سب نے حالات کے ڈر سے دبکنے، رکاوٹوں کے خوف سے رکنے اور غربت کے پہاڑ سے خوفزدہ ہونے کی بجائے ان سب کو پار کر سفر جاری رکھا ہے۔
سفر میری لائف لائن رہی ہے۔ اگر میں نہ کرتا تو شاید کہیں ماضی میں گردشِ حالات کے سبب بکھر کر ختم ہوگیا ہوتا۔ مرنا تو سب نے ہے۔ مر وہ بھی جاتے ہیں جو ساری عمر پیسہ کمانے کو مشینی زندگی بسر کرتے ہوئے اپنے شہر، گاؤں یا ملک سے باہر نہیں نکلتے اور پائی پائی جوڑ کر چل بستے ہیں اور مر وہ بھی جاتے ہیں جو دنیا کو دیکھنے کی غرض سے سفر کرتے ہیں مگر مجھے ایمان کی حد تک یقین ہے کہ دوسری قسم کے لوگوں پر جب موت اترتی ہے تو وہ آخری لمحات میں دنیا کی حسین وادیوں، بستیوں، جھیلوں کے کنارے خود کو زندہ پاتے ہیں اور پھر روح جسم کی قید سے آزاد ہو جاتی ہے۔ میں چاہتا ہوں میرا شمار دوسری قسم کے لوگوں میں ہو۔
اس سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ نے زندگی اچھی یا بری کیسے گزاری ہے۔ اس سے فرق پڑتا ہے کہ اپنے کام، نام اور عمل سے آپ نے آٹھ ارب انسانوں کی اس دنیا میں کہاں اور کیا فُٹ پرنٹس چھوڑے ہیں۔