Safaid Posh Tabqa Ki Halat e Zar
سفید پوش طبقہ کی حالتَ زار

گھر کے قریب ایک سٹور ہے جہاں سے کچن کی اشیائے ضروریہ لیتا ہوں۔ کاؤنٹر پر اپنی ٹرالی لے کر داخل ہونے لگا تو یکدم برق رفتاری سے دو ننھے کیوٹ سے بچے مجھے پاس کرتے ہوئے کاؤنٹر پر جا کر رکے اور انہوں نے اپنی اپنی آئسکریم کاؤنٹر پر رکھ دی۔ دونوں بہن بھائی تھے۔ شکل و صورت ڈٹو کاپی تھی۔ عمریں ہوں گی سات آٹھ سال۔ سکول یونیفارم پہنے ہوئے تھے۔ میں ان کی پھرتیاں دیکھ کر رک گیا۔ آئسکریم انہوں نے وہ لی جو بچے عموماً شوق سے کھاتے ہیں فانٹا فلیور والی برف کی سٹک۔
میں نے ان دونوں کو دیکھا بہت ہی پیارے بچے تھے۔ میں نے چھیڑنے کو کہا "یہ آئسکریم پسند ہے؟ اس سے گلا خراب ہو جائے گا ابھی موسم بدل رہا ہے"۔ بچہ بولا "انکل چاکلیٹ والی پسند ہے لیکن اس کے پیسے نہیں ہیں"۔ اس کا اشارہ چاک بار کی طرف ہوگا۔ میں نے ہنس کے کہا اچھا تو feast نہیں تھی؟ بچی بولی " انکل وہ تھی لیکن وہ بہت مہنگی ہے"۔ میں نے کہا چلو جاؤ یہ واپس رکھ کے دو فیسٹ لے آؤ پیسے میں دیتا ہوں۔ یہ سنتے ہی دونوں یکذبان ہو کر کہنے لگے نہیں نہیں بابا نے منع کیا ہوا ہے کسی سے چیز لے کر نہیں کھاتے۔
کاؤنٹر پر کھڑی لڑکی ہم سب کی شکلیں دیکھ کر ہنس رہی تھی کہ ادھر کیا سین چل رہا ہے۔ میں نے اسے کہا یہ واپس رکھ دیں ان کو فیسٹ لانے دیں۔ بچوں نے ایک بار پھر انکار کیا تو میں نے کہا "کہاں ہے بابا تمہارے تم دونوں اکیلے آئے ہو؟"۔ بولے "نہیں وہ باہر بائیک پر ماما کے ساتھ بیٹھے ہیں ہم بس آئسکریم لینے اندر آئے ہیں"۔ میں نے کہا اچھا چلو جاؤ فیسٹ لاؤ تمہارے بابا کو میں بتا دوں گا۔ بلآخر بچے تو بچے ہوتے ہیں ان کو فیسٹ پسند تھی وہ مان گئے اور بھاگم بھاگ گئے۔ بھاگم بھاگ ویسے ہی برق رفتاری سے بدل لائے۔
وہ دونوں تھینکس انکل کہہ کر چلے گئے۔ میں اپنے سامان کا بل کرانے میں مصروف ہوگیا۔ اتنے میں ایک صاحب اندر چلے آئے۔ میرے پاس آئے۔ وہ ان بچوں کے والد تھے۔ میری ہی عمر کے تھے یا ایک دو سال کم ہوں گے۔ کہنے لگے آپ نے بچوں کو آئسکریم لے کر دی ہے؟ میں نے کہا ہاں وہ برف والی لے رہے تھے میں نے کہا فیسٹ کھاؤ۔ مجھے پیارے لگے ماشااللہ کیوٹ بچے ہیں تو لے دی۔ کہنے لگے نہیں آپ اس کے پیسے بتائیں۔ میں نے ہنس کے کہا "ٹھیک ہے اگر آپ کو برا لگا ہے تو دے دیں"۔ انہوں نے قیمت معلوم کی اور دو سو روپے مجھے دینے لگے۔ میں ہنس کے رکھ لیے۔ وہ چلے گئے۔
ساتھ میری بیگم صاحبہ بھی تھیں۔ ان کے جاتے ہی بولیں "یہ کیا کیا آپ نے پیسے لے لیے؟ یا تو بچوں کو لے کر نہ دیتے یا ان کے والد سے پیسے نہ لیتے"۔ عرض کی کہ بیگم صاحبہ آپ نے اس بندے کا لہجہ نہیں پرکھا۔ اس کی انا یا عزت نفس کو ٹھیس پہنچی تھی۔ وہ مجھے ہر صورت پیسے لوٹانے ہی اندر چل کر مجھے ڈھونڈتا آیا تھا۔ اس نے اپنے بچوں کو ٹھیک سبق پڑھایا ہے کہ کسی سے کچھ نہیں لیتے اور شاید وہ بچوں کی آئسکریموں پر زیادہ پیسے نہیں صرف کرنا چاہتا تھا اس لیے ان کو اپنی سہولت سے جتنے دے سکتا تھا دے چکا تھا۔ اگر میں واپس نہ لیتا تو اسے غصہ آتا۔ اس کی عزت نفس کا مسئلہ بن گیا تھا اس لیے رکھ لیے کہ وہ مطمئن ہو جائے۔ اب وہ یا تو بچوں کے ساتھ خود آ کر ان کو جو چاہئیے وہ دلایا کرے گا یا بجٹ کا مسئلہ ہونے کی صورت میں ان کو کسی بہانے ٹال دیا کرے گا۔ اکیلے نہیں بھیجے گا۔
پرانی بات ہے لگ بھگ سال قبل رہائشی سوسائٹی سے ذرا باہر ایک چھلی بیچتا بابا نظر آیا تو میں نے بریک لگا لی۔ مجھے بھٹہ ویسے بھی پسند ہے۔ میں نے سوچا گھر لے چلیں۔ بابا جی کو کہا کہ چار عدد بھٹے مصالحہ لگا کر شاپر میں ڈال دیں۔ بابا جی نے دہکتے کوئلوں میں سے بھٹے نکالے اور چھلکے اتار کر ان کو مصالحہ لگانے کی تیاری کرنے لگے۔ اتنے میں ایک موٹرسائیکل سوار آن رکا۔ مرد نے پیچھے اپنی بیوی اور آگے ٹینکی پر تین بچے بٹھا رکھے تھے۔ یعنی فلی لوڈڈ بائیک تھی۔
اس نے پانچ چھلیوں کا آرڈر دیا۔ بابا جی ابھی میرے بھٹے بنانے میں مصروف تھے۔ کچھ لمحوں بعد بائیک والا مرد بولا " پانچ کے کتنے پیسے؟"۔ بابا جی بولے"تین سو روپے"۔ مرد نے کہا "اتنے مہنگے؟" بابا جی بولے "پتر مہنگائی وچ میرا قصور تے نئیں۔ سٹھ روپے دی ویچنا آں"۔ مرد نے شرٹ کی اوپر والی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ کچھ پیسے برآمد ہوئے۔ ان کو گنا اور پھر واپس رکھتے بولا "تین سو نہیں ہیں رہنے دو"۔ بابا جی نے اسے دیکھا "توں پنجاہ روپے دے دے پتر جے نئیں ہے گے۔ ڈھائی سو دے دے"۔ مرد نے پھر انکار کیا اور چلنا چاہا۔ بائیک کی ٹینکی پر بیٹھے تینوں بچے ضد کرنے لگے۔ ایک رونے لگ گیا۔ مرد نے روتے بچے کو چماٹ ماری۔ اسے زور کا جھٹکا دے کر سیدھا کرکے ٹینکی پر فٹ طریقے سے بٹھایا اور گئیر لگا کر چلنا چاہا۔ میں نے اسے بازو سے روک لیا۔
اپنے تین بھٹے جو بابا جی تیار کر چکے تھے وہ اٹھائے اور ان تینوں بچوں کو دینے لگا۔ مرد بولا "بھائی نہیں چاہئیے آپ کو کیا مسئلہ ہے"۔ میں نے اس کا غصہ دیکھتے ہنستے ہوئے اسے کہا "استاد، تینوں تے نئیں دے ریا۔ توں اپنا تے بھابھی دا آپ خرید۔ بچیاں نوں دے ریا اپنی خوشی نال۔ مینوں بچے چنگے لگدے"۔ وہ پھر چپ رہا اور پھر چل دیا۔
میں نے بابا جی کو کہا کہ تین مزید لگا دو۔ بابا جی بولے "مہنگائی نے مار چھڈیا غریب بندے نوں۔ بندہ کی کرے۔ بچیاں نوں روٹی کھوائے کہ چھلی"۔ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا "بابا تیرے وی بچے ہے گے؟ او کی کردے؟"۔ بابا بولا "نہ پتر، میری اولاد کوئی نئیں ہوئی۔ اسی بس دو جی ہے گے۔ کدی چھلی ویچ لئی کدے جامن کدی کُش کدی کُش۔ بس اینج ای عمر لنگ گئی"۔ مجھے بابا جی کو سات چھلیوں کے پیسے دینا تھے۔ ہزار کا نوٹ دیا۔ بابے نے جیبوں سے پیسے نکالے اور گننے لگا۔ دس بیس اور سو کے ایک دو نوٹ تھے۔ بقیہ اس کے پاس نہیں تھا۔ کہنے لگا کہ میرے پاس باقی نہیں ہیں تم ٹوٹے ہوئے دو یا ہزار کا نوٹ تڑوا کے لے آؤ۔ میں اِدھر ہی ہوں۔ یہ دیکھ کر اسے کہا " بابا جی تسی ہزار رکھو۔ میں وی ایتھے ای رہندا آں۔ کل واپسی تے لے لاں گا"۔
ہمارا مڈل کلاس طبقہ سفید پوشی کا بھرم رکھتا تھا وہ بھی پِٹ چکا ہے۔ ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پچھلے دو سالوں میں ڈیڑھ کروڑ لوگ مزید خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں اور مجموعی طور پر اس ملک کی آبادی کا چالیس فیصد طبقہ خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔ غربت اپنے ساتھ احساس محرومی ہی نہیں لاتی بلکہ ناقابل برداشت غصہ، چڑچڑاپن، جہالت اور جرائم بھی لاتی ہے۔ ایسے معاشروں میں جو اگلی نسلیں تیار ہوتیں ہیں ان کا مذہب صرف چھینا جھپٹی ہوتا ہے۔ بھوک کا اور کوئی مذہب نہیں ہوتا۔

