Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Rudad e Watan

Rudad e Watan

رودادِ وطن

ایک صوفی تھکا ہارا جنگل سے جا رہا تھا۔ چلتے چلتے ایک ایسی جگہ پر پہنچ گیا جہاں جنگل کے جانوروں کا اجتماع تھا اور محفل مباحثہ گرم تھی۔ اس صوفی کو چونکہ جانوروں کی بولیوں کا علم تھا اس لیے وہ رُک کر سننے لگا۔ مباحثے کی صدارت ایک بوڑھے شیر کی سپرد تھی۔

سب سے پہلے لومڑی اسٹیج پر آئی اور کہا بردارنِ دشت سنئیے اور یاد رکھئیے کہ "چاند سورج سے بڑا ہے اور اس زیادہ روشن ہے"۔

ہاتھی نے اپنی باری پر کہا " گرمیاں سردیوں کے مقابلے میں زیادہ ٹھنڈی ہوتی ہیں"۔

جب باگھ اسٹیج پر آیا تو سارے جانور اس کی خوبصورتی سے مسحور ہو گئے۔ اس نے اپنے پیلے بدن پر سیاہ دھاریوں کو لہرا کر کہا "سنو بھائیو! دریا ہمیشہ سے اوپر کو چڑھتے ہیں"۔

صوفی نے شیر سے کہا صاحبِ صدر! یہ سب غضب کے مقرر ہیں اور ان کی وضاحت نے اس محفل کو ہلا کر رکھ دیا ہے لیکن میں حیران ہوں کہ سارے مقررین نے سارے ہی بیان غلط دیئے ہیں اور ہر بات الٹ کہی ہے۔ سامعین کو یا تو پتہ نہیں یا انہوں نے توجہ نہیں دی یا پھر وہ لا تعلقی سے سنتے رہے ہیں۔ ایسی احمقانہ اور غلط باتیں کرنے کی کس نے اجازت دی؟

شیر نے کہا " صوفی صاحب! یہ واقعی ایک عیب دار بات ہے اور شرمناک بات ہے لیکن ہمارے سامعین انٹرٹینمنٹ مانگتے ہیں انلائنمنٹ نہیں۔ پتہ نہیں ہم کو یہ عادت کیسے پڑی لیکن پڑ گئی ہے صوفی صاحب "۔

ہم پاکستانیوں کو انٹرٹینمنٹ کی عادت پڑ گئی ہے، سکے کا وہی رخ دیکھتے ہیں جو زیادہ چمکتا ہو۔ نالج اور انلائنمنٹ کی طرف کوئی نہیں دیکھتا۔ اس انٹرٹیمنٹ کی عادت میں ہر بات اُلٹی دیکھتے اُلٹی سوچتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ دنیا تمہاری عزت نہیں کرتی؟

چلو مان لیتے ہیں کہ دوسرے تمہاری عزت نہیں کرتے لیکن تم اپنی عزت کتنی کرتے ہو؟ تم نے جناح کی کتنی عزت کی؟ بس یہی نا کہ انہیں نوٹوں پر چھاپ دیا اور ان کی تصویر دفتروں میں لگا کر ہر وہ کام کیا جس سے سختی سے منع کیا گیا تھا؟ تم نے حسین شہید سہروردی کی کتنی عزت کی؟ پہلے وزیرِ اعظم بنایا پھر غدار بنا دیا۔ بنگالیوں کو اتنی عزت دی کہ سات ہزار سالہ انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ اکثریت اقلیت سے تنگ آ کے بھاگ گئی۔ جانے تمہیں اس کارنامے پر نوبیل پرائز کیوں نہ ملا؟

اور اب بلوچوں کی بنگالیوں سے بھی زیادہ عزت افزائی ہو رہی ہے؟ میاں ستّر لاکھ بلوچ تو تم سے سنبھل نہیں رہے اور تم نے ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے کشمیر کا، افغانستان کا، فلسطینیوں کا، برمی مسلمانوں کا، مصریوں کا، شامیوں کا اور خود کو کہتے ہو مسلم دنیا کا ایٹمی قلعہ۔ یہ ایٹم بم نہیں بلکہ غریب کے در پے بندھا ہاتھی ہے جس کے گنے تک پورے نہیں ہوپا رہے۔ بلکہ میں تو یوں کہوں کہ ایٹم بم نہ ہوا سولہ سال کی دوشیزہ ہوگئی کہ کوئی اٹھا کر نہ لے جائے۔ اپنی حفاظت کے لیے بنایا تھا نا؟ اب اس کی حفاظت کے لالے پڑے ہیں۔ یہ بتاؤ سعودی عرب میں کتنے پاکستانیوں کے سر قلم ہوئے؟ کبھی کسی سعودی کو پاکستان کی کسی جیل میں ایک سال تو بند کرکے دکھاؤ۔

چلو چوہدری ظفراللہ تو قادیانی تھا تم سے عزت نہ کی گئی تو بین الاقوامی عدالتِ انصاف اسے اٹھا کر لے گئی۔ لیکن آفتابِ موسیقی بڑے غلام علی خان تو قادیانی نہیں تھے انہیں کیوں پاکستان آ کر واپس انڈیا جانا پڑا؟ قراۃ العین حیدر تو کرسچن نہیں تھی اسے نو برس بعد کیوں یہ زمین آگ کا دریا محسوس ہونے لگی؟ جوش تو نہرو کا ہاتھ جھٹک کر یہاں آیا تھا۔ آخر میں فقیر ہو کر کیوں مرا؟ فیض صاحب تو کہیں سے نہیں آئے تھے نا؟ وہ کیوں ماسکو، بیروت اور لندن میں رہنے پر مجبور کردیے گئے؟ ہاں بھٹو کو پھندے کی شکل کا نشانِ پاکستان عطا ہوا اور اس کی بیٹی کو بلٹ کی شکل میں ہلالِ جرات۔ اور کیا دنیا نے تمہیں فزکس کا نوبیل پرائز دے کر عزت دینے کی کوشش نہیں کی تھی؟ اور تم نے اس نوبیل پرائز ونر کی قبر پر لگی تختی پر ہی کالک پھیر دی؟ اور واٹ اباؤٹ ملالہ؟

تیرہ چودہ برس کی وہ بچی جسے اپنے دستخط بھی نہیں آتے۔ وہ بھی جب توہینِ رسالت کے الزام سے عدالت میں بری ہوتی ہے تو اسے بھی جاں بخشی کے لیے مغرب کی طرف بھاگنا پڑتا ہے اور اس پر جھوٹا الزام لگانے والا انہی گلیوں میں ہار پہنے گھومتا ہے۔

اور ہاں یاد آیا تمہارا وہ حکمران جو سینے پر ہاتھ مار کے کہتا تھا کہ ہاں میں نے سی آئی اے کو پاکستانی فروخت کیے اور دوسرے سانس میں کہتا تھا کہ ریپ اس لیے ہورہے ہیں تاکہ مغرب میں پناہ لینے میں آسانی ہو۔ شائد اسی لیے تم اپنی آنکھ پر سو فیصد اور مغرب کے ایجاد کردہ ڈی این اے ٹیسٹ پر بالکل یقین نہیں رکھتے۔ مگر چاند دکھانے کے لیے مغرب کی دوربین پر تمہیں اپنی آنکھوں سے زیادہ اور میخائل کلاشنکوف کی ایجاد پر تمہیں اپنے ہاتھوں سے بھی زیادہ یقین ہے۔

کوئی تو وجہ ہوگی کہ پاکستانیوں کو پوری دنیا پاکستان کے اتنی خلاف محسوس ہوتی ہے۔ ملائیشنز انڈونیشینز یا بنگلہ دیشیوں یا ترکوں وغیرہ کو ایسی شکایت کیوں نہیں؟

شاید یہ سب قومیں خود پر یقین رکھتی ہیں اور اپنی کچھ نا کچھ عزت خود بھی کرتی ہیں اسی لیے دوسرے بھی انہیں تھوڑی بہت عزت دینے پر مجبور ہیں۔

Check Also

Shahbaz Gill Ka Kharaak, Shukria

By Nusrat Javed