Riyasat Kahan Qaim Hogi?
ریاست کہاں قائم ہوگی؟

نیویارک میں اقوام متحدہ کا اجلاس جاری ہے۔ دنیا بھر کے قائدین وہاں جمع ہیں لیکن نیویارک میں اس کے ساتھ ایک اہم اجلاس ہوا ہے۔ یہ اجلاس امریکی صدر ٹرمپ اور طیب اردوان کی مشترکہ صدارت میں منعقد ہوا ہے جس میں آٹھ اہم مسلم ممالک شامل تھے۔ جن میں پاکستان کے ساتھ قطر، سعودی عرب، انڈونیشیا، مصر، اردن اور امارات شامل ہیں۔ اس اجلاس کا مقصد غزہ کی صورتحال ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ مسلم ممالک کے سامنے اپنا دو ریاستی فارمولہ یا تجاویز پیش کریں گے۔ لگ یہی رہا ہے کہ اس سپیشل اجلاس کا مقصد "ابراہیم اکارڈ" پر ان ممالک کو بریف کرنا شامل ہے۔ امریکا کے ایرانی نمائندگان سے خفیہ مذاکرات کے دور ایران اسرائیل جنگ بندی کے بعد سے شیڈول کے مطابق چل رہے ہیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں دو روز قبل برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا نے فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
فلسطین کا مسئلہ دو ریاستی حل کی جانب بڑھ رہا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے فلسطین نامی ریاست کہاں بنائی جائے گی اس کا فارمولہ کیا ہے۔ یہ جواب تاحال کسی کو معلوم نہیں۔ کیا غزہ کی پٹی کو فلسطین ڈکلئیر کر دیا جائے گا یا اس پٹی میں ایک مخصوص جگہ دے دی جائے گی یا جیسا کہ ماضی میں ٹرمپ نے کہا تھا اہلیان غزہ کے لیے مصر یا اردن میں شہر بسا دیں گے ویسا کوئی فارمولہ زیر غور ہے۔ دیکھتے ہیں کیا نکل کر سامنے آتا ہے۔
کئی احباب پوچھتے ہیں اگر دو ریاستی حل نکل آیا تو کیا گارنٹی ہے اسرائیل مستقبل میں پھر حملہ کرکے قبضہ نہیں کرے گا۔ جواب عرض ہے کہ اگر فلسطین ریاست تسلیم ہوتا ہے تو عالمی قوانین کی روشنی میں کوئی ملک اب کسی بھی ملک کا ایک انچ قبضہ نہیں کر سکتا۔ ہاں لڑائی ہو سکتی ہے، جنگ ہو سکتی ہے۔ اگر بارڈرز تسلیم ہو جائیں اور سرحدیں کھچ جائیں تو پھر مسائل بھی ختم ہونے کی اُمید ہے۔ اصل سوال وہی ہے کہ یہ ریاست کہاں قائم ہوگی، اس کا حدود اربعہ کیا ہوگا اور ایران سمیت سعودیہ اس پر راضی ہوگا تو پھر پاکستان ہوگا۔
ایک بار پہلے بھی عرض کی تھی کہ ابراہیمی معاہدوں پر ایران اور سعودیہ کا راضی ہونا شرط ہے۔ یا تو یہ دونوں راضی ہوں گے یا دونوں نہیں ہوں گے۔ کوئی یہ بوجھ اکیلا اپنے گلے میں نہیں ڈال سکتا کہ وہ ابراہیمی معاہدے پر مان جائے اور دوسرا نہ مانے۔ اس کی ٹھوس وجوہات ہیں۔ مسلم دنیا دو بلاکس میں تقسیم ہے۔ اس حساس معاملے پر کوئی ایک بھی یہ افورڈ نہیں کر سکتا کہ وہ اکیلا راضی ہو جائے۔ پاکستان کا ماننا نہ ماننا ان دونوں کے راضی ہونے کے بعد کی بات ہے۔
دوسری جانب خبریں ہیں کہ ٹرمپ کی شہباز شریف سے ون آن ون ملاقات متوقع ہے گو کہ اجلاس کے اختتام پر ٹرمپ کی شہباز شریف سے غیر رسمی ملاقات ہوئی ہے۔ اگر ون آن ون ملاقات ہوتی ہے تو اس کا مقصد امریکا کے پاکستان میں بزنس انٹرسٹس ہیں۔ فیلڈ مارشل سے ملاقات میں جو طے ہوا اس کو اب ایم او یو یا یادگاری معاہدے کی صورت میں لانا ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے حکومت پاکستان کے چیف ایگزیکٹیو سے معاملات کرنا ہی پراپر چینل ہے۔ فیلڈ مارشل یا فوجی نمائندے سے تو معاہدے نہیں ہوا کرتے۔ دیکھتے ہیں ملاقات ہو پاتی ہے یا نہیں اور اگر ہو جاتی ہے تو کیا سامنے آتا ہے۔

