Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Rana Sarwat

Rana Sarwat

رانا ثروت

نارنگ منڈی کے دیہاتوں نے یوں تو کئی جرائم پیشہ افراد کو جنم دیا لیکن ایک شخص ایسا نکلا جس نے پاکستان میں اغوا برائے تاوان کو باقاعدہ پروفیشن میں ڈھال دیا اور وہ اس جرم کا پرفیکشنسٹ مانا گیا۔ ساٹھ کی دہائی میں اس کی پیدائش غربت زدہ گھرانے میں ہوئی اور پھر یہ امریکا میں آٹھ عدد پبز کا مالک ہونے کے ساتھ لندن میں چار بڑے میڈیکل سٹورز کا مالک بن گیا۔ اس شخص کے جرائم نے قومی اخبارات کی شہہ سرخیوں میں جگہ پائی۔ اس پر سپیشل فیچرز نشر ہوتے رہے اور اس کو جرم کی دنیا کے لوگ بابائے اغواء برائے تاوان پکارتے ہیں۔ گذشتہ روز میں نے مظہر تبی پر مفصل تحریر لکھی تھی۔ مظہر تبی اس کو اپنا استاد کہتا تھا۔ اس کو اغوا برائے تاوان کے طریقہ کار سے اسی شخص نے متعارف کرایا تھا۔ اس کا نام ہے رانا ثروت۔

رانا ثروت کا باپ ایک غریب کسان تھا۔ جس ماحول میں اس نے آنکھ کھولی وہ غربت زدہ ماحول تھا۔ اس کے باپ نے دو شادیاں کر رکھی تھیں۔ سوتیلی ماں نے اس کو گھر سے نکال دیا تھا۔ اس کا تعلق جانا پہلوان عرف سلیم پوریا نامی ایک ڈاکو سے بن گیا جو ٹرینوں کو روک کر لوٹنے کا کام کرتا تھا۔ رانا ثروت اور جانا پہلوان نے لاہور سے سیالکوٹ جانے والی باؤ ٹرین کو متعدد بار لوٹا۔ ان کا طریقہ واردات یہ ہوتا تھا کہ یہ ٹرین پٹری پر بڑے بلاکس رکھ کر رکاوٹ کھڑی کر دیتے۔ ٹرین رکتی تو یہ اسلحہ لے کر چڑھتے اور لوگوں سے نقدی و خواتین سے زیوات لوٹ لیتے۔ ان دونوں نے مل کر بیسیوں ٹرینوں کو لوٹا۔ پھر ایک دن رانا ثروت نے جانا پہلوان سے راہیں جدا کر لیں۔

جانا پہلوان بلآخر گرفتار ہوا۔ اس کے بیان کے مطابق رانا ثروت اس وجہ سے ٹرین کو لوٹنا چھوڑ گیا تھا کہ اس کو ڈر تھا جس دن پکڑا گیا پولیس سارے پاکستان کی ڈکیتیاں اس پر ڈال دے گی۔ وہ اس لوٹ مار سے ہونے والی "کمائی" سے مطمئن نہیں تھا۔ وہ کچھ بڑا کرنا چاہتا تھا۔ لوٹ مار سے اس نے جو دھن دولت جمع کی تھی اس سے اس نے سند یافتہ جرائم پیشہ لوگوں پر مشتمل اپنا گینگ بنا لیا تھا۔ کچھ عرصہ وہ پاک بھارت سرحد پر سونے کی سمگلنگ کرتا رہا اور پھر اس نے جرم کی دنیا کا وہ باب کھولا جو اس سے قبل اس منظم طریقے سے پاکستان میں وجود نہیں رکھتا تھا اور وہ تھا اغواء برائے تاوان۔

رانا ثروت پر گو کہ پولیس کئی مقدمات درج کر چکی تھی اور ان مقدمات میں وہ اشتہاری تھا اس کا نام ریڈ بک میں شامل تھا۔ اس کا نام ٹرین ڈکیتیوں اور سمگلنگ کی دنیا میں گونج رہا تھا مگر رانا ثروت کو بہت ساری دولت کمانے کا جنون تھا۔ اس کام کے لیے اس نے اغواء برائے تاوان کا باب کھولا۔ اس نے سب سے پہلا اغواء ہائی پروفائل شخصیت کا کیا۔ اس اغواء کی دھوم میڈیا پر چھائی رہی۔ قومی اخبارات میں روزانہ کی بنیاد پر اس اغواء کی خبر شائع ہوتی۔

رانا ثروت انتہا درجے کا پروفیشنل تھا۔ اس نے ایک گینگ بنا رکھا تھا جس کے ذریعہ وہ کارروائی کراتا لیکن خود ویزا لگوا کر ملک سے باہر چلا جاتا تاکہ پکڑے جانے پر وہ یہ ثابت کر پائے کہ اس وقت وہ ملک میں موجود ہی نہیں تھا۔ اس کے زیادہ دورے دبئی کے ہوتے تھے۔ تاوان کی رقم ڈالرز میں مانگتا تھا اور بیرون ملک دبئی کے بینک میں مانگتا تھا۔ پہلا اغوا اس نے صحافی نجم سیٹھی کے کزن شاہد سیٹھی کا کیا جو بزنس مین اور اس زمانے کے مشہور ہوٹل پام پام ہوٹل کا مالک تھا۔ اس اغواء کی دھوم مچ گئی تھی۔ یہ سنہ 1997 تھا۔

رانا ثروت نے اپنے گینگ کے ذریعہ تاوان کی رقم دو کروڑ روپے طلب کی۔ خود تو وہ دبئی جا چکا تھا۔ اس زمانے میں دو کروڑ اچھی خاصی رقم ہوا کرتی تھی جو آج ڈالرز کنورژن کے حساب سے آج کے چالیس کروڑ کے مساوی ہے۔ یہاں انٹری ہوتی ہے نجم سیٹھی صاحب کی۔ نجم سیٹھی صاحب کے اچھے خاصے تعلقات تھے۔ صدر پاکستان سردار فاروق لغاری اور آصف زرداری اس کیس میں شامل ہو چکے تھے۔ سارے پاکستان کے سیکورٹی ادارے بشمول آئی ایس آئی شاہد سیٹھی کی تلاش میں لگ گئی تھیں۔ نجم سیٹھی کو اغوا کار سے مذاکرات کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ شاہد سیٹھی جن کو اغواء کیا گیا تھا ان کے گھر فون پر نجم سیٹھی اغوا کار سے سہولت کار بن کر بات کرتے رہے۔

وہ زمانہ جی ایس ایم موبائلز کا زمانہ نہیں تھا۔ فون کی لوکیشن ٹریس کرنا بہت مشکل کام ہوتا تھا۔ جی پی ایس لوکیشن نہیں ملا کرتی تھی۔ وہ اینالاگ ٹیکنالوجی یا جنریشن ون کا دور تھا۔ لاہور میں کال ٹریس کرنے کو چار عدد سپیشل ٹاورز نصب کرنے کی ضرورت تھی اور اس کام کے لیے وقت درکار تھا۔ نجم سیٹھی کو کہا گیا کہ آپ اس سے وقت مانگیں۔ نجم سیٹھی فون پر بہانے بناتے وقت لیتے رہے۔ بقول نجم سیٹھی وہ یہی کہتے رہے کہ دو کروڑ بہت بڑی رقم ہے، ہم زیور بیچ رہے ہیں، خاندان سے پیسے جمع کر رہے ہیں، کچھ دن لگیں گے۔ آپ پہلے یہ یقین دلائیں کہ شاہد زندہ ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ان کی شاہد سے بات کرا دی گئی جس سے سکیورٹی اداروں کو یقین ہوگیا کہ شاہد کو جہاں رکھا گیا ہے کال بھی اسی مقام سے ہوتی ہے۔

یہ سلسلہ ایک ماہ چلا۔ بلآخر سپیشل ٹاورز کی مدد سے لوکیشن ٹریس ہوگئی لیکن وہ پن پوائنٹ لوکیشن نہیں تھی۔ اتنا معلوم ہو پایا کہ کال جوہر ٹاؤن کے ایک محلے سے ہوتی ہے۔ اس زمانے میں جوہر ٹاؤن اتنا آباد نہیں ہوا تھا۔ لیکن جو مقام شک کے دائرے میں آیا وہاں چالیس سے پچاس گھر تھے۔ مشکل کام یہ تھا کہ ان چالیس پچاس گھروں میں سے کس گھر پر چھاپہ مارا جائے۔ اگر پولیس یا سیکورٹی فورسز علاقے کی ناکہ بندی کرتیں تو اغوا کاروں کو خبر مل جاتی اور یوں اغوا کاروں کے ہاتھوں شاہد سیٹھی کا قتل ہو سکتا تھا۔ اگر غلط گھر پر چھاپہ مارا گیا تو اس صورت میں بھی یہی خطرات تھے۔ اب یہاں دو ورژن ہیں۔ ایک ورژن تو یہ ہے سول اہلکاروں نے روپ بدل کر ان گلیوں میں ریکی کی اور ایک گھر کی کھڑکیوں کو اخبارات سے ڈھکا پا کر ان کو اس گھر پر شک گزرا۔ دوسرا ورژن جو ہے اس میں انٹری ہوتی ہے جوہر ٹاؤن کے کھوکھر خاندان کی۔

سنہ 97 میں جہاں اندرون لاہور تا شاہدرہ اور شادباغ تا ملتان روڈ چوہنگ گینگ وار چل رہی تھی وہیں جوہر ٹاؤن کا علاقہ لاہور سے باہر تصور کیا جاتا تھا اسے نیو لاہور کہا جاتا تھا۔ یہاں آبادی ابھی پھیلی نہیں تھی اور یہاں کھرکھر بردران نے اپنا دبدبہ بنا رکھا تھا۔ کھوکھر پیلس کی مزید تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔ کرامت کھوکھر نے سکیورٹی اداروں سے تعاون کیا یا سیکورٹی اداروں نے کرامت کھوکھر کو انگیج کیا۔ جو گھر شک کے دائرے میں آیا اس کے اندر کرامت کھوکھر اپنے مسلح لوگوں کے ہمراہ داخل ہوا۔ لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ اس کمرے میں جس کی کھڑکیاں اخبارات چپکا کر ڈھکی ہوئی تھیں وہاں شاہد سیٹھی ایک کرسی پر بندھا ہوا بیٹھا ملا۔ اغوا کار غائب ہو چکے تھے۔ شاہد سیٹھی کو بازیاب کرا لیا گیا تھا۔

ایک بار رانا ثروت نے معروف تاجر زاہد حفیظ کو اغواء کیا۔ اس کو پنڈی اور مری کے درمیاں بارہ کہو کے مقام پر ایک گھر میں رکھا گیا۔ زاہد حفیظ کے اغوا سے ایک بار پھر قومی میڈیا پر شور مچ گیا تھا۔ یہ بھی ہائی پروفائل کیس تھا۔ زاہد حفیظ سے سترہ لاکھ ڈالرز تاوان مانگا گیا۔ ایک رات زاہد حفیظ کو موقعہ ملا اس نے بھاگنے کی کوشش کی۔ اغوا کاروں نے اس کو قتل کر ڈالا۔ اس کی لاش بارہ کہو کی گلی سے ملی۔ لیکن قاتل بھی پکڑے گئے جن میں ایک نصر اللہ تھا جو رانا ثروت کا رائٹ ہینڈ تھا۔ نصر اللہ کو سزائے موت ہوئی اور اس کے ساتھی جو رانا ثروت کا ذاتی ملازم نکلا اس کو پچیس سال قید ہوئی۔ تاجر زاہد حفیظ کا قتل ایک عرصہ تک اخبارات میں چھایا رہا۔ رانا ثروت نے بیشمار اغوا کروائے۔ ان سے تاوان وصول کیا اور امریکا میں پبز خرید کر کاروبار سیٹل کیا۔ وہ ارب پتی بن چکا تھا اور امریکا میں اپنی پہچان ایک کاروباری شخص کے طور پر کرا رہا تھا۔ لندن میں اس نے چار بڑے میڈیکل سٹورز کی چین بنا لی تھی۔

اس کے پنجاب میں بڑے سیاستدانوں اور دشمن داروں سے تعلقات بنے۔ اس نے مفروروں کو پناہ دے کر اپنے گینگ میں شامل کر لیا تھا۔ لاہور میں اس نے پانچ بنگلے رکھے ہوئے تھے جہاں گینگ کے لوگ رہتے تھے۔ ایک بار اس گینگ نے شیخوپورہ کی عدالت پر دستی بموں سے حملہ کر دیا۔ یہ جج کو مارنا چاہتے تھے۔ کیونکہ وہ رانا ثروت کا کیس سن رہا تھا۔ رانا ثروت تین بار پاکستان آنے پر پکڑا گیا لیکن تینوں بار وہ عدم شہادت اور واردات کے وقت ملک سے باہر ہونے کے ثبوتوں کی بنا پر عدالتوں سے چھوٹ گیا۔ چوتھی بار اس کا ریڈ وارنٹ نکالا گیا اور سنہ 2003 میں اس کو امریکا سے پکڑ کر پاکستان لایا گیا۔ اسلام آباد عدالت میں ایک بار پیشی کے موقعہ پر رانا ثروت پر حملہ ہوا۔ اس کو کاندھے پر گولی لگی۔ اس کا علاج پمز ہسپتال میں ہوا۔ لیکن دوران علاج پمز ہسپتال پر پھر حملہ ہوا جس میں یہ محفوظ رہا لیکن دو نرسیں قتل ہوگئیں۔

رانا ثروت گینگ کے اغوا کرنے کا طریقہ کار بھی منفرد تھا۔ یہ مغوی کو ایمبولینس میں اغوا کرکے لے جاتے تھے۔ ظاہر ہے ایمبولینس کا ہوٹر آن کر دیتے تھے۔ پولیس ناکوں پر ایمبولینس کو روکا نہیں جاتا تھا۔ یہ تاجروں، امیروں اور اعلیٰ عہدیداران کو اغوا کرواتا اور پھر خبروں کی زینت بنا رہتا۔ رانا ثروت کی بیوی اس کے کاموں میں شریک تھی۔ وہ پاکستان میں ہوتی تھی اور مغویوں اور گینگ کے افراد کو کھانا پکا کر دیتی تھی۔ وہ اس کے جرم کی پارٹنر بھی تھی۔ تین بار عدالتوں سے چھوٹنے کے بعد زچ ہو کر حکومت پاکستان نے میاں بیوی کے سر پر بیس لاکھ فی کس کا انعام رکھ دیا۔

ہر مجرم کا ایک وقت ہوتا ہے جو ختم ہو جاتا ہے۔ اس نے ان حرکتوں کے سبب کئی بااثر افراد دشمن بنا لیے تھے۔ دولت اس نے بہت بنا لی تھی مگر اس دولت کو انجوائے کرنا اس کے نصیب میں نہیں لکھا تھا۔ سنہ 2012 میں رانا ثروت اپنی ہونڈا سوک پر لبرٹی چوک میں واقع جوس کارنر پر کھڑا تھا۔ دو موٹرسائیکل سواروں نے فائرنگ کر دی۔ یہ موقعہ پر ہی قتل ہوگیا۔ موٹر سائیکل سوار نامعلوم رہے۔

سیاستدان اور سابقہ ممبر قومی اسمبلی اعجاز ڈیال اور ارشد گھرکی کے ساتھ رانا ثروت فیصل آباد کے ممبر قومی اسمبلی الیاس جٹ سے بھی دیرینہ مراسم رکھتا تھا۔ الیاس جٹ ہی وہ کردار ہے جس کے ڈیرے پر اس کی ملاقات مظہر تبی سے ہوئی تھی۔ اسی ملاقات کے سبب مظہر تبی جیسا بدنام زمانہ کردار رانا ثروت کو اپنا استاد مانتا تھا۔ الیاس جٹ کی پکی یاری ٹیپو ٹرکاں والا کے ساتھ تھی جس کا ذکر میں گینگ وار کی سیریز میں کرتا آ رہا ہوں۔

جرم کی کوکھ بانجھ نہیں ہوتی۔ درحقیقت یہ بہت بچے جنتی رہتی ہے۔ مجرم کیسے بنتا ہے، اس کا تھاٹ پراسس کیا ہوتا ہے، کیسی محرومیاں جرم کو جنم دیتی ہیں اس پر دستوئیفسکی ناول crime and punishment جس کا اردو ترجمہ "جرم و سزا" کے نام سے ہوا وہ پڑھنے کے قابل ہے۔ اس ناول میں دستوئیفسکی نے انسان سے سرزد ہونے والے جرم اور اس پر دیوانگی کی حد تک پچھتاوے کا احاطہ کیا ہے۔ ہر جرم کرنے والا معاشرے کی بے حسی، غربت، بے روزگاری اور سسٹم کو ذمہ دار ٹھہراتا دکھائی دیتا ہے اور کسی حد تک شاید یہ جاگیردارانہ نظام، سیاست اور افسر شاہی بہت سارے جرائم کی جڑ ہے۔ گینگ وار کے کرداروں پر نظر دوڑائیں تو آپ کو کئی حقیقتیں ننگی نظر آئیں گی۔ ایک قول یاد آ گیا جو بابائے کمیونزم کارل مارکس نے ہنری تھامس بکل سے نقل کرتے اور اس سے متاثر ہوتے لکھا ہے۔

Society prepares the crime, the criminal commits it.

یہ لاہور گینگ وار کے مختلف کرداروں کی مختصر ترین داستان تھی جو چھ کالمز کی صورت پیش کی ہے۔ بہت سے کردار باقی ہیں۔ یہ طویل داستان ہے۔ ان سب کرداروں کے تانے بانے آپس میں جا ملتے ہیں۔ جرم کی دنیا مکڑی کا جالا ہے۔ ہر تار عنکبوت الگ نظر آتا ہے لیکن مرکز سے منسلک ہوتا ہے۔ ذکر پچھلے دنوں ہوئے طیفی بٹ کے قتل سے شروع ہوا تھا اور پھر گینگ وار کی تاریخ لکھتا گیا تاکہ آج کی نسل کو ان کا انجام بھی معلوم ہو اور یہ بھی جان لیں کہ تیسری دنیا کے ممالک میں سسٹم کیسے کام کرتا ہے۔ سسٹم کے پرزے کون کون سے ہوتے ہیں۔ کیسے چلتے ہیں۔ کیسے ختم ہوتے ہیں۔ اہل سیاست کا کیا کردار ہوتا ہے۔ پولیس اور انتظامیہ کتنی بااختیار یا بے اختیار ہوتی ہے۔ ججز کیونکر ضمانتیں لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ سماج میں عدم تحفظ کی فضا کیسے قائم ہوتی ہے۔ طلباء تنظیموں کو کون مسلح کرتا ہے اور پھر کون جمہوریت کے چیمپئین ہونے کے دعوے دار بھی ہوتے ہیں۔ یہ اس سلسلے کا چھٹا اور آخری کالم ہے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari