Qaumi Intikhabat
قومی انتخابات
قومی انتخابات اگر ہوئے تو بہت سنسنی خیز ہوں گے۔ نگران سیٹ اپ کو طویل کھینچے جانے کا خدشہ ہے۔ تحریک انصاف ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ عمران خان صاحب کا مستقبل بظاہر جیل ہی نظر آ رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کسی صورت ان کی شکل دیکھنے کی روادار نہیں اور آپ جانتے ہیں دُلہن وہی جو پِیا من بھائے۔ پِیا نئی سیج سجانے کی تیاریوں میں ہے۔ طلاق اس قدر برُے موڑ پر ہوئی ہے کہ حلالہ کی گنجائش بھی موجود نہیں رہی۔
نواز شریف کا دوبارہ وزیراعظم بننا بھی ایک سراب ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو وہ بھی قبول نہیں۔ شہباز شریف صاحب ہی ان کے من کو بھاتے ہیں۔ اگر الیکشن ہو گئے تو شہباز شریف کو ہی مسندِ اقتدار پر بٹھایا جائے گا۔ جس طرح تحریک انصاف توڑی گئی ہے مستقبل میں نون لیگ شہباز و نواز میں تقسیم ہوگی۔ ہائی کمان کا جھکاؤ جس شخصیت کی جانب ہوگا وہی شہبازا جائے گا۔
پچھلی دو دہائیوں پر نظر دوڑائیں تو مشرف نے اپنا ڈنگ ٹپانے کو "سب سے پہلے پاکستان" کا نعرہ دیا تھا۔ پتہ نہیں اس کا مطلب کیا تھا جبکہ اسی دور میں پاکستانیوں کو سی آئی اے کے حوالے کیا جاتا رہا اور مشرف صاحب فخر سے کہتے رہے کہ ہاں میں نے کیا ہے۔ اس کے بعد "روشن پاکستان" کا نعرہ مارکیٹ میں پھینکا گیا۔ اس نعرے تلے کیانی صاحب نے کمان سنبھالی اور سوات تا فاٹا ملٹری آپریشن شروع ہوئے۔ بیرونی امداد کی راہیں ہموار ہوتی گئیں۔ ڈالرز آنے لگے۔
پھر راحیل شریف صاحب آئے تو معلوم ہوا کہ جنرل کیانی نے فاٹا میں آپریشن نہیں کیا تھا اس واسطے ابھی بھی خطرہ موجود ہے۔
جنرل باجوہ نے تحریک انصاف کو فرنٹ اینڈ پر رکھا۔ "نیا پاکستان" کا نعرہ شرمندہ تعبیر ہوا۔ اس نئے پاکستان میں سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا یہ نظام چلتا آ رہا تھا۔ ایک کرسی تھی اس پر چہرہ نیا تھا اور باگیں اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ تھیں۔ انہوں نے جیسا چلانا چاہا "نیا پاکستان" چلتا رہا۔ اس زمانے میں اگر کوئی پاکستانی اندھیرے کمرے میں سیلفی لیتا تو عقب میں جنرل آصف غفور کی مسکراتی تصویر خود ہی آ جاتی۔ اور پھر وہی ہوا جو عمران خان سے قبل سب کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ بے بسی کا احساس جاگا تو پاور کی کھینچا تانی شروع ہوئی اور پھر اگلوں نے اپنی سجائی سیج اجاڑ دی۔
میں نہیں جانتا کہ موجودہ ہائی کمان کا "سبز انقلاب" کا نعرہ کیا رنگ دکھلائے گا مگر یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت اگلے چھ سال تک کی منصوبہ بندی تو کی ہوگی۔ اس کے بعد یہی شہباز شریف اپنے بھائی کے مافق رُلے گا۔ پھر نئی ہائی کمان، نیا نعرہ اور پرانا پاکستان۔
اب آپ میں سے کئی احباب پوچھنے آئیں گے کہ اگر انتخابات ہوئے تو ووٹ کس کو دیں۔ ووٹ آپ جسے چاہے دے دیں۔ گھنٹہ فرق نہیں پڑنے کا۔ یس سر اور نو سر والے نظام میں کیا جمہوریت اور کیا ووٹ کی عزت۔