Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Propoganda War

Propoganda War

پروپیگنڈا وار

آج کے دور میں گوئبلز کا قانون نیوٹن کے تینوں قوانین حرکت سے زیادہ مؤثر ہے۔ پروپیگنڈا کے باوا آدم اور ہٹلر کے دستِ راست قبلہ گوئبلز کا کہنا تھا "لوگوں کی نفسیات اور کمزوریاں سمجھ کے ایک ہی بات کی تکرار سے چوکور کو دائرہ ثابت کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ "

آگے فرماتے ہیں کہ کامیاب پروپیگنڈے کی بنیاد یہ ہے کہ آپ کتنے مختصر نکات کو کتنے زود ہضم طریقے سے کتنی دفعہ دھرا سکتے ہو۔ حتیٰ کہ لوگ اسے ایک حقیقت کے طور پر قبول کرنے لگیں۔ قبلہ گوئبلز کا ایک قول زریں یہ بھی ہے کہ پروپیگنڈے میں دانشورانہ سچائی نہیں چلتی۔ پروپیگنڈے کو بس مقبول عام ہونا چاہیئے۔

اگرچہ گوئبلز نے کوئی نیا نظریہ پیش نہیں کیا تھا مگر اتنا ضرور کیا کہ صدیوں پرانے ہتھکنڈوں کو سائنسی انداز میں سامنے رکھ دیا۔ پروپیگنڈہ مختصر عرصے میں فوری مقاصد کے حصول کے لئے ایک کامیاب ہتھیار ہے۔ مگر کسی پروپیگنڈے کے پیچھے بدنیتی، سچ اور جھوٹ کا تناسب کیا ہے؟ اس کا عموماً تب پتہ چلتا ہے جب پتہ چلنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا اور تب تک جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کے نئے طریقے پرانوں کی جگہ لے چکے ہوتے ہیں۔

جیسے دسویں صدی میں بغداد کے درباری علماء نے عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کو یہ کہہ کر منصور حلاج کے ٹکڑے ٹکڑے کروا دیئے کہ وہ انا الحق کا نعرہ لگا کے خدائی کا دعوی کر رہا ہے مگر یہ نہیں بتایا کہ منصور حلاج آگے چل کے یہ بھی کہتا ہے کہ میں خدا کے کل کا ناقابل تقسیم جزو ہوں۔ جب لوگ ثواب دارین سمجھتے ہوئے منصور کو پتھر مار رہے تھے تو اسے ان پتھروں سے زیادہ اپنے دوست شبلی کے ہاتھ سے پڑنے والے پھول سے جھٹکا لگا۔ منصور نے زخمی گردن اٹھا کر کہا " شبلی۔۔ تو تو حقیقت جانتا ہے۔۔ پھر بھی؟"

آج مسلمان خدا کی ہمسری کے دعوے دار اسی مجذوب کے نام پر اپنے بچوں کے نام بخوشی اور فخریہ رکھتے ہیں اور انہیں کوئی پتھر نہیں مارتا۔

جیسے بارہویں صدی کے عظیم فلسفی، حکیم، ریاضی داں، ماہر علم فلکیات، اور فقیہہ ابن رشد کو اندلس کے حکمراں یعقوب المنصور نے ملک بدر کرکے اس کا پورا کتب خانہ جلوا دیا۔ وجہ یہ تھی کہ ابن رشد کی 68 کتابوں میں سے ایک میں فلاسفہ یونان کے عقائد کا ذکر کرتے ہوئے یہ جملہ بھی موجود تھا کہ "اور پھر یہ ثابت کیا گیا کہ زہرہ (سیارہ) بھی خدا ہے"۔۔ حاسدین نے اس جملے کو سیاق و سباق سے الگ کرکے خلیفہ کو قائل کر لیا کہ ابن رشد کے خیالات مشرکانہ ہیں۔ آج اسی ابن رشد کا فقہی کام بہت سے دینی مدارس کے نصاب کا حصہ ہے۔

جیسے وسطی یورپ میں جب بھی پادریوں کو اپنی کرتوتوں سے توجہ ہٹوانا مقصود ہوتی تو وہ اعلان کروا دیتے کہ فلاں علاقے کا فلاں یہودی ایک عیسائی بچے کو ابال کے کھا گیا اور پھر خلقت پادریوں کی سچی رہنمائی میں یہودیوں کی صفائی کرنے نکل پڑتی۔

جیسے ہمارے بچپن میں کوئی چپکے سے کان میں کہہ جاتا تھا کہ شیعوں کے تعزیے دیکھنے مت جایا کرو نکاح ٹوٹ جاتا ہے اور یہ سنی بچوں کا خون چاول میں ڈال کے نیاز بانٹتے ہیں۔

جیسے مولانا مودودی سے یہ بیان بہت عرصے تک منسوب کیا جاتا رہا کہ کشمیر کے جہاد میں حصہ لینا حرام ہے۔ جیسے بریلوی علما مولانا مودودی کو دشمن صحابہ ثابت کرتے رہے اور دیوبندی علما ان کے خیالات کو خارجیوں سے تشبیہ دیتے مودودی مذہب بتاتے رہے۔ (پھر ایک دن پی این اے اور پھر ایم ایم اے بھی بن گیا)۔

جیسے جماعت اسلامی کی جانب سے یہ بات تواتر کے ساتھ پھیلانے کی کوشش ہوئی کہ بھٹو ایک لادین سرخا ہے اور ایسا نظام لانا چاہتا ہے جس میں عورتیں ہاتھ سے نکل جائیں اور مسجدوں کو تالے لگ جائیں۔ اس کی رگوں میں ہندو خون دوڑ رہا ہے۔ جو اسے ووٹ دے گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔ پھر بھی ستر کے انتخابات میں کروڑوں ووٹروں نے نکاح تڑوا لیے۔ سرخے بھٹو نے احمدیوں کو اقلیت قرار دے دیا۔ رگوں میں ہندو خون دوڑنے کے باوجود شراب پر پابندی لگا دی اور مساجد کو تالے لگانے کے بجائے جمعہ کی سرکاری چھٹی کر دی اور اب شہید بھی کہلاتا ہے۔

جیسے مولانا فضل الرحمان عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہتے ہیں اور تحریک انصاف کو ووٹ دینا حرام قرار دیتے ہیں۔ اور جیسے عمران خان مولانا فضل الرحمان کو ان کانگریس نواز علما کا وارث قرار دیتے ہیں جنہوں نے جناح صاحب کے لیے فتوی دیا تھا کہ یہ قائداعظم نہیں کافر اعظم ہے۔ اور یہ بھی کہ یہ وہی مولانا ہیں جو بقول وکی لیکس وزیراعظم بننے کے لیے ایک خاتون امریکی سفیر کے سامنے دوزانو ہو گئے تھے۔ (پھر بھی دونوں"خالص شریعت" کے داعی سٹوڈنٹس سے مذاکرات کے پرزور حامی اور ڈرون حملوں کے مشترکہ مخالف تھے)۔

پروپیگنڈا وار میں سب سے پہلے شہادت سچائی کی ہوتی ہے۔ یوٹیوب تا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سیاسی پروپیگنڈا وار کے مؤثر ہتھیار ہیں۔ لوگ ان سے ہی اپنی ذہن سازی کرتے ہیں اس تحقیق کے بنا کہ بتانے والا جو بتا رہا ہے اس میں سورس کتنا قابل اعتبار ہے۔ کوئی سورس ہے بھی یا نہیں۔ نیز دلیل یا لاجک کا جنازہ اُٹھا رہا ہے تو کیونکر اُٹھا رہا ہے۔ آج کے دور میں گوئبلزی دانشوروں کے سامنے سچا قلم بھلا کیا بیچتا ہے۔۔ سالا؟

Check Also

Wo Shakhs Jis Ne Meri Zindagi Badal Dali

By Hafiz Muhammad Shahid