Wednesday, 15 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Propoganda War (3)

Propoganda War (3)

پروپیگنڈا وار (3)

اگر آپ "مجھے اپنے علاوہ ساری دنیا کی اصلاح کرنی ہے" کے فرمان پر عمل پیرا ہیں یا "میرے سوا سب کا ایمان کمزور ہے" کا عقیدہ رکھتے ہیں یا "شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار" بنتے ہیں یا "میرا مولوی میرا ابو" یا "میرا لیڈر میرا والد" یا "میرا پیر میرا پاپا" کے نقطہ نظر پر تن من دھن سے قائم ہیں تو آپ ایک ہیک شدہ یا گروی دماغ کے مالک ہیں۔ آپ کے بارے خدا فرماتا ہے "بہرے ہیں سچ کو سنتے نہیں اور نہ اس کی طرف کان لگاتے ہیں۔ گونگے ہیں کہ صاف بات کہتے نہیں اور اندھے ہیں کہ سچائی کو دیکھتے ہی نہیں"۔

کسی شخص کی ذات، افعال و اقوال سے اگر آپ اتفاق نہیں رکھتے یا کوئی شخص آپ کے واسطے کسی بھی سبب سے ذہنی کوفت کا باعث بن رہا ہے تو سادہ سا حل ہے کہ آپ اسے انفرینڈ، انفالو یا بلاک کریں اور سکون کریں۔ کسی سے تو تو میں میں کرنا، گالی دینا، ڈنڈا ڈولی کرنے لگنا یا اس کی ذات پر حملہ آور ہو جانا آپ کو بطور انسان زیب نہیں دیتا۔ بھری دنیا میں کوئی نظریہ، فکر، سوچ اٹل نہیں نہ ہی کچھ حرفِ آخر ہے۔

جیسے جیسے انسان کو شعور آتا جاتا ہے اس کے سامنے اس کے بنائے بُت ٹوٹ کر گرتے جاتے ہیں۔ یہ ارتقاء کا عمل ہے۔ دیر بدیر ہر انسان نے اس عمل سے گزرنا ہے۔ اس کو شعور ملنا ہے (اگر وہ کوشش کرے اور اپنے مغز کا استعمال کرے)۔ اس کے اپنے نظریات، افکار، خیالات وقت کے ساتھ تجربات و حادثات کی روشنی میں بدلنے ہیں۔ اگر آپ انسان ہیں تو آپ نے ان تغیرات سے گزرنا ہی گزرنا ہے اور اگر آپ کھوتے ہیں تو ساری عمر اپنے پچھواڑے لاتیں ہی مارتے گذار سکتے ہیں۔

آپ اپنے گھر کی بیٹھک، اپنے روزمرہ کے ملنے والوں، دوستوں کے حصار، اپنے شہر کی حدود، اپنے صوبے کی حدود، اپنے ملک کی سرحد سے باہر نکل کر دنیا کو دیکھیں۔ مختلف رنگ و نسل و مذاہب کے لوگوں سے ملیں۔ مختلف زمان و مکان میں سفر کریں۔ مختلف خطوں میں بسنے والے انسانوں کی تہذیب و تمدن کا مشاہدہ کریں تو آپ کو احساس ہوگا کہ دنیا وہ نہیں جو گھر کی بیٹھک سے نظر آتی تھی۔ دنیا وہ نہیں جو ارد گرد کے ملنے والوں نے دکھائی تھی۔

دنیا تو دنیا حتیٰ کہ مذہب بھی وہ نہیں جو گھُٹی میں گھوٹ کر پلایا گیا تھا۔ جو محلے کی مسجد کے مولوی نے سکھایا تھا۔ نہ ہی وہ ہے جو یوٹیوب پر فلاں سکالر نے تعلیم کیا ہے۔ انسان جب تک ایک دائرے کے سفر میں رہتا ہے وہ وہی دیکھتا ہے جو دائرے کے اندر اسے دکھائی پڑتا رہتا ہے۔ آپ خلا سے زمین کو دیکھنا سیکھیں گے تو پھر آپ کئی سال سوچ و فکر میں مبتلا ہو کر زمین سے خلا کو ہی گھورتے رہیں گے اور تب ہی آپ پر نئی سوچ اُترے گی۔ علم کے باب کھلیں گے اور تب ہی آپ ذہنی ارتقاء سے گزرتے ہوئے بلآخر ایسے شانت ہو جائیں گے جیسے گونگے کو چپ لگ جائے۔

آپ اپنی مخصوص مذہبی و مسلکی، سیاسی و سماجی، فکری و تہذیبی عینک اُتار کر مختلف طبقہ ہائے فکرکے لوگوں کو دیکھیں، سُنیں، پڑھیں۔ پھر عقل کی کسوٹی پر پرکھیں اور جو آپ کا ذہن نتیجہ اخذ کرے اس پر یقین کریں۔ کم سے کم اس طرح آپ کو خود پر اعتماد تو ہوگا کہ جو میں سوچتا ہوں یا جس پر عمل کرتا ہوں وہ میرے اپنے بھیجے سے اخذ کیا گیا ہے نہ کہ کسی اور کا پلایا ہوا ہے۔ کم از کم اچھا بُرا جتنا بھی دماغ آپ کا ہے آپ کا اپنا تو ہوگا۔ کسی اور کے ہاتھوں ہیک شدہ دماغ کے مالک نہ بنیں۔ زندگی مختصر ہے۔ اس کو اپنی سوچ کے مطابق بسر کریں نہ کہ کسی اور کی سوچ کے زیرِ اثر گذاریں۔

یہ اتنا مشقت والا کام نہیں بس اپنے دماغ کی جالا بند کھڑکی کو کھول کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ گوتم بُدھ کا ایک قول ہے "اس پر کبھی یقین نہ کرو جو کہے کہ میں نے سچ کو پا لیا۔ اس پر ضرور یقین کرو جو کہے کہ میں سچ کی تلاش میں ہوں"۔ انسان کی ایک بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ وہ جامد نہیں ایک متحرک وجود ہے اور یہی ایک المیہ بھی ہے۔ انسان ارتقاء کے عمل سے گزرتا ہے، یہ پلتا بڑھتا رہتا ہے۔ اس کی پسند ناپسند، سوچ، اقدار، نوکری یا روزی، رشتے ناطے سب کچھ وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ میں نے خونی رشتوں کو سفید ہوتے دیکھا ہے۔ سگوں کو بچھڑتے دیکھا ہے اور یہ بھی دیکھا ہے کہ غیر آ کر انسان کو سہارا بھی دے دیتے ہیں۔ لہذا صاحبو! اپنے خول سے باہر نکلو۔ جذبات کو لگام دو۔ غور و فکر کی عادت اپناؤ۔ درپیش آنے والے معاملات کو غیر جانبدار ہو کر پرکھنا سیکھو۔

آج ہم پروپیگنڈا دور میں جی رہے ہیں۔ اک جانب ریاستی عسکری پروپیگنڈا ہے دوسری جانب سیاسی پروپیگنڈا۔ پروپیگنڈا وار میں سب سے پہلے شہادت سچائی کی ہوتی ہے۔ یوٹیوب تا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سیاسی پروپیگنڈا وار کے مؤثر ہتھیار ہیں۔ لوگ ان سے ہی اپنی ذہن سازی کرتے ہیں اس تحقیق کے بنا کہ بتانے والا جو بتا رہا ہے اس میں سورس کتنا قابل اعتبار ہے۔ کوئی سورس ہے بھی یا نہیں۔ نیز دلیل یا لاجک کا جنازہ اُٹھا رہا ہے تو کیونکر اُٹھا رہا ہے۔

آج کے دور میں آئی ایس پی آر، عطا تارڑ، محسن نقوی، مریم اورنگزیب، شہباز گل اینڈ برادرز اور عمران ریاض اینڈ فالورز کے سامنے سچ بھلا کیا بیچتا ہے۔۔ سالا؟ چلیں آپ کا جو بھی حق سچ ہو، جیسا آپ بہتر سمجھیں مگر اس کو دوسرے پر مسلط کرنے کو تو نہ چڑھ دوڑیں۔ "میری مان ورنہ تو کتا" والی سوچ تو حق سچ نہیں ہو سکتی۔ مسلسل پروپیگنڈا اور جھوٹ کی جنگ لڑتے ریاست اور سیاست بند گلی میں کھڑی ہے۔

کچھ بھی حرفِ آخر نہیں۔ نہ آپ نہ میں نہ ہم سے پہلے گزرے لوگ۔ بلآخر انسان نے اپنی ساری توانائی و دانش سمیت مٹی میں ملنا ہے مگر اس وقت سے قبل تو خود کو مٹی کے بُت نہ بناؤ جو نہ دیکھتے ہیں، نہ سنتے ہیں، نہ سمجھتے ہیں۔

Check Also

Shadi Ke 26 Saal

By Mubashir Ali Zaidi