Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Propoganda War (2)

Propoganda War (2)

پروپیگنڈا وار (2)

سابق پیمرا چئیرمین ابصار عالم نے فیض آباد دھرنا کیس کی ریویو پٹیشن کے معاملے پر گفتگو کرتے کہا ہے "اس وقت آئی ایس آئی اور جنرل فیض کا مجھ پر دباؤ تھا کہ جیو اور ڈان چینل کو بند کیا جائے۔ انہوں نے ان دو گروپس کی اخبارات پر پابندی لگا دی تھی اور یہ چھاؤنیوں میں تقسیم نہیں ہو سکتی تھیں۔ چھاؤنیوں میں صرف اے آر وائے اور بول چینل چلتا تھا۔ آرمی میس اور یونٹس میں یہی دو چینل دکھائے جاتے تھے۔ میں نے جنرل فیض کو کہا تھا کہ ایسا کرکے آپ اپنے جوانوں کے ذہنوں میں ایسا مواد بھر رہے ہیں جو ایک دن آپ کے لیے ہی پریشانی کا سبب بنے گا"۔

ان دنوں اے آر وائے اور بول چینل تحریک انصاف اور فوج کے نمائندہ چینلز میں سرفہرست تھے۔ ایک پیج کی برکات والا بیانئیہ پھیل رہا تھا۔ اور جب حالات بدلے تو وہ جوان جو یہ دو چینلز دیکھ دیکھ کر حالات حاضرہ سے باخبر رہتے تھے وہ اپنے ہی ادارے سے متنفر ہو گئے۔ آج جیو اور ڈان چھاؤنیوں میں دکھایا جا رہا ہے اور اے آر وائے و بول چھاؤنیوں، یونٹس و میس میں دکھانے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ آج یوٹرن لے کر جو کر رہے ہیں یہ کل کو پھر بھگتیں گے۔

پروپیگنڈا وار کا پہلا ہتھیار میڈیا ہوتا ہے۔ اس کے توسط سے لوگوں کی ذہن سازی کی جاتی ہے۔ جتنے میڈیا چینلز ہیں ان میں کوئی اپنی آزادانہ پالیسی نہیں رکھتا۔ ہر چینل کا مفاد اور فنڈنگ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی سے وابستہ ہے۔ پروپیگنڈا کیا ہوتا ہے اس کو سمجھنے کی خاطر نازیوں کے وزیر اطلاعات گوئبلز کو دیکھنا ہوگا اور تاریخ پر ایک نظر ڈالنی ہوگی۔

آج کے دور میں بھی گوئبلز کا قانون نیوٹن کے تینوں قوانین حرکت سے زیادہ مؤثر ہے۔ پروپیگنڈا کے باوا آدم اور ہٹلر کے دستِ راست قبلہ گوئبلز کا کہنا تھا "لوگوں کی نفسیات اور کمزوریاں سمجھ کے ایک ہی بات کی تکرار سے چوکور کو دائرہ ثابت کرنا کوئی مشکل کام نہیں"۔ 

آگے فرماتے ہیں کہ کامیاب پروپیگنڈے کی بنیاد یہ ہے کہ آپ کتنے مختصر نکات کو کتنے زود ہضم طریقے سے کتنی دفعہ دھرا سکتے ہو۔ حتیٰ کہ لوگ اسے ایک حقیقت کے طور پر قبول کرنے لگیں۔ قبلہ گوئبلز کا ایک قول زریں یہ بھی ہے کہ پروپیگنڈے میں دانشورانہ سچائی نہیں چلتی۔ پروپیگنڈے کو بس مقبول عام ہونا چاہیئے۔

پروپیگنڈا مختصر عرصے میں فوری مقاصد کے حصول کے لئے ایک کامیاب ہتھیار ہے۔ مگر کسی پروپیگنڈے کے پیچھے بدنیتی، سچ اور جھوٹ کا تناسب کیا ہے؟ اس کا عموماً تب پتہ چلتا ہے جب پتہ چلنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا اور تب تک جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کے نئے طریقے پرانوں کی جگہ لے چکے ہوتے ہیں۔

جیسے دسویں صدی میں بغداد کے درباری علماء نے عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کو یہ کہہ کر منصور حلاج کے ٹکڑے ٹکڑے کروا دیئے کہ وہ انا الحق کا نعرہ لگا کے خدائی کا دعوی کر رہا ہے مگر یہ نہیں بتایا کہ منصور حلاج آگے چل کے یہ بھی کہتا ہے کہ میں خدا کے کل کا ناقابل تقسیم جزو ہوں۔ جب لوگ ثواب دارین سمجھتے ہوئے منصور کو پتھر مار رہے تھے تو اسے ان پتھروں سے زیادہ اپنے دوست شبلی کے ہاتھ سے پڑنے والے پھول سے جھٹکا لگا۔ منصور نے زخمی گردن اٹھا کر کہا "شبلی۔۔ تُو تو حقیقت جانتا ہے۔۔ پھر بھی؟"

آج مسلمان خدا کی ہمسری کے دعوے دار اسی مجذوب کے نام پر اپنے بچوں کے نام بخوشی اور فخریہ رکھتے ہیں اور انہیں کوئی پتھر نہیں مارتا۔

جیسے بارہویں صدی کے عظیم فلسفی، حکیم، ریاضی داں، ماہر علم فلکیات، اور فقیہہ ابن رشد کو اندلس کے حکمراں یعقوب المنصور نے ملک بدر کرکے اس کا پورا کتب خانہ جلوا دیا۔ وجہ یہ تھی کہ ابن رشد کی 68 کتابوں میں سے ایک میں فلاسفہ یونان کے عقائد کا ذکر کرتے ہوئے یہ جملہ بھی موجود تھا کہ "اور پھر یہ ثابت کیا گیا کہ زہرہ (سیارہ) بھی خدا ہے"۔۔ حاسدین نے اس جملے کو سیاق و سباق سے الگ کرکے خلیفہ کو قائل کر لیا کہ ابن رشد کے خیالات مشرکانہ ہیں۔ آج اسی ابن رشد کا فقہی کام بہت سے دینی مدارس کے نصاب کا حصہ ہے۔

جیسے وسطی یورپ میں جب بھی پادریوں کو اپنی کرتوتوں سے توجہ ہٹوانا مقصود ہوتی تو وہ اعلان کروا دیتے کہ فلاں علاقے کا فلاں یہودی ایک عیسائی بچے کو ابال کے کھا گیا اور پھر خلقت پادریوں کی سچی رہنمائی میں ی ہودیوں کی صفائی کرنے نکل پڑتی۔

جیسے بچپن میں کوئی چپکے سے کان میں کہہ جاتا کہ شیعوں کے تعزیے دیکھنے مت جایا کرو نکاح ٹوٹ جاتا ہے اور یہ سنی بچوں کا خون چاول میں ڈال کے نیاز بانٹتے ہیں۔

جیسے مولانا مودودی سے یہ بیان بہت عرصے تک منسوب کیا جاتا رہا کہ کشمیر کے جہاد میں حصہ لینا حرام ہے۔ جیسے بریلوی علما مولانا مودودی کو دشمن صحابہ ثابت کرتے رہے اور دیوبندی علما ان کے خیالات کو خارجیوں سے تشبیہ دیتے مودودی مذہب بتاتے رہے۔ (پھر ایک دن پی این اے اور پھر ایم ایم اے بھی بن گیا)۔

جیسے جماعت اسلامی کی جانب سے یہ بات تواتر کے ساتھ پھیلانے کی کوشش ہوئی کہ بھٹو ایک لادین سرخا ہے اور ایسا نظام لانا چاہتا ہے جس میں عورتیں ہاتھ سے نکل جائیں اور مسجدوں کو تالے لگ جائیں۔ اس کی رگوں میں ہندو خون دوڑ رہا ہے۔ جو اسے ووٹ دے گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔ پھر بھی ستر کے انتخابات میں کروڑوں ووٹروں نے نکاح تڑوا لیے۔ سرخے بھٹو نے احمدیوں کو اقلیت قرار دے دیا۔ رگوں میں ہندو خون دوڑنے کے باوجود شراب پر پابندی لگا دی اور مساجد کو تالے لگانے کے بجائے جمعہ کی سرکاری چھٹی کر دی اور اب شہید بھی کہلاتا ہے۔

پروپیگنڈا وار میں سب سے پہلے شہادت سچائی کی ہوتی ہے۔ لوگ ان سے ہی اپنی ذہن سازی کرتے ہیں اس تحقیق کے بنا کہ بتانے والا جو بتا رہا ہے اس میں سورس کتنا قابل اعتبار ہے۔ کوئی سورس ہے بھی یا نہیں۔ نیز دلیل یا لاجک کا جنازہ اُٹھا رہا ہے تو کیونکر اُٹھا رہا ہے۔ آج کے دور میں گوئبلزی دانشوروں، میڈیا مینجمنٹ ایجنٹوں اور تعلقات عامہ والوں کے سامنے آزاد و غیرجانبدار قلم بھلا کیا بیچتا ہے سالا؟

Check Also

Muqtadra Ki Hakoomati Bandobast Ki Janib Peh Raft

By Nusrat Javed