Political Science Ki Class Ka Aik Period
پولیٹکل سائنس کی کلاس کا ایک پیریڈ
ماسٹر جی، بیٹا محمد علی ایک اچھی سویلین حکومت کی خوبیاں مفصل بیان کرو۔ محمد علی، ماسٹر جی ایک اچھی بیوی اور بہو وہ ہوتی ہے۔ جو امورِ خانہ داری مثلاً سلائی، کڑھائی اور کھانا پکانے کی ماہر ہو۔ محدود آمدنی میں خوش اسلوبی سے گھر کا ماہانہ خرچہ صبر شکر سے چلائے۔ شوہر جب تھکا ہارا گھر آئے تو اس کے آگے منہ نہ بسورے بلکہ سج بن کے استقبال کرے۔
شکوہ شکایت بھی سلیقے، قرینے اور پاؤں دباتے ہوئے کرے تاکہ شوہر کی طبیعت پر گراں نہ گذرے۔ ایک اچھی بہو چونکہ گھر کی ملکہ ہوتی ہے۔ لہذا اس کی ذمہ داری ہے، کہ وہ بچوں کی اچھی تربیت کرے، انہیں منہ پھٹ نہ بنائے، ان کے کھانے پینے، روزمرہ ضروریات کا خیال رکھے۔ کپڑے اور یونیفارم استری کر کے رکھے۔ بچوں کو فضول خرچی کی عادت نہ ڈالے اور اپنی طرح انہیں بھی صبر شکر کی خوگر بنائے۔
شوہر کے رشتے داروں سے بے جا نہ الجھے۔ کوئی اونچ نیچ ہو بھی جائے تو درگزر کرے۔ ماسٹر جی: بیٹا محمد علی میں آپ سے مثالی بہو کے نہیں ایک اچھی سویلین حکومت کے اوصاف پوچھ رہا ہوں۔ سوال کا جواب حاضر دماغی اور دھیان سے دیں۔
محمد علی، جی ماسٹر جی، جب شوہر غصے میں ہو تو ایک اچھی بیوی کا فرض ہے، کہ وہ آگے سے ترکی بہ ترکی جواب نہ دے اور اسے کسی مناسب وقت کے لیے اٹھا رکھے۔ اسے سلیقہ شعار اور سگھڑ ہونا چاہئے۔ جب شوہر پیٹ بھر کے کھانا کھا لے۔ اس کے بعد اسے اور بچوں کو کھانا کھانا چاہیے۔ شوہر اگر بے روزگار اور نکھٹو ہو تب بھی پلٹ کے سوال نہیں کرنا چاہیے۔
ایسے رویے سے مرد کی انا مجروح ہوتی ہے۔ اور وہ مزید سخت گیر اور ضدی ہوتا چلا جاتا ہے۔ حاضر دماغ بیویاں ایسی نوبت آنے ہی نہیں دیتیں کہ مرد کو انہیں میکے بھیجنا پڑے یا نوبت طلاق تک آ جائے۔ اس طرح کے حالات میں مرد کا تو کچھ نہیں بگڑتا، عورت کو ہی زمانہ موردِ الزام ٹھہراتا ہے۔ اور بچوں کی نفسیات، شخصیت اور مستقبل تباہ ہو جاتا ہے۔
لہذا مرد کیسا بھی ہو اس کے ساتھ بچوں کی خاطر جیسے کیسے گزارہ کرنا اور مرد کی ہر بات پر جی سرتاج، جی حضور کہتے رہنا ہے۔ گھریلو زندگی کو خوشگوار بنا کے رکھنے کا نسخہ ہے۔ ذہین عورتیں اپنی باتیں مرد کے سامنے کھڑے ہو کر نہیں منواتیں بلکہ پیار محبت کے ماحول میں خوش اسلوبی سے تسلیم کرواتی ہیں۔
ماسٹر جی، برخوردار لگتا ہے تمہارا دماغ چل گیا ہے۔ دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو جاؤ۔ امجد بیٹا تم بتاؤ ایک اچھی سویلین حکومت کی خوبیاں کیا کیا ہوتی ہیں؟
امجد، جی ماسٹر جی۔ ایک اچھی سویلین حکومت اچھی بیوی اور بہو کی طرح ہوتی ہے۔ اس کے ماتھے پر کسی حال میں شکن نہیں آنی چاہیے۔ کوئی چبھتا سوال نہیں کرنا چاہیے اور چبھتا جواب نہیں دینا چاہیے۔ شوہر دو اور دو پانچ بھی کہے تو بحث میں نہیں پڑنا چاہیے۔ گھریلو بجٹ میں سے جتنا جیب خرچ ملے گزارہ کرنا چاہیے۔ شوہر چلم بھی پیتا ہو تو برا نہیں منانا چاہیے۔ گھر کے مرد کی عزت نہیں ہو گی تو ماں کی دیکھا دیکھی بچے بھی گستاخ اور بے لگام ہو سکتے ہیں۔
ماسٹر جی، ابے یہ کیا بک رہے ہو۔ ایک اچھی سویلین حکومت وہ ہوتی ہے۔ جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر عوامی فلاح و بہبود کو ترجیح دیتی ہے۔
امجد: ماسٹر جی اسی لیے تو اسے کسی روز کھڑے کھڑے طلاق مل جاتی ہے۔
(کلاس ہنسنے لگتی ہے۔ کھی کھی کھی کھی۔)
ماسٹر جی، کون ہے؟ کون ہنسا؟ کھڑا ہو جائے ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔ (کلاس میں سناٹا چھا جاتا ہے)۔ کل ہر بچہ اس سوال کا جواب سوچ سمجھ کے لکھ کر لائے۔ خبردار کسی نے اپنے جواب میں بہو، بیوی، اطاعت گذار جیسی بکواس لکھی۔ ابے موٹے دماغو۔ بلڈی سویلین گورنمنٹ از آلویز اے پراپر سویلین گورنمنٹ۔ انڈر سٹینڈ؟
سٹوڈنٹس، یس سر۔
ماسٹر جی: کلاس ڈسمس۔