1.  Home
  2. Javed Chaudhry
  3. I Still Love You

I Still Love You

آئی سٹِل لو یو

یہ بنیادی طور پر محبت کی کہانی تھی، جارج اسمتھ اور کیتھی کی محبت کی کہانی۔ یہ پچھلی دہائی کی سب سے بڑی کہانی تھی، یہ کہانی ہمیشہ پڑھنے اور سننے والوں کے گرم خون میں ٹھنڈک بن کر اترتی رہے گی۔

جارج اسمتھ "ہاف کاسٹ" امریکن تھا، اس کے آباؤ اجداد چار سو سال پہلے ایتھوپیا سے غلام بن کر امریکا آئے تھے، یہ لوگ صدیوں تک گوروں کے کھیتوں میں کام کرتے رہے، ان کے جانور پالتے رہے، ان کے لیے بیئر اور وائین بناتے رہے اور ان کے گھروں کے لیے جنگل کاٹتے رہے، غلامی کے اس دور میں کسی وقت ان کی سیاہ رنگت میں کسی سفید گورے کی "جاگ" لگ گئی اوریوں ان کی نسل گندمی ہونا شروع ہوگئی یہاں تک کہ یہ لوگ جارج اسمتھ تک پہنچ کر سفید فام ہو گئے۔ بس جارج کے موٹے ہونٹ اور گھنگریالے بال اس کے آباؤ اجداد کی آخری نشانیاں رہ گئے۔

جارج ہارورڈ یونیورسٹی کا گریجوایٹ تھا، وہ سیاٹل میں کمپیوٹر سافٹ وئیر کا بزنس کرتا تھا اور خوشحال اور مطمئن زندگی گزار رہا تھا جب کہ کیتھی کے آباؤ اجداد کا تعلق میکسیکو سے تھا، یہ لوگ دو نسل پہلے الپاسو سے نیویارک شفٹ ہوئے تھے، یہ لوگ بھی یورپین امریکن خاندانوں میں"مکس" ہوتے ہوتے اپنا رنگ روپ تبدیل کرتے چلے گئے۔

جارج اور کیتھی کی ملاقات واشنگٹن میں ہوئی، یہ دونوں سافٹ وئیر کی کسی نمائش میں ملے، دوستی ہوئی، محبت ہوئی، دونوں نے شادی کی اور سیاٹل میں خوبصورت، خوشگوار، خوشحال اور گرم جوش زندگی گزارنے لگے، شادی کے دو سال بعد معلوم ہوا جارج اسمتھ کے خون میں کوئی کیمیائی خرابی ہے جس کے باعث "اسپرم" پیدا نہیں ہوتے چنانچہ جارج اولاد کی نعمت سے محروم رہے گا۔ یہ دونوں کے لیے بری خبر تھی کیونکہ دونوں صاحب اولاد ہونا چاہتے تھے، جارج نے ڈاکٹروں، سائنسدانوں اور ماہرین سے رابطے شروع کر دیے۔

ان رابطوں کے دوران معلوم ہوا میڈیکل سائنس نے ایک ایسا طریقہ ایجاد کر لیا ہے جس کے ذریعے زندگی میں ایک بار چند اسپرم پیدا کیے جا سکتے ہیں تاہم یہ طریقہ بہت مہنگا تھا لیکن جارج اور کیتھی نے چند دن سوچا اور اپنا ساراسرمایہ اولاد پر خرچ کرنے کا فیصلہ کر لیا، جارج نے اپنی کمپنی، اپنا گھر اور اپنی گاڑی بیچ دی اور یہ رقم شکاگو کے میڈیکل سینٹر میں جمع کرادی، علاج شروع ہوا، علاج کامیاب ہوا، اسپرم پیدا ہوئے، یہ اسپرم مصنوعی طریقے سے کیتھی کے جسم میں داخل کیے گئے اور فطرتی عمل شروع ہوگیا جس کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے دونوں کو چاند جیسا بیٹا عطا کر دیا۔

جارج اسمتھ اور کیتھی اسمتھ کی کہانی یہاں تک ایک عام داستان تھی، ہم میں سے کون شخص ہے جس کی زندگی میں اس نوعیت کے غم نہیں ہیں۔ انسان کی زندگی غموں، دکھوں اور تکلیفوں کے دھاگوں سے بنتی ہے، آپ نے اگر کبھی جولاہے کو کپڑا بُنتے دیکھا ہو تو آپ جانتے ہوں گے جولاہے کی کھڈی میں مختلف رنگوں کے سیکڑوں ہزاروں دھاگے ہوتے ہیں، دھاگوں کی ایک آبشار اوپر سے نیچے کی طرف آتی ہے اور دھاگوں کا دوسرا سلسلہ دائیں سے بائیں یا بائیں سے دائیں چلتا ہے، جولاہا درمیان میں بیٹھ کر کھڈی چلاتا جاتاہے اور مختلف رنگوں کے دھاگے کپڑے کی شکل اختیار کرتے جاتے ہیں، دھاگوں کا یہ سلسلہ تانا اور بانا کہلاتا ہے۔ زندگی بھی ایک ایسی ہی کھڈی ہے جس کا تانا بھی دکھ ہیں اور بانا بھی دکھ لہٰذا ہم سب دکھ کی کھڈی پر مصیبتوں کے تانے بانے سے بنے ہوئے لوگ ہیں اور جب تک ہماری سانس چلتی رہتی ہے ہم دکھوں سے آزادی نہیں پا سکتے۔

جارج اور کیتھی کی کہانی بھی یہاں تک ایک عام داستان تھی، ہم جیسی کہانی جس میں دکھ کا ایک سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوتا اوردوسرا شروع ہو جاتا ہے لیکن پھر اچانک جارج اور کیتھی کی زندگی میں ایک انوکھا واقعہ پیش آیا اور یہ دہائی کی سب سے بڑی کہانی بن گئی۔ کیتھی ایک دن اپنے چھ ماہ کے بیٹے کو باتھ ٹب میں نہلارہی تھی، اس دوران فون بجا اور کیتھی بیٹے کو ٹب میں چھوڑ کر فون سننے چلی گئی۔

کیتھی نے ماڈلنگ کا آڈیشن دیا تھا، فون پر اسے خوشخبری سنائی گئی وہ کامیاب ہوگئی ہے اور وہ کل دفتر آ کر ماڈلنگ کا کانٹریکٹ سائن کر دے، کیتھی کمپنی سے تفصیلات معلوم کرنا شروع کر دیتی ہے یوں فون لمبا ہو جاتا ہے، وہ فون رکھ کر واپس باتھ روم جاتی ہے تو وہاں زندگی کا سب سے بڑا حادثہ اس کا منتظر ہوتا ہے، اس کا بیٹا باتھ ٹب میں ڈوب کر مر جاتا ہے، کیتھی اسپتال فون کرتی ہے، ایمبولینس آتی ہے وہ اپنے بیٹے کو لے کر اسپتال پہنچتی ہے، ڈاکٹر کوشش کرتے ہیں لیکن گئی ہوئی سانس کبھی واپس نہیں آتی۔

کیتھی دکھ کی اس کیفیت میں ڈوب جاتی ہے جس میں آنکھیں آنسو پیدا کرنا بند کر دیتی ہیں اور حلق سسکیوں اور آہوں سے خالی ہو جاتے ہیں، کیتھی موم کا مجسمہ بن کر دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھ جاتی ہے، اس دوران جارج اسپتال آتا ہے اور چپ چاپ کیتھی کے ساتھ لگ کر بیٹھ جاتا ہے، دونوں کے درمیان خاموشی کے ہزار برس گزر جاتے ہیں، کیتھی آخر میں جارج کی طرف دیکھتی ہے، اس کی آنکھوں میں ہزاروں لاکھوں سال کی اداسی بچھی تھی، جارج اس کی طرف دیکھتاہے، اس کا کندھا دباتا ہے اور نرم آواز میں بولتا ہے "آئی اِسٹل لو یو" چار لفظوں کا یہ فقرہ تیزاب میں الکلی کی بوند ثابت ہوتا ہے، کیتھی کے منہ سے چیخ نکلتی ہے اور وہ جارج کے گلے لگ کر دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیتی ہے۔

جارج نے برسوں بعد اپنے دوست کو بتایا "مجھے جب سانحے کے بارے میں معلوم ہواتو میرے دل کی دھڑکن رک گئی، میں افراتفری کے عالم میں اسپتال پہنچا، میں نے کیتھی کو اسپتال کے فرش پر بیٹھے دیکھا تومیرا دل چاہا میں اس کو اس وقت تک تھپڑ اور ٹھڈے مارتا رہوں جب تک میں مار سکتا ہوں لیکن پھر سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں خیال آیا، کیا کیتھی کو مارنے سے ہمارا بیٹا واپس آ جائے گا؟ کیا میرے رونے، چیخنے، چلانے اور شور کرنے سے ہمارا بیٹا زندہ ہو جائے گا، مجھے محسوس ہوا نہیں کیونکہ ہمارا بیٹا گیا وقت ہو چکا تھا اور گیا ہوا وقت کبھی واپس نہیں آتا، ماضی دنیا کی واحد چیز ہے جسے قدرت بھی نہیں بدل سکتی، میں نے محسوس کیا کیتھی کو اس وقت میری سب سے زیادہ ضرورت ہے چنانچہ میں اس کے پاس بیٹھ گیا اور میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس کے کان میں کہا "آئی اِسٹل لو یو"۔ جارج کا کہنا تھا ہم میں سے زیادہ تر لوگ برے واقعات، برے سانحوں کا ذمے دار ایک دوسرے کو ٹھہراتے رہتے ہیں، بیوی خاوند سے شکوہ کرتی ہے "یہ تمہاری وجہ سے ہوا"اور خاوند بیوی سے مخاطب ہوتا ہے "تم اگر یہ نہ کرتی تو ایسا نہ ہوتا" ہم اس وقت شکوہ کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں ہماری زندگی کا ساتھی بھی اس وقت اس سانحے سے اتنا ہی متاثر ہے جتنا ہم ہیں۔

میرا بیٹا میری بیوی کا بھی بیٹا تھااور کوئی ماں جان بوجھ کر اپنے بیٹے کی جان نہیں لیتی چنانچہ میں اگر اس وقت اسے ملزم ٹھہرانے لگتا تو یہ غم اس کی جان لے لیتالہٰذا میں نے عام خاوند بننے کے بجائے اس کے غم کا بوجھ بٹانے کا فیصلہ کرلیا، میں نے اپنی محبت کا کندھا اس کے حوالے کر دیا۔ جارج کا کہنا تھا میں نے زندگی میں اسے کبھی بیٹے کی موت کا ذمے دار نہیں ٹھہرایا، وہ جب بھی بیٹے کا ذکر کرتی ہے، میں اس سے کہتا ہوں"کیتھی اولاد ہمارے نصیب میں نہیں تھی، ہم نے میڈیکل سائنس کے ذریعے زبردستی اولاد حاصل کرنے کی کوشش کی، ہم کامیاب ہو گئے لیکن قدرت نے یہ واپس لے کر ثابت کر دیا انسان اپنے مقدر کو شکست نہیں دے سکتا، تم دل چھوٹا نہ کرو بس یہ دیکھو میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں"۔ جارج کا کہنا تھا "ہم حادثے سے نہیں بچ سکتے لیکن حادثے کے بعد ہمارے الزامات ہمارے دکھ اور ہماری چوٹ کی شدت میں اضافہ کر دیتے ہیں جب کہ اس کے برعکس ہماری محبت ہماری چوٹ کی شدت اور ہمارے دکھ میں کمی کا باعث بنتی ہے چنانچہ آپ کے چاہنے والے جب بھی کوئی غلطی کریں، ان سے کوئی کوتاہی ہو جائے، آپ ڈانٹنے کے بجائے انھیں صرف اتنا کہہ دیں"آئی اِسٹل لو یو" اور اس کے بعد دیکھیں وہ بھی خوش ہو جائے گا اور آپ بھی"۔

 

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Adliya Aur Parliament Mein Barhti Talkhiyan

By Nusrat Javed