Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Pakistan Mein Aurat Kahani

Pakistan Mein Aurat Kahani

پاکستان میں عورت کہانی

جب جب اور جہاں جہاں مرد کی روایات و انا کو ٹھیس پہنچے گی وہ بھی عورت سے تب تب اس مردانہ معاشرے میں کیا ڈگری یافتہ اور کیا ان پڑھ سب ہی یک زبان ہو جائیں گے۔ میں بولنا نہیں چاہتا تھا مگر چلیں کچھ بتاتا چلوں۔ میں ٹریولر ہوں۔ خدا شاہد ہے کہ میں نے نوشکی کے اطراف میں سر تا پا برقعہ پوش عورت کے ہاتھوں میں رسی بندھی دیکھی ہے جس کی مہار آگے چلتے مرد کے ہاتھ میں تھی اور عورت کے پیچھے بچے چل رہے تھے۔ یہ سڑک سے گذرتا ایک خاندان تھا۔ معلوم کرنے پر پتہ لگا کہ یہ عورت کے ہاتھ پر رسی باندھ کر مرد کا آگے پکڑ کر چلنا رواج یا روایت کا حصہ ہے۔

سوات مٹہ کی یونین کونسل شوال یا شول(میں درست نام اب بھول رہا ہوں) کے ایک گاؤں میں یو این ڈی پی کے پراجیکٹ پر پہنچا تو دیکھا کہ عورتوں نے سر پر بھاری پیتل اور سلور کے گھڑے اٹھائے ہوئے ہیں جن میں نجانے کیا تھا(پانی یا خالی مجھے نہیں معلوم) اور دو مرد ان پانچ عورتوں کو درخت کی ٹہنی سے ہانکتے چلے جا رہے تھے۔ خود خالی ہاتھ تھے۔ معلوم کرنے پر پتہ لگا کہ یہاں معمول ہے۔

ڈی ایچ کیو کوئٹہ میں ایک عورت لائی گئی جو دور کہیں پہاڑوں پر رہنے والی تھی۔ اس نے چارپائی پر ہی تین سال تین بچے پیدا کیے تھے اور اس کی بیماری کا یہ حال تھا کہ کمر کی جِلد چارپائی کے ساتھ جڑ چکی تھی جس میں پیپ پر چکی تھی۔ اس کو اسی چارپائی سمیت اٹھا کر لایا گیا تھا کیونکہ اس کا جسم چارپائی سے الگ ہی نہیں ہو سکتا تھا اور نیم برہنہ حالت میں لایا گیا تھا۔ وجہ یہ کہ وہ جہاں بستی تھی وہاں مرد ڈاکٹر کو دکھانے یا ہسپتال جانے کا رواج نہیں ہے۔

اپنے کھاتے پیتے پنجاب میں میں نے ایک تیرہ چودہ سالہ بچی دیکھ رکھی ہے جس کو گھر میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا وہ بھی سگے رشتوں کے ہاتھوں۔ اس بچی کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے ذریعہ بازیاب کروایا گیا تھا اور آپ کو بتاؤں کہ کیسے؟ گھر کا ہی وہ فرد جو خود اس کارِ شیطانی میں کبھی ملوث تھا اس نے سارا ماجرا بیورو کو اس واسطے جا سنایا کہ اب اس کا "نمبر" نہیں آتا تھا۔ اس بچی کو یونیسف نے اسلام آباد منتقل کیا اور ایک بہترین ادارے کے سپرد کیا جو یتیم و لاوارث بچوں کو پالتا ہے۔

میں نے اس معاشرت میں بہت کچھ دیکھا ہے۔ عینی شاہد ہوں۔ کوئٹہ سے خنجراب اور کراچی سے پشاور تک بلا تفریق رنگ و نسل و ذات پات المئیے دیکھے ہیں۔ بہت سے واقعات ذہن سے محو ہو چکے ہیں۔ اس بات کو آپ مانیں یا نہ مانیں مگر ننگی حقیقت یہی ہے کہ دیہی علاقوں اور شہروں سے دور بستی عورت کی زندگی جانور سے بدتر ہے۔ شہری علاقوں کی صورتحال مختلف ہے۔ یہاں مرد گھریلو استحصال کا شکار ہے۔ یہاں قدم قدم پر "عورت کارڈ" کی ڈھال بنائے مرد مار قسم کی برائے نام عورتیں بھی ہیں جن کے پاس یہی لیوریج ہے کہ جسمانی خدوخال عورت والے ہیں مگر یہ مملکتِ خداداد پچھہتر فیصد دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔

ایسا کیوں ہے؟ اگر آپ کہیں کہ تعلیم سے دوری یا تعلیم کی کمی کے سبب ہے تو میں کہوں گا ہرگز نہیں۔ ماڈرن تعلیم جب نہیں تھی تب بھی سماج تھے۔ آج سے صدیوں قبل کا انسان بھی مہذب تو تھا۔ اس کی وجہ ہمارا ڈی این اے اور ہمارا مذہبی لٹریچر ہے۔ منبر سے بتایا گیا ہے کہ عورت پاؤں کی جوتی ہے۔ بہشتی زیور وہ کتاب ہے جو رخصتی کے موقعہ پر کم و بیش ہر عورت کے ساتھ آتی ہے۔ یہ ایک نمونہ اس کتاب سے پیش ہے۔ باقی معافی چاہوں گا۔

Check Also

Siyah Heeray

By Muhammad Ali Ahmar