Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Pakistan Ke Do Masail

Pakistan Ke Do Masail

پاکستان کے دو مسائل

شادیوں کا سیزن عروج پر پہنچ رہا ہے۔ اس سے زیادہ حیرانی مجھے اس بات پر بھی ہوتی ہے کہ یہاں شادی ہوئی وہاں پکے نو ماہ بعد کاکے کاکی کی تصویر بھی فیسبک پر اپلوڈ ہو جاتی ہے۔ اس ملک کا ایک بھیانک مسئلہ بڑھتی ہو ناقابل کنٹرول آبادی ہے۔ اکثر یوں ہوتا ہے کہ میری بیگم رات کو پاس بیٹھے میرے فیسبک پر میرے ساتھ وال دیکھ رہی ہوتی ہے کیونکہ اسے لگتا ہے میرے پاس ارسطو، سقراط، کنفیوشس، بقراط اور افلاطون ایڈ ہیں اور یقیناً ہیں یعنی کہ ہر شعبہ ہائے زندگی کے معتبر لوگ دوست ہیں۔ ان کی پوسٹس بھی دلچسپ ہوتی ہیں لہذا بیگم انجوائے کرتی رہتی ہے۔ میرے پاس جو دوست احباب ایڈ ہیں ان کی خانہ آبادی بھی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ تقریبا روز ہی کوئی ایک پوسٹ نئے کاکے کی نوید والی لگی ہوتی ہے۔

اک روز اس نے مجھے کہا "آپ کی وال دیکھوں تو لگتا ہے ساری دنیا بچے ہی پیدا کر رہی ہے"۔ میں نے اس دن غور کیا کہ اس کی بات میں دم ہے۔ پاکستان کے دو بہت بڑے اور اہم مسائل ہیں۔ ایک ہے تعلیم اور دوسرا بڑھتی ہوئی آبادی کا ٹائم بمب جو ہر لمحہ کلک کلک کلک کر رہا ہے۔

پاکستان کی سرحدیں جن ممالک سے ملتی ہیں ان میں سوائے افغانستان کے دیگر تمام ممالک میں خواندگی کا تناسب پاکستان سے زیادہ ہے۔ جیسے پاکستان کے 35 فیصد خواندگی کے دعوے کے مقابلے میں چین میں یہ تناسب 93 فیصد، ایران میں 81 فیصد اور بھارت میں ساڑھے 65 فیصد ہے۔ سارک کی سطح پر اگر دیکھا جائے تو بھوٹان اور افغانستان چھوڑ کے باقی سارک ممالک پاکستان سے زیادہ خواندہ ہے۔

اگر ان دس ممالک کی فہرست بنائی جائے جہاں سب سے زیادہ بچے پرائمری سکول سے باہر گھوم رہے ہیں تو اس فہرست میں پاکستان، افغانستان اور نائجر کے بعد تیسرے نمبر پر ہے۔ اس وقت یہاں پانچ برس کی عمر کے 70 لاکھ بچے سکول سے باہر ہیں اور ان میں لگ بھگ 40 لاکھ بچیاں ہیں۔ غربت اور بدامنی ان بچوں کو تعلیم سے روکنے میں سب سے بڑا عامل کہا جاتا ہے۔

ناقابلِ کنٹرول اور مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی کی بات کریں تو اقوام متحدہ کے ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی آبادی چوبیس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے بڑے ممالک کی فہرست میں چھٹے سے پانچویں نمبر پر آ گیا ہے۔ افزائش آبادی کی تیز شرح سے دنیا کی آبادی کا 2.83 فیصد حصہ پاکستان میں موجود ہے۔ کراچی، لاہور، فیصل آباد اور راولپنڈی زیادہ آبادی والے شہر ہیں۔ عالمی اداروں کے مطابق افزائش آبادی کی موجودہ شرح کو کنٹرول نہ کیا گیا تو آئندہ 20 سالوں میں پاکستان کی آبادی دوگنی ہو جائے گی۔

اگر سالانہ موجودہ شرح کے ساتھ آبادی میں اضافہ ہوتا رہا تو عنقریب پانی کی شدید ترین قلت کا سامنا ہوگا۔ ہماری زرخیز زرعی زمینوں میں زراعت کے بجائے رہائشی بستیاں آباد ہوں گے۔ بچے خوراک کی کمی کا شکار ہو کر معذور و لاغر ہوں گے۔ بے روزگاری اور لاقانونیت کا عفریت قابو سے باہر ہوگا۔ توانائی کی شدید کمی کے ساتھ صوتی اور ماحولیاتی آلودگی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے ڈیرے ڈال لیں گے اور معیار زندگی کی تنزلی سمیت ایسے ایسے مسائل سر اٹھائیں گے جن پر قابو پانا ہمارے بس سے باہر ہوگا۔

حل تو دور کی بات ہے کیا عوامی بہبود کے لمبے چوڑے دعوے کرنے والی حکومتیں اور حکومتوں کے گاڈ فادر اس مسئلے کو کوئی سنجیدہ قومی مسئلہ سمجھنے سے بھی معذور ہیں؟ تعلیم سے دور جہالت کا یہ کوہ ہمالیہ اٹھانے کی سکت کیا ریاست میں موجود ہے؟ وطن عزیز کے قومی نصاب میں سات دہائیوں سے تو الف سے انتشار، ب سے بدگوئی، ت سے تماشا چل رہا ہے۔ ت سے تدبیر اور ت سے تعلیم ابھی بہت دور ہے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali