Tuesday, 22 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Pakistan Bachao Muhim

Pakistan Bachao Muhim

پاکستان بچاؤ مہم

شاندار ملک ہے۔ باکمال لوگ ہیں۔ بہترین فضا ہے مگر ایک تو مجھے آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آ سکی کہ ہر سیاسی و عسکری لیڈر ملک کے بنیادی مسائل پر توجہ کرنے، ان کا ایک حقیقی، ٹھوس اور پائیدار حل دینے اور پھر اس حل کو عملی جامہ پہنانے کی مخلصانہ کوشش پر سنجیدگی اور ایمانداری سے توجہ دینے کے بجائے پہلی فرصت میں پاکستان بچانے کا آسان ٹھیکہ کیوں پکڑ لیتا ہے؟

پاکستان بچانے کا تازہ ترین اور رضاکارانہ ٹھیکہ عمران خان نے لے لیا ہے۔ چنانچہ ہم سنتے آ رہے ہیں کہ "کون بچائے گا پاکستان۔ عمران خان عمران خان"۔ سنہ 2011 والا مینار پاکستان جلسہ "پاکستان بچاؤ" جلسہ تھا۔ اس سے قبل پرویز مشرف بھی نو سال پاکستان بچاتے رہے۔ پھر اگلے پانچ برس خود کو بچانے میں گزر گئے۔ پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ شیخ الاسلام طاہر القادری "سیاست نہیں ملک بچاؤ " کی تلوار لہراتے ہوئے کینیڈاسے انقلابی پھریرے لہراتے بکتر بند کنٹینر میں سوار اسلام آباد میں داخل ہو گئے۔

جماعت اسلامی حالانکہ کوئی موسمی پارٹی نہیں ہے۔ مگر اس کے پاس بھی جب کوئی قابلِ ذکر ایشو نہیں ہوتا تو وہ "ہم ملک بچانے نکلے ہیں، آؤ ہمارے ساتھ چلو" کا ورد کرتی ہوئی کراچی سے پنڈی کی ٹرین پر چڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح جب آصف زرداری نے بی بی کی شہادت کے بعد اپنی جانشینی کی وصیت دریافت کرلی تو "پاکستان کھپے" کا نعرہ لگا دیا۔

اس سے پہلے نواز شریف "قرض اتارو ملک سنوارو" کا راگ اونچے سُروں میں اٹھانے کے بعد ملک سنوارتے سنوارتے جدہ تک پہنچ گئے اور اب وہ پاکستان کے بجائے جمہوریت بچانے پر سنجیدگی سے کمر بستہ ہیں۔ ضیا الحق نے یہ دلاسہ دیتے دیتے دس برس نکال دئیے کہ پاکستان کی بقا کی جنگ افغانستان میں لڑی جا رہی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے جب بھانپ لیا کہ پرانا پاکستان (بنگال) نہیں بچایا جاسکتا تو پھر انہوں نے نیا پاکستان بچانے کا فیصلہ کرلیا۔ یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں آپریشن سرچ لائٹ شروع کرانے کے اگلے روز یہ اعلان کر دیا کہ خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا۔ ایوب خان دس برس پاکستان بچاتے رہے۔ پینسٹھ کی جنگ کے باوجود پاکستان تو قائم رہا البتہ ایوب خان قائم نا رہ سکا۔

مختصر یہ کہ اب تک پاکستان کو جتنے بھی حکمراں نصیب ہوئے ان میں ماسوائے جناح ہر ایک کو محض پاکستان بچانے سے ہی دلچسپی رہی۔ جناح صاحب کو پاکستان بنانے سے دلچسپی تھی۔ شوق ہے کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اب تو شاید یہ دنیا کا واحد ملک رہ گیا ہے جسے یہاں کے زعما سدھارنے سے زیادہ بچانے سے دلچسپی رکھتے ہیں۔

جس طرح آج تک ہر سیاسی و عسکری لیڈر اور جماعتوں کو پاکستان خطرے میں نظر آ رہا ہے اسی طرح ایک زمانے میں ان فیشن بدل محافظوں کو اسلام خطرے میں نظر آتا تھا۔ حالانکہ اسلام ان ازخود رضا کاروں کی پیدائش سے کم از کم چودہ سو برس پہلے سے اپنے بل بوتے پر موجود ہے۔ مگر ہوش کے برعکس جوش اس قدر زیادہ ہے کہ خدا کا یہ وعدہ تک یاد نہیں رہا کہ الہامی کتاب و نظریے کی حفاظت کا ذمہ اوپر والے نے اپنے ذمے لے رکھا ہے۔ جس اسلام نے ایران، روم، شمالی افریقہ، اسپین، وسطی اور جنوبی ایشیا کی سلطنتوں کو اکھاڑ پچھاڑ ڈالا آج اسی اسلام کو خطرے میں قرار دیتے ہوئے مدارس کے بچوں کو سڑکوں پر لے آیا جاتا ہے۔

کیا کوئی بتائے گا کہ اسلام ہو کہ پاکستان ان دونوں میں سے کس نے پچھلے چھہتر برس میں کسی پاکستانی سیاسی، مذہبی یا عسکری شخصیت و گروہ کے ساتھ میمورنڈم آف انڈر اسٹینڈنگ (ایم او یو) پر دستخط کیے ہیں کہ جناب ہم دونوں شدید خطرے میں ہیں، آئیے ہمیں بچا لیجئیے؟

عرض بس اتنی سی ہے کہ اسلام اور پاکستان کو ذاتی و گروہی، سیاسی، مذہبی، اقتصادی، عسکری و نظریاتی مفادات کی ڈھال بنانے کے بجائے دونوں کو فی الحال بخش دیجئیے۔ کھیل کھیلنے کے لیے مسائل کے روپ میں اور بھی کئیں ڈھالیں، تلواریں، نیزے اور بھالے بارعایت مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ مثلاً بیروزگاری، غربت، ناخواندگی وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔

Check Also

Ilmi Aur Nafsiyati Istehsal

By Aaghar Nadeem Sahar