Oont, Baloch Aur Bukhari
اونٹ، بلوچ اور بخاری
بلوچ بہت پیچیدہ مزاج ہوتے ہیں ان کو پیار سے قائل کیا جائے تو ٹھیک وگرنہ یہ ٹیڑھی لکیر ہوتے ہیں جو ٹوٹ تو سکتی ہے سیدھی نہیں ہو پاتی۔ پسنی میں ایک وسیع صحرا ہے جس کے اطراف شہر بسا ہے۔ ریت کے اونچے اونچے ٹیلے ہیں جن کو میں پہلے دو بار فوٹوگراف کر چکا۔ اس بار سوچا کہ اگر اس صحرا میں اونٹ مل جائے تو اچھا کام ہو جائے۔ اونٹ لوگوں کے پالتو تو ہیں مگر صحرا میں نہیں پھر رہے ہوتے۔ شہر یا اطراف بسے گاؤں میں لوگوں نے رکھے ہوئے ہیں۔ میں جہاں رُکا ہوں یہ میری ٹائم سیکیورٹیز کا گیسٹ ہاؤس ہے جو پاک نیوی کا ہی حصہ ہے۔
فوج میں جیسے بٹ مین ہوتا ہے ویسے ہی یہاں بھی ایک ملازم ہے جو کلمتی قبیلے کا بلوچ ہے۔ میں نے اسے کہا کہ کیا کوئی بندہ اپنا اونٹ لے کر صحرا میں آ سکتا ہے؟ مجھے بس چند تصاویر لینا ہیں۔ اگر وہ اجرت مانگتا ہے تو دے دوں گا۔ اس نے اِدھر اُدھر فون گھمائے اور بلآخر مشن کامیاب ہونے کا اعلان کرتے بولا "ایک بندہ مل گیا ہے۔ اس کو پانچ سو دینا ہوگا۔ وہ اپنا اونٹ لائے گا"۔ میں نے حامی بھر لی۔
آج شام میں صحرا میں پہنچا۔ ایک بلوچ جوان اپنے ہٹے کٹے اور سجے سجائے اونٹ کے اوپر بیٹھا مجھے ریتلے ٹیلوں سے پہلے ایک گلی میں ملا۔ اس جوان نے اونٹ یوں سجا رکھا تھا جیسے پختون بھائی سائیکل سجاتے ہیں۔ رنگ برنگی پراندے، پھُمن، رنگین پلان۔ اونٹ بھی ماشااللہ سے ہمارے پنجابیوں جیسا ہٹا کٹا تھا۔ انکشاف ہوا کہ اونٹ اس بلوچ نے چاؤ سے پال رکھا ہے اور اس کا اپنے سے زیادہ خیال رکھتا ہے۔
جیسے ہی میں نے اسے کہا کہ چلو اس ٹیلے پر چڑھ کر آگے صحرا میں اُتریں تو صاحبو اس نے ایسا بھیانک انکشاف کر دیا کہ پہلے تو میں شاکنگ فیز میں چلا گیا اور پھر میرا ہاسا نکل گیا۔ بولا "یہ اونٹ ریت پر نہیں چل سکتا۔ اوپر نہیں جائے گا۔ اِدھر سے ہی جو تصویر لینا ہے لے لو۔ پیچھے یہ ریت کا ٹیلا تصویر میں آ تو جائے گا"۔ جب یہ سن کر مجھے شاک لگا اور پھر میرا قہقہہ چھُوٹا تو بلوچ ایکدم ناراض ہوگیا۔ بولا "یہ اونٹ گھر میں پلا ہے ریت پر کبھی نہیں چلا۔ تم اتنا کیوں ہنس رہا ہے؟ میں جا رہا ہوں تم کسی اور کو بلا لو"۔
میں نے صورتحال کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے جواب دیا "جوان، ہنسی مجھے اس پر آئی جیسے کسی نے مجھ سے کہا ہو کہ یہ میری مچھلی پانی میں نہیں تیر سکتی"۔ بلوچ سمجھ گیا اور پھر ہنسنے لگا۔ جب ہنسی رُکی تو بولا "یہ جائے گا۔ اب ہم اس کو صحرا میں لے کر جائے گا۔ پہلے کبھی گیا نہیں آج پہلی بار جائے گا۔ قسم ہے اب ہم لے کر جائے گا۔ تم آؤ جو تصویر مصویر نکالنا ہے نکالو"۔
صاحبو، بس پھر بلوچ نے ساری کسر نکال دی۔ اونٹ کے ساتھ شام ڈھلے تک صحرا میں شوٹ کرتا رہا۔ بلوچ مزے سے اس پر سوار میری ہدایات پر عمل کرتا رہا۔ پھر پاس آتا۔ تصاویر دیکھتا اور پھر خوش ہو کر خود ہی کہتا "اب میں وہ دور سب سے اونچے ٹیلے پر جاتا ہوں۔ وہاں سے بھگاتا آؤں گا"۔
کام تمام ہوا تو میں نے اسے پانچ سو دئیے۔ پہلے اس نے انکار کیا مگر میں نے وعدے کے مطابق پھر بھی اس کی جیب میں ڈال دئیے۔ وہ بولا "پیسے دے کر شرمندہ نہ کرو اب تم میرا دوست بن گیا ہے۔ مجھے یہ تصویریں واٹس ایپ کر دینا بس"۔ بلوچ دوست بن گیا۔ شام ڈھل گئی۔ وہ اونٹ کے ساتھ رخصت ہوگیا۔ وہ رخصت ہوا تو میرا ہمسفر فوٹوگرافر اسمار جو میرا سٹوڈنٹ ہے وہ قہقہہ لگاتے بولا "سر جی آپ کی وجہ سے اونٹ بھی بہت ہیپی لگ رہا تھا۔ لائف میں پہلی بار اس نے ریت پر رج کے مستی کی ہے"۔