Oludeniz Ke Sahil
اُلوڈنیز کے ساحل
ترکی کے شہر فیتھئیے سے بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک خوبصورت ساحل واقع ہے جس کا نام اُلوڈنیز ہے۔ اس ساحل پر جانے کو فیتھئیے شہر سے نکلا تو زوجہ ماجدہ نے گاڑی میں بیٹھتے ہی کہا " آپ راستے میں کہیں رکتے ہی نہیں۔ اتنے خوبصورت مقام آتے ہیں وہاں میں نے اپنی سیلفیاں لینی ہوتی ہیں مگر آپ گاڑی دوڑاتے جاتے ہیں "۔ میں نے ان کے گوش گزار کیا کہ بیگم حضور، دراصل مقامات تو خوبصورت ہیں مگر منزل پر بھی تو پہنچنا ہوتا ہے۔ آپ تو ہر دو منٹ بعد ہی کہہ دیتی ہیں کہ ذرا روکئیے گا۔
یہ سن کر بیگم کا مزاج بدک گیا۔ " آپ مجھے لائے کیوں تھے؟ بتائیں مجھے کیوں لائے تھے؟ ہمیشہ کی طرح خود ہی اکیلے آ جاتے۔ مصباح کا شوہر دیکھا کتنا اچھا ہے۔ وہ جہاں جاتی ہے اتنی زیادہ تصویریں لے کر آتی ہے۔ میں واپس جا کر کیا دکھاؤں گی؟" مصباح نامی خاتون بیگم کی سہیلی ہیں اور ان کے شوہر نامدار جو ہیں وہ نہ صرف گھر داماد ہیں بلکہ بیگم کے پیسوں پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بیگم مجھے بات بات پر مصباح کے شوہر کی مثال دینے لگتی ہیں۔ اس شخص کا ذکر سن کر میں چڑ جاتا ہوں۔
میں نے بس اتنا ہی کہا " بیگم صاحبہ۔ رہنے دیجیے اس مثالی نمونے کو۔ اس کی کیا مجال کہ وہ مصباح کو ٹال سکے۔ بہرحال آپ بتائیے گا جہاں گاڑی روکنا ہوئی روک دوں گا بس اللہ کا واسطہ اب مصباح اور اس کے شوہر کا ذکر نہ کیجئیے گا"۔ بیگم نے " ہوں " کیا اور چپ ہو گئی۔ گاڑی چل پڑی۔ شہر سے نکلے تو کچھ ہی فاصلے پر ایک ایسا مقام آ گیا جہاں سے نیچے تا حدِ نظر کھُلا سمندر نظر آ رہا تھا۔ بیگم نے آواز لگائی کہ یہیں گاڑی روک لیں۔ میں نے بریک لگا دی۔
جیسے ہی گاڑی سے باہر نکلے۔ جندرما کی گاڑی قریب آ کر رکی۔ ترکی میں جندرما پولیس کو کہتے ہیں۔ دو افیسر باہر نکلے۔ میں ان کو دیکھ کر الرٹ ہو گیا۔ وہ قریب آئے۔ ترک زبان میں کچھ بولے۔ مجھے کچھ سمجھ نہ آیا۔ میں نے انہیں کہا کہ مجھے انگریزی زبان آتی ہے ترکش زبان نہیں آتی۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کا منہ دیکھا۔ ان کو انگریزی نہیں آتی تھی۔ پھر ایک نے آگے بڑھ کر کہا " پاسپورت"۔ میں نے فوری پاسپورٹس نکالے اور ان کو تھما دئیے۔ جندرما نے سب سے پہلے میرا پاسپورٹ دیکھا۔"بُوکھاری"۔
میں نے اس کا تلفظ درست کرنا مناسب نہ سمجھا۔ میں نے جواب میں کہا "یس، مائی نیم از بُوکھاری"۔ بیگم نے ٹہوکا دیا " نو نو۔ ہز نیم از ناٹ بُوکھاری۔ ہی از بُخاری"۔ جندرما نے بیگم کو دیکھا۔ پھر مجھے دیکھا۔ پھر ترک زبان میں نجانے کیا بولا۔ میں نے پھر کھلے منہ سے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آئی۔ وہ دونوں آپس میں کچھ باتیں کرنے لگے۔پھر وہی افیسر بولا " یو۔ بُوکھاری۔ نو بُوکھاری"۔ یہ کہہ کر وہ میرے پاسپورٹ پر لگی میری تصویر کو بغور دیکھنے لگے۔ میرے ذہن میں آیا کہ میرے موبائل میں تو ٹرانسلیشن ایپ موجود ہے۔ میں نے موبائل نکالا۔ ٹرانسلیشن کر کے ان کے سامنے سکرین کی۔ " میرا نام سید مہدی بخاری ہے"۔
انہوں نے موبائل تھاما۔ ترک زبان میں لکھ کر واپس میرے سامنے کیا " گرل سیز نو بخاری" (لڑکی کہہ رہی ہے کہ بخاری نہیں ہے)۔ مجھے صورتحال کا اندازہ ہو گیا کہ بیگم جو اپنے تئیں جندرما کا تلفظ درست کروانے کو بولی تھی اس سے انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ میں "بُوکھاری" نہیں ہوں۔ میں نے ایپ پر لکھا " آپ لفظ ٹھیک ادا نہیں کر رہے۔ ہمارے ہاں لفظ اور طرح سے ادا کیا جاتا ہے۔ میری بیگم آپ کو یہ بتانا چاہ رہی تھی کہ لفظ غلط بول رہے ہیں "۔
انہوں نے پڑھا۔ پھر اک دوجے کو کچھ۔ بولے۔ پھر مجھے پاسپورٹ واپس کیا۔ پھر میرا موبائل تھاما اور اس پر لکھ کر میرے سامنے کیا" گو گو۔ وائف گو۔ ڈو ناٹ سٹے۔ اوکے"۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بیو ی کو لے کر چلے جاو یہاں مت رکو۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔ بیگم بولی " دیکھا پھر آپ بیٹھ گئے "۔ میں نے اسے کہا کہ بیگم ابھی اس جگہ سے چلو یہ کہہ رہے ہیں کہ یہاں سے جاؤ۔ کوئی وجہ ہو گی تو کہہ رہے ہیں۔ لہذا اب چلو۔ آگے کسی جگہ روک لوں گا"میں نے گاڑی چلا دی۔ "
ہاں، آپ کو پھر کچھ کہوں گی تو بولیں گے مصباح کے شوہر کا ذکر نہ کرنا۔ ایک منٹ لگنا تھا۔ اپنی دو تصویریں لے لیتی۔ اتنا پیارا منظر تھا۔ پولیس کا بہانہ بنا کر آپ نے پھر مجھے ٹال دیا ہے"۔ میں چپ رہا کہ کچھ بولتا تو مصباح کا شوہر جو دنیا میں ہر مثال قائم کر چکا ہے اس کی کوئی مثال پھر سننے کو مل جاتی۔ بس اتنا کہا " بیگم اب کہیں پولیس نے روکا تو برائے مہربانی آپ بیچ میں نہ بولئیے گا۔ اگر کسی وجہ سے ان کو کوئی غلط فہمی ہو گئی تو پھر وہ تھانے لے جا کر مکمل تفتیش کر کے چھوڑیں گے جس سے ذہنی کوفت اور وقت کا ضائع ہی ہو گا"۔
بیگم نے یہ سن کر چہر ے کے سارے مسلز کھینچتے اور دانت بینچتے ہوئے کہا " وہ آپ کو بُوکھاری ٹھیک کہتا تھا۔ ایک تو آپ کے لئے بولوں اوپر سے طعنے سنوں۔ بس اب پولیس روکے تو میں کہہ دوں گی یہ بُوکھاری ہی ہیں۔ اب خوش؟"۔ میں نے گاڑی کے ایکسلیٹر کو دبا دیا۔ دھواں سلنسر سے نکلتا ہے تو راحت سی ملتی ہے۔
ساحل پر پہنچے۔ ساحل خالی تھا۔ انٹری گیٹ پر کوئی نہیں تھا۔ ٹورسٹ سیزن آف ہے۔ پندرہ اپریل سے ساحل کھُلے گا۔ وہاں نہ کوئی بندہ بشر نہ کوئی ذی روح۔ ہم دو بس۔ میں نے کہا کہ چلو اچھا ہے۔ ذرا ساحل پر ٹہلتے ہیں۔ کچھ وقت گزارتے ہیں۔ میں انٹری بیرئیر پھلانگ گیا۔ ہم دونوں ساحل پر اتر گئے۔ ابھی دو چار منٹ ہی گزرے تھے کہ دور سے ایک ساحلی موٹرسائیکل پر سوار شخص آتا دکھائی دیا۔ وہ تین پہیئوں والی موٹر پر سوار تھا جو ریت یا ساحل پر گشت کے لئے ہوتی ہیں۔ وہ جب پاس آیا تو وہ جندرما تھا۔ اس نے پاس آتے ہی ہاتھ کے اشارے سے ہمیں جانے کا کہا۔
پھر یہ جان کر کہ ہم فارنرز ہیں وہ انگریزی میں بولا " ساحل بند ہے۔ آپ یہاں نہیں رک سکتے۔ یہاں سے جائیں "۔ میں نے اسے جواب دیا کہ ٹھیک ہے۔ بیگم کو کہا کہ چلو یار کہیں اور چلتے ہیں۔ بیگم نے اب کے منہ بنا لیا اور بولی " ہاں، اب یہاں بھی نہیں رک سکتے۔ آپ سے کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہوتا۔ مصباح کا شوہر " اس سے قبل کہ وہ مصباح کے شوہر کا کوئی قصہ سناتی میں تپ گیا۔
میں مڑا اور جندرما کے پاس پہنچا۔ ٹورسٹ پولیس کی انگریزی سیاحوں کو ڈیل کر کے بہتر ہو چکی ہوتی ہے۔ میں نے مسکین سی صورت بنائی۔ عینک اتاری۔ آنکھوں کو نمناک کرتے بولا " سر، ہم دونوں پاکستان سے یہ خوبصورت ساحل دیکھنے آئے ہیں۔ اگر آپ صرف دس منٹ گزارنے دیں تو میری بیگم کی دلی خواہش پوری ہو جائے گی۔ اگر آپ شادی شدہ ہیں تو میری مجبوری سمجھ سکتے ہیں۔ یہاں سے بنا تصویریں بنوائے واپس چلے گئے تو سارا راستہ وائف مجھے معاف نہیں کرے گی اور میں آپ کو معاف نہیں کروں گا۔ یوں بھی میری بیگم کو مصباح نامی مرض لاحق ہے۔ نجانے کب مصباح کا دورہ پڑ جائے۔ سو پلیز"
جندرما نے سنا۔ اس کو لگا ہو گا کہ شاید مصباح نامی کوئی مہلک بیماری ہوتی ہے۔ ہلکا سا مسکرایا اور میری مجبوری کا احساس کرتے اس نے مصافحہ کرنے کو ہاتھ آگے بڑھایا۔ میں نے ہینڈ شیک کیا تو اس نے میرا ہاتھ تھامے ہوئے کہا " اوکے۔ تیس منٹ دیتا ہوں۔ بنا لو تصویریں۔ انجوائے "۔ پھر وہ واپس مڑا اور جاتے جاتے ہاتھ کے اشارے سے تھمبز اپ کا نشان دکھاتا گیا۔ اس کے چہرے سے ایسی خوشی چھلک رہی تھی جیسے انسان کسی مجبور انسان کی مدد کر کے خوش و مطمئن ہوتا ہے۔
ساحل پر ہم دونوں پھرتے رہے۔ ٹرائی پوڈ پر موبائل لگا کر تصویریں لے لیں۔ ایک گھنٹہ بیت گیا۔ بیگم خوش ہو گئی تو میں نے کہا کہ چلو اب چلیں اس سے قبل کہ پولیس والا پھر آ جائے۔ ہم واپس کار پارکنگ کی سمت چلنے لگے۔ اتنے میں سیٹی بجی۔ مڑ کر دیکھا تو وہی جندرما پھر ساحلی گاڑی پر سوار چلا آ رہا تھا۔ ہم رک گئے۔ وہ پاس پہنچا۔
"تم دونوں جتنی دیر چاہو رک سکتے ہو۔ " اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"بہت شکریہ۔ بس گھوم لیا ہم نے۔ اب چلتے ہیں "۔ میں نے بھی مسکراتے جواب دیا
"اچھا۔ مگر رکنا چاہو تو رک سکتے ہو۔ میں سمجھ سکتا ہوں تم بہت دور سے آئے ہو۔ میں بھی شادی شدہ ہوں اور اپنی بیوی کے ساتھ کبھی کبھی پکنک منانے جاتا ہوں مگر میری بیوی بالکل صحتمند ہے۔ " یہ کہہ کر وہ دھیما سا مسکرایا۔ میں نے اس کو گلے لگایا۔ دونوں شوہروں نے ایک دوجے کو شکریہ کہتے مسکراتے ہوئے الوداع کہا۔ اُلوڈنیز کے ساحل پر شام ڈھل گئی۔