Thursday, 09 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Noor Muhammad Naila Aur Main

Noor Muhammad Naila Aur Main

نور محمد، نائلہ اور میں

اس داستان کے تین کردار ہیں۔ سپاہی نور محمد، پولیو ورکر مس نائلہ اور میں۔ واقع ہے اندون بھاٹی گیٹ لاہور کی تنگ و تاریک گلیوں کا جہاں بلند و بالا پرانی عمارتوں کے بیچ نہ دھوپ اترتی ہے نہ ہوا بہتی ہے۔ سپاہی نور محمد پولیس اہلکار ہے۔ عمر 47 سال، رنگ سانولا، قد چھ فٹ کے لگ بھگ، جسامت چست، پہلی نظر میں دیکھنے پر وہ دبلا پتلا مسکین سا انسان معلوم ہوتا ہے۔

کاندھے پر رائفل لٹکائے یہ میرے سکیورٹی پروٹوکول کا حصہ تھا۔ مجھے اندرون بھاٹی گیٹ پولیو مہم کی اپنے ادارے کی جانب سے مانیٹرنگ و کوریج کرنا تھی۔ سیکیورٹی اسکواڈ بھاٹی گیٹ تھانے نے مہیا کرنا تھا۔ چونکہ ان تنگ گلیوں میں پولیس ڈالا نہیں جا سکتا تھا۔ لہذا میں نے باقی اہلکاروں کو وہیں چھوڑ دیا اور ایک سپاہی برائے کاغذی پروٹوکول ساتھ لے لیا۔

مس نائلہ پولیو ورکر ہے۔ عمر لگ بھگ 24 سال، اندرون بھاٹی کی گلیوں کا مکمل نقشہ اس لڑکی کے دماغ میں محفوظ ہے۔ کس گھر میں کتنے بچے ہیں، ان بچوں کی عمریں کیا ہیں، حتی کے اکثر بچوں کے ناموں سے بھی واقف ہے۔ مس نائلہ نے نقاب اوڑھ رکھا تھا اور ہم دونوں اس کے پیچھے پیچھے گلی گلی، گھر گھر، بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کو چلتے جاتے تھے۔

وہ قطرے پلاتی جاتی، میں تصاویر لئے جاتا اور نور محمد ہر دو گام پہ اپنی ڈھیلی پینٹ کو ہاتھوں سے کھینچ کر اوپر چڑھاتا رہتا پھر اپنے کاندھے سے کھسکتی رائفل کو اپنے کاندھے پر دوبارہ فٹ کرتا۔ یہ شدید حبس کا دن تھا۔ دن کے دس بج رہے تھے۔ تینوں پسینے میں بھیگتے اپنا کام سرانجام دے رہے تھے۔ کام کا آغاز ہوئے ابھی آدھ گھنٹہ ہی بیتا ہو گا کہ سپاہی نور محمد میرے پاس آ کر پنجابی میں دھیما سا بولا " سر جی، کام کتنے بجے تک ختم ہو جائے گا؟

اصل میں مجھے شام کو بہاولنگر کی بس پکڑنی ہے۔ میری صبح عدالت پیشی ہے، سرکاری کام ہے"۔ یہ سن کر میں نے بس اتنا ہی کہا، بہاولنگر میں عدالت پیشی؟ وہ کیسے؟ بس صاحبو یہ پوچھنا ہی میرا قصور تھا۔ نور محمد کا جواب آیا، 8 سال پہلے میں وہاں ڈیوٹی کرتا تھا پھر بڑی مشکل سے لاہور ٹرانسفر کروا لی۔ سر جی وہاں ایک گاؤں ہے جس کے اکثر لوگ ڈاکو ہیں۔ ایک خاندان ایسا ہے جو ان سب کا سرغنہ تھا۔ اس خاندان کے بڑے ڈاکو کا نام مختیارا ڈاکو تھا۔

ابھی نور محمد نے قصے کا آغاز ہی کیا تھا کہ مس نائلہ بیچ میں بول پڑیں، سر وہ بچہ منہ نہیں کھول رہا۔ میں نے مس نائلہ کی طرف اپنی توجہ مبذول کی، بچے کے قریب جا کر اسے سمجھایا کہ بیٹا یہ قطرے میٹھے ہیں شاباش پی لو۔ بچے نے رونا شروع کر دیا تو میں نے اپنے کیمرے سے اسے پولیو کے قطرے پیتے بچوں کی تصاویر دکھانی شروع کیں۔ تصاویر دیکھ کر بچے کا موڈ بدلا۔ اس نے پرسکون ہو کر قطرے پیئے اور میں نے اس کی تصاویر لے لیں۔

مشن مکمل کر کے ابھی کیمرا واپس کاندھے پر ڈالا ہی تھا کہ نور محمد عقب سے آ کر بولا " سر جی، گاؤں والے سب ایک دوسرے کے ساتھی ہوتے تھے، پولیس نے اگر کبھی اس طرف جانا تو بچے بھاگ کر بڑوں کو اطلاع پہنچا دیتے یوں سارے ڈاکو ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی غائب ہو چکے ہوتے۔ مس نائلہ عین بیچ میں آ کر پھر گونجی " سر دوسرا بچہ ریڈی ہے اور منہ کھولے کھڑا ہے۔

میں نے مس نائلہ کو دیکھا اور ایک نظر بچے کو دیکھا جو سچ میں چہرہ آسمان کی جانب کیئے منہ کھولے اپنے گھر کی دہلیز پر کھڑا تھا۔ یہ سین دیکھ کر مجھے ہنسی آ گئی۔ میں نے مس نائلہ کو کہا کہ مس جی، بچوں کے منہ پہلے نہ کھلوایا کریں جب ڈراپس ڈالنے ہوں تب ان کو کہا کریں۔ مس نائلہ نے تورنت جواب دیا " سر آپ نے خود ہی تو کہا کہ بچوں کو ریڈی کر کے قطرے پلانے سے پہلے مجھے بتانا ہے۔

مجھے مس نائلہ کے آئی کیو لیول پر شک گزرنے لگا مگر پھر خیال آیا کہ ان کی میموری تو شارپ ہے۔ لیکن ان کے برین کی ڈیٹا پراسیسنگ کافی سست ہے۔ اس منہ کھولے بچے کو قطرے پلا دیئے۔ ابھی اس کی تصاویر کا کیمرے کی بیک سکرین پر معائنہ کر رہا تھا کہ نور محمد گونجا " سر جی گاؤں کیا تھا؟ شکاری کتے گاؤں کی گلیوں میں چھوڑے ہوتے۔

وہاں سے گزرنے والے ان کتوں سے ڈرا کرتے تھے۔ کتے ہر اجنبی کو کاٹ ڈالتے۔ پولیس کو دیکھتے ہی پیچھے بھاگنے لگتے۔ گاؤں کی خواتین اول نمبر کی ڈرامے باز تھیں۔ پولیس جاتی تو وہ اپنے ڈوپٹے اتار کر باہر نکل آتیں اور گریبان پھاڑنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے شور مچا دیتیں۔ سر جی ایک بار تو ایسا ہوا کہ"۔ مس نائلہ نے پھر دہائی دی " سر جی ایک اور بچے کا منہ کھلوایا ہوا ہے جلدی کریں۔

جس بچے کا منہ کھلوایا ہوا تھا وہ بت بنا مجھے دیکھتا جا رہا تھا۔ یہ پانچ سال کا بچہ تھا۔ میں نے اسے کہا کہ بچے جب قطرے پینے لگو تو تھوڑا سا ہنس کر پینے ہیں۔ اس سے تمہاری تصویر بڑی اچھی آئے گی۔ اوکے؟ وہ بت بنا بچہ یہ سنتے ہی پنجابی میں بولا " تھیتی تر، میں تاعدہ پڑھن تانا اے" (جلدی کرو مجھے قاعدہ پڑھنے جانا ہے)۔ اس بچے کو جیسے ہی قطرے پلانے لگے اس نے روتے ہوئے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ میں اسے چپ کروانے کو سمجھانے لگا۔

سپاہی نور محمد نے موقع کی نزاکت بالکل نہ جانچی، عقب سے میرے کان کے اوپر آ کر بولا " سر جی، ایک دفعہ پولیس چھاپہ مارنے گئی، میں بھی پارٹی میں شامل تھا۔ ایک شکاری کتا بھاگتا ہوا میرے پیچھے لگ گیا۔ مجھے اور کچھ نہ سوجھا تو میں نے ایک بڑا سا پتھر اٹھا کے اسے مارا۔ اس نے پتھر کھا کر رخ بدلا اور دوسرے سپاہی کے پیچھے پڑ گیا۔ بس سر جی اس دن ان کتوں سے بچنے کو ہوائی فائر کرنا پڑے۔ مختیارا ڈاکو فائر کی آواز سن کر اپنے گینگ کے ساتھ فرار ہو گیا۔

سچ پوچھیں تو اب مجھے نور محمد کے قصے سے الجھن ہونے لگی تھی۔ حبس و گرمی نے حالت غیر کر رکھی تھی۔ اسی دوران مس نائلہ نے ایک بچے کو انگلی لگائے میرے پاس آ کر کہا، سر ایک اور بچہ آ گیا ہے۔ بچہ افلاطونی تھا۔ اس نے میرے گلے میں لٹکے کیمرے کے لینز پر اپنی چکنائی بھرے انگلیاں پھیر دیں۔ میں بچے سے تھوڑا پیچھے ہٹا، لینز صاف کیا اور اس بچے کو قطرے پلاتے تصاویر لینے لگا۔

یہ سلسلہ وقفے وقفے سے چلتا رہا، بچے آتے جاتے رہے، مس نائلہ ان کے منہ کھلواتی رہیں اور سپاہی نور محمد کا قصہ چلتا رہا۔ جس سے اب مجھے یوں الجھن ہونے لگی تھی کہ وہ گاؤں کی گلیوں محلوں اور کھیتوں کی تفصیلات یوں بتاتا جیسے میں نے اس گاؤں کی چھوٹی چھوٹی تفصیلات لے کر نقشہ بنانا ہے یا پینٹنگ بنانی ہے۔ دوپہر ہونے کو آئی تو نور محمد چل چل کے تھک گیا۔

وہ ایک گھر کی دہلیز پر بنی بیرونی سیڑھیوں پر دور جا بیٹھا۔ میں بھی تھک چکا تھا۔ میں نے سائے میں ایک تھڑے پر تشریف رکھ دی۔ مجھے بیٹھا دیکھتے ہی نور محمد پھرتی سے میرے پاس آیا "سر جی، آپ غور سے سن نہیں رہے، میں نے زبردستی کا مسکراتے ہوئے کہا " سن رہا ہوں۔ بات ڈکیتی تک پہنچی تھی شاید ایک جگہ ڈکیتی ہو رہی تھی۔

نور محمد کی آنکھیں چمکیں، اس میں توانائی عود آئی۔ ایکدم فریش ہو کر بولا " رات دو بجے مخبری ملی کہ مختیارا آج اپنے گھر آئے گا۔ بس سر جی ایس پی صاحب نے ناکے لگوائے گاؤں کو گھیرا ڈالا۔ سنسان رات سر جی، کتے بھی سوئے پڑے تھے، پولیس آہستہ آہستہ مختیارے کے ڈیرے کی طرف بڑھی۔ سر جی، اور کتنے بچے کرنے ہیں؟ مس نائلہ عین سامنے آ کر بولی، بس دو چار بچے مزید پھر ریسٹ کرتے ہیں، میں نے نور محمد سے توجہ ہٹاتے ہوئے اسے جواب دیا۔

بس سر جی، فائر ہوئے، فائرنگ کھلی، مختیارے گینگ نے فائر کھول دیا۔ ایس پی صاحب نے آپریشن کو خود لیڈ کیا۔ ایک جوان کو گولی لگی تو سر جی ایس پی صاحب نے کہا کہ آج سارا گینگ "پار" لگا کر ہی واپس جانا ہے۔ سر جی اتنی شدید فائرنگ تھی کہ لگتا تھا آج کوئی نئیں بچنے والا۔

یار نور محمد تم کٹ شارٹ کر کے بتاو فائنلی کیا ہوا؟ صبح 10 بجے سے سنا رہے ہو دوپہر کا 1 بج رہا ہے۔ مجھے گاؤں کا سارا نقشہ یاد ہو چکا ہے اب آخری سین سنا دو بس۔ میں انتہائی بیزاری سے بولا، نور محمد ایکدم چوکنا ہوا، سر صبح 4 بجے مختیارے، اس کے دو بھائیوں، اور چار گینگ ممبروں کی لاشیں ہمارے سامنے پڑیں تھیں۔ پولیس کا ایک جوان زخمی ہوا تھا۔ بس سر پھر ان کے وارثین نے عدالت میں ماورائے عدالت قتل کا کیس کر دیا۔ 8 سال سے اسی کی پیشیاں چل رہی ہیں۔

اچھا، تو تم نے آج شام بہاولنگر جانا ہے۔ میں نے قصہ ختم ہونے پر شکر ادا کرتے استفسار کیا۔ یہ میری دوسری غلطی تھی۔ نور محمد بولا " سر جی پہلی چار پیشیوں پر تو ایس پی صاحب کی خلاصی ہو گئی ان کو پیش ہونے سے رخصت مل گئی۔ باقی پولیس پارٹی آج تک بھگت رہی ہے۔ سر جی ایک بار تو جج صاحب نے مجھے اشتہاری قرار دے دیا تھا۔

میں نے تین پیشیاں اس لئے نہ بھگتیں کہ میرا ٹرانسفر لاہور ہو گیا تھا۔ جج صاحب نے کہا، مس نائلہ کی بیچ میں آواز آئی " سر ایک بچے نے منہ کھولا ہوا ہے" میں نے دونوں سے تنگ آتے ہوئے جواب دیا، ادھر نور محمد نے بھی صبح سے منہ کھولا ہوا ہے۔ ان دنوں نے سنتے ہی قہقہہ لگایا تو میں نے دونوں کی چھٹی کروا دی۔ کام تمام ہونے کا اعلان کیا۔

مس نائلہ تو وہیں سے رخصت ہو لیں۔ نور محمد پیدل چلتا میرے ساتھ بھاٹی گیٹ تک آیا۔ تھانے کے سامنے پہنچ کر اس نے اپنی ڈھیلی پینٹ پھر سے اوپر چڑھائی اور بولا " چائے تو پی کر جائیں " میں نے جواب دیا " ایک شرط پر، کہ تم اب بہاولنگر کا قصہ نہیں سناؤ گے" تھانے کے باہر اس کے ساتھ کھڑے اسکوارڈ کے دونوں سپاہی ہنس ہنس کر دھرے ہونے لگے اور جب ان میں سے ایک کی ہنسی سنبھلی تو وہ بولا۔

بھولے بادشاہو، اے تے ہر کسے نوں ایہو ای قصہ سنا دا اے۔ ایس نے کہیا ہونا اے کہ شامی بہاولنگر دی بس پھڑنی اے؟ ہے ناں؟ میں نے حیرت سے کہا " ہاں یہی کہا اس نے" نور محمد نے کاندھے سے کھسکتی رائفل سیدھی کی اور بولا، سر جی اے مخولیئے نیں بس۔ تسی جاؤ گھر آرام کرو۔ میں نے ان تینوں سپاہیوں کو ایک نظر غور سے دیکھا۔ دو ہنس رہے تھے اور نور محمد ان کے بیچ پہلی بار انتہائی سنجیدہ کھڑا نظر آ رہا تھا۔

میں واپس گھر لوٹ آیا، میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ قصہ نور محمد سچ ہے یا جھوٹ مگر یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ سپاہی نور محمد قصہ گوئی کے ذریعے وقت گزارنا جانتا ہے۔ یہ فن اس نے شاید ڈیوٹی پر رہتے دن بتانے کو سیکھا ہے۔

Check Also

Mehboob Se Ghair Mehboob

By Saadia Bashir