Thursday, 09 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Neutral Rehana Ho Ga

Neutral Rehana Ho Ga

نیوٹرل رہنا ہو گا

گذشتہ دنوں ایک خبر پڑھنے کو ملی کہ ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری دوستی والا چین ہم سے ناراضگی کا اظہار کر رہا ہے۔ اسی سلسلہ ناراضگی کی پہلی قسط میں پاکستان کو گلوبل ڈیولپمنٹ سمٹ میں شرکت کی دعوت نہ دینا ہے۔ جبکہ ایتھوپیا، تھائی لینڈ اور فجی جیسے ممالک شریک ہوئے۔ ایک ایسی دنیا جس میں پاکستان منی سے زیادہ بدنام ہوا۔

جہاں کئی برس سے خلیجی عربوں اور ترکی وغیرہ کے علاوہ کوئی اور ملک سرمایہ کاری سے گھبراتا ہو۔ جس کی سب سے بڑی کامیابی گذشتہ دس برس میں یہ ہو کہ وہ کرپشن کی عالمی رینکنگ میں دوسرے سے چھٹے نمبر پر آ گیا۔ جسے نائن الیون کے بعد امریکا نے کثیر امداد تو دی مگر ساتھ میں کئی جائز ناجائز کام بھی تھما دئیے۔ دولت مند برادر ممالک نے رعایت تو دی مگر ایسے جیسے گھر کے چھوٹے کو بخشش دی جائے۔

ایسی فضا میں اگر چین جیسی اقتصادی سپر پاور کندھے پر ہاتھ رکھ کے کہہ دے، کوئی بات نہیں میں ہوں ناں، کچھ دیر تو یقین ہی نہ آئے گا کہ یہ خواب ہے کہ حقیقت کیا میں بھی کسی قابل ہوں، مجھ پر بھی کوئی بھروسہ کرسکتا ہے۔ کیا کوئی مجھے بھی کہہ سکتا ہے کہ نیچے کیوں بیٹھے ہو میرے برابر بیٹھو اٹھو بیٹا آنکھیں کھولو، کوئی لنچ فری نہیں ہوتا، ملک یاری پر نہیں مفادات و ترجیحات پر چلتے اور پلتے ہیں۔

ملک عبدالستار ایدھی یا مدر ٹریسا نہیں خالص کاروباری ہوتے ہیں۔ ملک ایک دوسرے کے لیے بیساختہ نہیں مسکراتے۔ ان کی پیار بھری نگاہوں میں بھی معنی خیزی بھری ہوتی ہے۔ ملک ایک دوسرے سے اچھی اچھی باتیں ضرور کرتے ہیں۔ لیکن ان قصائد کے ظاہری و پوشیدہ مطالب میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ جو سمجھ گیا وہ تیر گیا جو نہ سمجھا ڈوب گیا۔

تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ ایک چین ہی ہے، جس سے دل کو چین ہے۔ اور یہ تو سب نے دیکھ لیا کہ چینی صدر کا کیسا شاندار استقبال ہوا تھا کہ امریکی صدر آئزن ہاور کا 1959 کا استقبال بھی ماند پڑ گیا، جب کراچی کے ہر اونٹ کے گلے میں تھینک یو امریکا کی تختی لٹک رہی تھی۔ ہاں چین پاکستان دوستی تب سے ہے۔ جب چین بین الاقوامی براداری میں اچھوت تھا اور آج پاکستان کی بھی کم و بیش وہی پوزیشن ہے۔

ایک دوست کے کندھے کو عالمی سطح پر مضبوط سیاسی و اقتصادی و ویٹو پاور ہاتھ کی ضرورت تھی اور دوسرے کو اپنی درآمد و برآمد کے لیئے آسان اور محفوظ مختصر راہداری کی باقی سب افسانہ ہے۔ یہ ہے "باہمی دلچسپی کے تعلقات" یا مشترکہ مفادات، اس لئے آپس میں پیشگی گتھم گتھا ہونے، جھوٹ میں سچ ملا کر بطور کامیابی پیش کرنے، دو اور دو پانچ دکھانے اور طفل چالاکیاں کرکے گدلا پانی اور گدلا کرنے سے فائدہ؟

پیسہ توڑتا بھی ہے، اور جوڑتا بھی ہے۔ آپ بس پہلے آنکھیں کھولیئے۔ کوئی شے ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری نہیں، ایک ایسا ملک جس کی خارجہ پالیسی سات دہائیوں سے ٹینس کے امپائر مافق کبھی گردن دائیں گھمائے کبھی بائیں، کبھی امریکا کبھی چین۔ اس ملک کی دو مونہی پالیسیز کو کوئی کب تک برداشت کرے گا؟ دنیا بدل گئی، کولڈ وار میں عالمی طاقتیں اپنی ریڈ لائنز واضح کھینچ چکی ہیں۔

ایسی صورتحال میں پاکستان کو یا تو اصولی و عملی طور پر نیوٹرل رہنا ہو گا یا پھر اپنی سائیڈ منتخب کرنا ہو گی۔ ڈالرز امریکا سے چاہئیے اور یاری چین سے امریکا کی پراکسی سعودیہ سے ایڈ آپ جیب میں اور ایوارڈز آپ گلے میں ڈالیں اور اقتصادی تعاون چائنہ سے مانگیں۔ نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔

Check Also

Mehboob Se Ghair Mehboob

By Saadia Bashir