Neck To Neck Muqabla
نیک ٹو نیک مقابلہ
مذہب کے خود ساختہ ٹھیکیداروں سے میری ہمدردی، الفت یا محبت کبھی نہیں رہی۔ دین مکمل ہو چکا اور سلسلہ ہدایت تمام ہو چکا۔ کتاب نازل ہو چکی۔ احادیث کی کُتب موجود ہیں۔ فقہی مسائل پر تفصیلی کتب موجود ہیں جو انسان جس فقہ کا فالور ہے وہ اپنی فقہ پر عمل کرتا رہے۔
خیر، میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ مجھے اسکالرز کے سوا کسی جبہ و دستار والے سے کوئی خاص ہمدردی نہیں۔ انہی جبہ و دستار والوں نے نفرتوں کے پہاڑ کھڑے کئے ہیں اور بدعتیں پھیلائیں ہیں۔ اسکالرز کا معاملہ اور ہوتا ہے۔ وہ آپ کو دین کی روح بتاتے ہیں مسئلے مسائل نہیں۔ مجھے انڈیا کے مفتی عبد الغنی اظہری، مولانا وحید الدین خان، لکھنو سے ڈاکٹر قلب صادق، ایران کے ڈاکٹر علی شریعتی، مصر جامع الازہر کے پرنسپل محمد احمد الطیب اور پاکستان میں مولانا اسحاق اوکاڑوی مرحوم نے متاثر کیا گو کہ مولانا اسحاق تاریخی و فقی مسائل بھی بتاتے تھے مگر ان کا ایٹ لارج سکیل نقطہ نظر بہت معتدل اور واضح ہوتا تھا۔ یا پھر مولانا مودودی سے متاثر رہا۔
میں جس خاندان میں پیدا ہوا وہ کٹر مذہبی خاندان تھا۔ مجھ سے زیادہ شیعہ منبر سے کوئی آشنا نہیں اس کی ایک وجہ تو یہ کہ میری جوانی مجالس منعقد کرواتے شیعہ خطیبوں اور ذاکروں کو ہوسٹ کرتے، سُنتے اور بھگتاتے گزری ہے۔ جہاں جہاں مذہب ہوگا وہاں وہاں کہانیاں ہوں گی۔ یہ صرف مسلمانوں کی بات نہیں۔ اُمت کو اگر شیعہ و سنی دو حصوں میں دیکھا جائے تو میرا یہ حتمی نتیجہ ہے کہ کہانیاں سُننے اور کہانیاں کرانے میں شیعہ اور بریلوی منبر یکساں اور برابر جوڑ کے ہیں۔ نیک ٹو نیک مقابلہ ہے۔ اس کے بعد باقی دینی بھائی آتے ہیں۔
ان مناظروں، چڑی چھکوں، مولویوں، ذاکروں، نعت خوانوں اور ان کے آپسی چیکا چیکی سے آگے چلو۔ ایک بہترین قول ہے " اپنا دین چھوڑو نا دوسرے کا چھیڑو نا"۔ ہاں البتہ یہ کہانیاں کرانے والوں اور غیر منطقی یا مافوق الفطرت قصے سنانے والوں سے ضرور بیزاری اختیار کرو کیونکہ ایسوں کے سبب منبر و مذہب بدنام ہوتا ہے اور جگ ہسائی ہوتی ہے۔
صرف یہی نہیں۔ کہانیاں بہت سے طبقہ ہائے فکر کی جانب سے کرائی جاتیں ہیں کیونکہ یہ بزنس ہے۔ یہ کٹر مسلکی و مذہبی لوگوں سے پرے ایک اور قسم کا طبقہ ہے جو "صوفی" کے بینر تلے کہانیاں کراتا ہے۔
صوفی برکت علی صاحب فرماتے تھے "پاکستان کی نہ میں دنیا کی نہ ہوگی اور پاکستان کی ہاں میں دنیا کی ہاں" یعنی پاکستان ہی ورلڈ آرڈر تشکیل دے گا۔
آپ دیکھیئے کہ دنیا کا بخشو اور ورلڈ آرڈر؟
پروفیسر رفیق اختر صاحب نے پیشگوئی فرمائی کہ میرے حساب سے قیامت آج سے 345 سال بعد آنی ہے۔ آپ ہی بتایئے حق کہا ہے ناں؟ انہوں نے کونسا 345 سال بعد ہونا ہے جو شرمندہ ہوں۔ بس کہنا تھا کہہ دیا اور بالفرض محال زندہ ہوں بھی تو حیلے بہت۔ اس قوم نے کونسا کسی سے حساب مانگا ہے۔۔
قدرت اللہ شہاب نے فرمایا کہ امت کے نشاۃ ثانیہ کی ابتدا یہیں سے ہوگی۔ پاکستان ہی رہنمائی کرے گا اور تو اور یہ قوم ان کے 90 جن اور بملا کماری کو بھی ہضم کر گئی۔ 90 نامی جن شہاب صاحب کے پاس آن کر غیب کی سیاسی و سماجی خبریں دیا کرتا تھا جس پر ایک مکمل باب انہوں نے "شہاب نامہ" میں لکھ دیا ہے۔ جن کا نام بھی نائنٹی ہے بڑا حسابی جن تھا۔ خدا اس کے درجات بلند فرمائے۔
آپ صوفیوں کے اقوال ذریں تو دیکھیں اور ان کی قوم کو دی جانے والی روحانی ہدایات۔ آپ کا ہاسا نہ نکلا تو کہیے گا۔ اس قوم کی ذہنی پرورش کیسے کیسے اور کن کن ہتھیاروں سے کی گئی ہے۔ اس قوم کو کیسے کیسے فرسودہ اور غیر حقیقی قصوں میں الجھایا گیا ہے۔ لیکن بلاشبہ یہ عظیم صوفی ہیں اور ان کی روحانیت کا فیض جاری ہے۔ آپ ان سب مولویوں اور صوفیوں کو مقدسات میں لپیٹیں یا ان کی دستار بندی فرماویں۔ کوئی مسئلہ نہیں۔ جاری رکھیں۔ مگر آئینہ دیکھنے میں بھی تو حرج نہیں ہوتا کہ اپنی صورت کیا بن چکی ہے۔
میں کہتا ہوں کہ اگر پیشگوئیاں کرنے والا صوفی ہوتا ہے تو پھر دنیا میں آنجہانی ناسٹرے ڈیمس سے بڑا صوفی کوئی نہیں گزرا اور مناظرے کرنے سے کوئی مذہب یا مسلک غالب آ سکتا تو پھر اتنے فرقے وجود ہی نہ رکھتے۔ قسم ہے پیدا کرنے والے کی کہ ان مولویوں، مفتیوں، خود ساختہ صوفیوں، ذاکروں، مناظروں وغیرہ وغیرہ نے دنیا اور انسانیت کو آج تک نہ کوئی پراڈکٹ دی ہے نہ کوئی مثبت تبدیلی دے کر جائیں گے۔ یہ بس اپنے جیسے چند کٹر و بند دماغ پیدا کرکے دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ پیچھے چھوڑ جاتے ہیں سپاہِ جہل جو فیسبک پر صبح شام اپنے عقائد کی تبلیغ میں لگی رہتی ہے۔