Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Nanha Insafi Mashoor Ho Gaya

Nanha Insafi Mashoor Ho Gaya

ننھا انصافی مشہور ہو گیا

حد ہی مُک گئی بھئی۔ آج دیوسائی جاتے شتنگ نالہ سٹاپ پر ذرا دم بھرنے کو رکا۔ گاڑی سے باہر نکل کر بیٹھے۔ وہاں کراچی سے آئے ایک بڑے سے گروپ کی لڑکیاں بیٹے یعنی ننھے انصافی کو پہچان گئیں۔ میری توحیرت کی انتہا نہ رہی۔ اس کی میرے ساتھ انٹرویوز کی ویڈیوز لوگوں نے ٹوئٹر، یوٹیوب اور پتہ نہیں کہاں کہاں شئیر کر رکھی ہیں۔

لڑکیوں نے کاکے کو گھیر لیا۔ اس کے گال کھینچے، اس کے ساتھ تصویریں لیں اسے پیار کیا اور میں دور بیٹھا دیکھتا رہا۔ کاکے نے مجال ہے کہ کہا ہو کہ وہ بابا بھی سامنے بیٹھے ہیں۔ وہ تو انہوں نے خود ہی مجھے پہچان کر دور سے ہی گردن ہلائی تو میں نے بھی بیٹھے بیٹھے گردن ہلا کر جواب دے دیا۔ کوئی میرے پاس نہیں آئی۔

پھر ایک درمیانے عمر کی خاتون نے مجھے دور سے ہی کہا " آپ بھی پی ٹی آئی کو سپورٹ کرو بھائی"۔ میں نے یہ سُن کر انہیں دور سے ہی "جی باجی" کہہ دیا۔ مگر اس کے پیچھے جو لڑکیوں کا گروپ تھا انہوں نے مجھے یوں غصیلی سی نظروں سے گھور کے دیکھا جیسے میں حافظ مہدی بخاری ہوں۔ غضب خدا کا انہوں نے دیوسائی میں میرے کاکے کو گھیر کر پی ٹی آئی زندہ باد کا نعرہ بھی لگایا۔

جیسے ہی وہ گروپ رخصت ہوا کاکا ہمارے پاس آیا۔ اس نے اپنے بال درست کیے اور یوں ہیرو گیری کرنے لگا جیسے میں اس کا کاکا ہوں اور وہ میرا باپ ہے۔ اس کا اٹیچیوڈ ہی ایکدم الگ سا ہوگیا تھا۔ میں اسے نوٹس کرتا رہا۔ وہ تو اور ہی ہواؤں میں اڑ رہا تھا۔ کبھی بال سنوارتا کبھی منہ دھونے جاتا کبھی ٹشو سے چہرہ گاہے گاہے صاف کرتا۔ بیٹی نے اسے کہا بھی کہ تم سلیبرٹی نہیں بنے ابھی ذرا سکون سے بیٹھ جاؤ اب۔ مگر اس نے بہن کو بھی گھاس نہیں ڈالی۔

وہاں سے نکلا تو سڑک کنارے مارموٹ اپنے بِل سے باہر آئے ملے۔ وہ تو دو ٹانگوں پر کھڑے اور اگلی دو ٹانگیں باندھے یوں تھے جیسے انسان نماز میں ہاتھ باندھے کھڑا ہوتا ہے۔ ایک مارموٹ کے پاس کاکا گیا تو مارموٹ نے سیٹی مار دی۔ بس پھر کاکے کو وہ پسند آ گیا اور حسن اسے بسکٹ کھلانے کو اس کے پیچھے ہی پڑ گیا۔ مارموٹ نے بچے سے جان چھڑوانے کو دوڑ لگا دی اور اپنے بِل میں گھُس گیا۔ مگر کاکا بھی ایسا ضدی نکلا کہ بسکٹ ہاتھ میں لیے اس کے بِل کے اطراف چکر لگاتا رہا اور اسے پکارتا رہا۔ مسئلہ بس یہ کہ اسے مارموٹ پسند آ گیا تھا اور اس نے اسے بسکٹ کھلانا تھا۔

مارموٹ بِل سے باہر جھانکتا اور بچے کو کھڑا دیکھ کر پھر واپس گھُس جاتا۔ یہ سلسلہ طویل ہونے لگا تو میں نے آواز دی کہ حسن گاڑی میں بیٹھو ورنہ میں چھوڑ کے چلا جاؤں گا۔ مگر اس نے کوئی توجہ نہ دی اس کی ساری توجہ مارموٹ کے بِل پر مرکوز تھی۔ میں نے ایسے ہی تھوڑی سی گاڑی چلا دی کہ شاید یہ دیکھ کر وہ بھاگ کر واپس آ جائے مگر بے سود۔ مجھے یقین ہے کہ مارموٹ نے بھی زچ ہو کر سوچا ہوگا کہ اس بچے سے جان چھڑوانے کو اس کا بسکٹ کھانا ہی پڑے گا۔ وہ بِل سے نکلا۔ بسکٹ کو ہاتھوں سے چھینا اور فوراً ایک سیکنڈ میں نِگل گیا۔ اس کے بعد کاکا گاڑی میں واپس آ کر بیٹھا۔

جیسے ہی وہ بیٹھا میں نے پوچھا" تمہیں ڈر نہیں لگا کہ میں چھوڑ کے چلا جاؤں گا؟ کتنی آوازیں دیں تم کو مگر تم مست رہے۔ میں سچ میں چھوڑ جاتا۔ آئی سمجھ؟"۔ سُن کر بولا " بابا! کوئی بات نہیں۔ لوگ مجھے جانتے ہیں کوئی نہ کوئی مجھے لفٹ دے ہی دیتا۔۔ "۔ یہ سُن کر تو میری ہٹ ہی گئی۔ اب تک سُلگ رہا ہوں۔

Check Also

Danish Ki Jeet, Bewaqoofi Ki Haar

By Asif Masood