1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Mutasir Kun Aam Kirdar

Mutasir Kun Aam Kirdar

متاثر کن عام کردار

مجھے کچھ لوگ بہت متاثر کرتے ہیں اور یہ کردار عام سے کردار ہیں جو ہمارے اطراف پھیلے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ کارٹون کا لباس اوڑھے مکی ماؤس بنے یا پنک پینتھر بنے وہ لڑکے لڑکیاں جو ریسٹورانٹس، شاپنگ پلازوں یا مالز یا کسی مشہور کیفے کے باہر کھڑے ہاتھ ہلاتے رہتے ہیں۔ آنے جانے والوں کو جھک کر کرتب دکھاتے ہیں یا ہاتھ کے اشاروں سے دور سے بائے بائے یا ویلکم کہتے ہیں۔ اور یہ اس نیت سے "السلام علیکم یا خدا حافظ" نہیں کہتے جس نیت سے ہوٹل کا ویٹر، کار پارکنگ والا یا ریسٹورانٹ کے باہر کھڑا دربان یا دروازہ کھولنے والا کہتا ہے۔ نہ ہی یہ گرمجوشی سے پاس آ کر بولتے ہیں"باؤ جی عید مبارک"۔ یا "باؤ جی خیر نال جاؤ"۔

کوئی کچھ مرضی سے دے جائے تو دے جائے ورنہ میں نے آج تک کسی کارٹونی لباس میں ملبوس لڑکے یا لڑکی کو پاس آ کر کچھ مانگتے یا ٹِپ کی نیت سے سلام لیتے نہیں دیکھا۔ جہاں آپ ہزاروں روپے کھانوں، شاپنگز میں لگا کر نکلتے ہیں وہاں ان کو بھی جاتے جاتے کچھ دے جایا کریں۔ یہ جیسے بھی ہیں ہاتھ تو نہیں پھیلاتے نہ ہی کسی روائیتی یا نئے طریقے سے بھیک مانگتے ہیں۔

اسی طرح وہ ریڑھی بان جو بہت بوڑھا ہے اور سرد راتوں میں مونگ پھلی بیچ رہا ہے۔ یا گرمی کے دن میں پھل بیچ رہا ہے۔ جو بھانت بھانت کی آوازیں لگا کر لوگوں کو متوجہ نہیں کر رہا۔ یا پھر متروک شدہ شعبوں سے تعلق رکھنے والا کاریگر جو آج کے زمانے میں کسی طرح جینے کی مشقت میں پڑا ہوا ہے۔ جیسے موچی، لچھا فروش۔ اب کون شہروں اور بالخصوص پوش علاقوں میں جوتے مرمت کرواتا ہے اور کون لچھا خریدتا ہے۔

آج میں نے ایسا ہی ایک لڑکا دیکھا جو میرے پسندیدہ ترین کردار "جوکر" کا روپ اپنائے کھڑا تھا۔ اس نے جوکر کا لباس نہیں پہنا تھا بلکہ گھسی ہوئی پینٹ شرٹ کے اوپر صرف چہرے پر جوکر کا پینٹ کر رکھا تھا۔ شکل صورت سے وہ ہالی وڈ فلم "جوکر" کے مرکزی کردار جیکوئن فیونکس سے کافی مشابہ معلوم ہو رہا تھا۔ جوکر میرا پسندیدہ کردار ہے۔ لوگ اسے مزاحیہ کردار سمجھتے ہیں مگر دراصل جوکر انتہائی سنجیدہ کردار ہے۔ یہ احساسِ محرومی کا استعارہ ہے۔

وہ مال کے باہر ایک نکڑ میں زمین پر بیٹھ کر اپنے ایک زانو پر رکھا آملیٹ پراٹھا کھا رہا تھا جو اس نے شاپر سے نکالا تھا۔ میں یہ دیکھ کر اس کے پاس گیا اور اس سے پوچھا "انڈہ پراٹھا پسند ہے یا بس یہی ملا اس لیے کھا رہے ہو؟"۔ اس نے گردن اُٹھا کر مجھے دیکھا اور ہنستے ہوئے کہنے لگا "امی نے بنا کر دیا ہے۔ پسند ہے"۔ میں نے پوچھا "کیا کرتے ہو اس کے علاوہ؟"۔ جواب آیا "بی اے کر رہا ہوں پھر ایم اے کروں گا اور نوکری مل گئی تو وہ کروں گا اور کیا کرنا ہے۔ صبح سبزی منڈی میں ایک آڑھتی کے ساتھ کام کرتا ہوں"۔ میں نے پوچھا "اور اگر ایم اے کے بعد نوکری نہ ملی تو کیا کرنا ہے؟"۔ جواب تو اس نے ہنستے ہوئے یہ دیا "پھر دیکھوں گا یا شاید پھر بیٹ مین بن جاؤں"۔  مگر اس کے لہجے میں عجب طنز تھی۔

سامنے ہی پیزا شاپ تھی۔ میں نے کہا "پیزا کھاؤ گے؟"۔ بولا "نہیں، اب تو کھا لیا"۔ میں نے اسے کچھ پیسے دیتے کہا "اچھا سحری میں جو دل کیا وہ اپنی مرضی سے کھا لینا"۔ بولا "نہیں، تب میں گھر چلا جاؤں گا"۔ اس کی صاف گوئی کمال تھی۔ کوئی اور ہوتا تو چپ کرکے رکھ لیتا۔ میں نے پھر اس کو تھماتے ہوئے کہا "چلو، مجھے تمہارا یہ روپ اچھا لگا جوکر والا اس لیے خوش ہو کر دے رہا ہوں، لے لو"۔ پھر اس نے لے لیے۔ اس لڑکے نے بھیک نہیں لی، ہاں اپنے فن کی داد میں لئے ہیں۔ کچھ لوگ راہ چلتے متاثر کر دیتے ہیں۔

Check Also

Professional Life Ki Doosri Innings Bharpoor Khelen

By Azhar Hussain Azmi