Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Murshid Aur Mureed

Murshid Aur Mureed

مرشد اور مرید

پرانی بات ہے۔ ایک دن مجھے کال آئی کہ آپ جمعہ کو پنجاب ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن تشریف لے آئیں ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے پوچھا کس سلسلے میں تو آپریٹر نے بتایا کہ یہ میں نہیں جانتا۔ میں نے سوچا شاید حکومت بدلی ہے تو ٹورازم والوں کو کچھ خیال آیا ہو۔ جمعہ کے روز میں ان سے ملاقات کو نکلا۔ رنگ روڈ پر گاڑی ڈالی ہی تھی کہ ٹریفک وارڈن نے روک لیا۔ سیٹ بیلٹ نہ پہننے پر چالان کاٹنے لگا۔

میں نے اسے کچھ نہیں کہا کیونکہ غلطی تو میری تھی چالان تو بنتا تھا۔ جیسے ہی میں نے اسے اپنا لائسنس دیا تو نام پڑھ کر بولا "سید ہیں آپ، میں آپ کا مرید شاہ جی۔ چالان تو 500 بنتا ہے مگر میں کوڈ بدل کر آپ کو 300 کا کر رہا ہوں"۔ میں نے اسے کہا کہ آپ اپنی ڈیوٹی کرو 500 کا بنتا ہے تو وہی کاٹو۔ آگے سے بولا "شاہ جی شرمندہ نہ کریں۔ سید ہیں آپ۔ ہم آپ کے مرید ہیں تھوڑی رعایت تو بنتی ہے ورنہ گستاخی ہو جائے گی"۔ میں نے دل میں سوچا کہ دانا دوست سے تو عقیدت مند مرید اچھا۔

خیر، چالان کٹوا کے دفتر پہنچا۔ ملاقات ہوئی تو کہنے لگے "شاہ صاحب، آپ ہمیں ٹورازم بہتر کرنے پر تجاویز دیں لکھ کر اور ساتھ ہمیں آپ کا ساتھ بھی چاہیے ہو گا"۔ میں ان کی بات مکمل سمجھ گیا۔ جب کوئی سرکاری افسر کہے کہ "ساتھ چاہیے ہو گا" تو اس کا مطلب ہوتا ہے "الخدمت فی سبیل اللہ فار مملکتِ خداداد الباکستان"۔ میں نے ان سے ہنستے ہوئے عرض کی کہ اگر تجاویز ہی چاہیے تھیں سر تو مجھے فون پر بتا دیتے میں آپ کو pdf بھیج دیتا۔

پانچ سال قبل جب مولانا فضل الرحمٰن کے بھائی عطا الرحمٰن ٹورازم منسٹری کے وزیر تھے تب بھی منسٹری نے یہی تجاویز مانگیں تھی‍ں۔ وہ pdf موجود ہے وہی آپ کو بھی بھیج دیتا۔ 45 کلومیٹر کا سفر کر کے آپ کے پاس پہنچا ہوں راستے میں 300 کا چالان کروایا اور آنے جانے کا 500 کا پٹرول لگا لیں تو میرے کھاتے میں منفی 800 بیلنس ہے آپ کا۔ مزید کیا ساتھ چاہیے آپ کو؟ میری بات مکمل ہوئی تو ڈی جی مسکرا دئیے اور بولے "شاہ صاحب فنکار کب سے ایسے حساب کتاب کرنے لگے ہم نے تو سنا ہے کہ فنکار تو بہت بے پرواہ ہوتا ہے آپ تو کاروباری لگ رہے ہیں"۔

میں نے ہنستے ہوئے عرض کی کہ سر اصل میں حساب کرنا تب شروع کیا جب مجھے بجلی و گیس کے بل آنے لگے اور بیگم کہنے لگی کہ آج جو پکانا ہے وہ لا دیں اور بازار میں مجھے کوئی شے مفت دینے کو تیار نہیں اوپر سے میری گاڑی اگر پانی سے چل جاتی تو ایک فکر تو کم ہوتی مزید برآں بچوں کے اسکول والے فیس نہ آنے پر مفت پڑھانے سے انکار کر دیتے ہیں اور ویسے بھی سر میں ساغر صدیقی نہیں جو غربت کے ہاتھوں فٹ پاتھ پر مر جائے نہ ہی مصطفیٰ زیدی ہوں جو بیورو کریسی میں رہتے ہوئے محبت میں ناکامی پر خود کشی کر لے۔ میں ایک عام انسان ہوں۔

جواب سنتے ہی قہقہہ بلند ہوا اور بولے اچھا 800 ہمارے کھاتے میں سہی میں نے تو آپ کو چائے کے لئے بلایا کہ اسی پر بات بھی ہو جائے گی۔ میں نے پھر گوش گزار کیا کہ سر چائے تو میں پرویز رشید جب منسٹر تھا اس کے ساتھ بھی پی چکا اور قمر الزمان کائرہ کے ساتھ بنجوسہ جھیل پر بھی پی چکا جب وہ گورنر گلگت بلتستان تھے۔ مزید یہ کہ چائے تو سول و عسکری آفیسرز کے ساتھ بھی پی ہوئی ہے۔ اپنے تجربے سے کہہ سکتا ہوں کہ چائے مجھے ہمیشہ مہنگی پڑی ہے۔

وہ پھر قہقہہ لگانے لگے۔ میٹنگ بہر حال خوشگوار موڈ پر ختم ہو گئی اور میں واپس آ گیا۔ اگلی صبح مجھے اپنے دوست لکھاری حسن معراج سے ملنے جانا تھا۔ جیسے ہی رنگ روڈ پر چڑھا مجھے ان کی کال آ گئی کہ کدھر ہو؟ جیسے ہی کال اٹینڈ کی وہی ٹریفک وارڈن موجود تھا۔ مجھے اس نے گاڑی سائیڈ پر لگانے کا اشارہ کیا۔ میں جیسے ہی گاڑی سے اترا تو پہچان کر بولا "مرشد۔ مرشد۔ مرشد"۔ میں نے کہا کہ اوکے مرید کاٹو چالان۔ بولا "مرشد پانچ سو کا چالان ہے مگر آپ سے 300۔ بس دعا کر دیا کریں"۔

اب اس مرید کو کون بتاتا کہ مرشد کی دعا میں اثر ہوتا تو مرشد دو دن میں گیارہ سو کے خسارے میں نہ چل رہا ہوتا۔

Check Also

Tareeki Mein Doobti Dunya

By Khalid Zahid