Mulla Muzaffar
مُلا مظفر

یہ داستان ہے بادشاہی مسجد کے خطیب جنہیں خطیبِ اعظم پاکستان کا لقب عطا ہوا سید نور الحسن شاہ صاحب کے بیٹے سید مظفر حسین شاہ عرف مُلا مظفر کی، جس نے جرائم کی دنیا میں نئے باب کا اضافہ کیا۔ اس سے پہلے کہ مُلا مظفر کے جرائم اور اس کے انجام پر روشنی ڈالوں، اس کا پسِ منظر دیکھنا ضروری ہے کہ اس نے کیسے ماحول میں پرورش پائی جس نے اس کی زندگی کا رخ بدل کر رکھ دیا۔
بادشاہی مسجد ایک کونہ ہے اس علاقے کا جسے ٹکسالی گیٹ کہتے ہیں۔ اندرون ٹکسالی میں بازارِ حُسن سنہ 2003 تک بھی کبھی آباد تھا جسے عرف عام میں ہیرا منڈی کہتے ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر سنہ 2003 تک پون صدی میں معروف رقاصائیں اور فلمی ہیروئنز نے وہاں سے جنم لیا۔ نواب، سیاستدان، بیوروکریٹس، تاجروں سمیت ہر شعبہ زندگی کے لوگ یہاں آتے رہے اور دادِ عیش دیتے رہے۔ ہیرامنڈی ایسی نرسری رہی جہاں جرم پرورش بھی پاتا تھا، پلتا بھی تھا اور پابندِ سلاسل بھی ہوتا تھا۔ تھانہ ٹبی کا ریکارڈ چیک کر لیں تو آپ انگلیاں دانتوں میں داب لیں گے۔ یہیں سے نامور فنکارائیں کچھ زندہ بامِ عروج پر پہنچیں اور کچھ قتل ہونے کے بعد معمہ بن کر چھائی رہیں۔ وہ نادرہ ہو یا نیناں۔
اس بازار کا ایک سرپرست ماما مُودا تھا۔ اس بازار سے وابستہ نائیکہ، دلال، رقاصائیں اس کو جگ ماما بھی کہتے تھے۔ جگ ماما ایک قسم کا گاڈ فادر تھا۔ کوٹھوں کے آپسی تنازعات، لین دین کے معاملات یا رقاصاؤں کی آپسی رنجشیں طے کرنے اہلیان محلہ تھانے کی بجائے ماما مودا کے پاس جاتے تھے۔ ساٹھ سے اسی کی دہائی تک ایسا دور رہا جہاں آئے دن ہیرا منڈی میں لڑائی جھگڑا ہوتا تھا۔ لوگ شراب و کباب کے نشے میں ایک دوسرے سے لڑ پڑتے تھے۔ مُلا مظفر نے اپنے دو بھائیوں کے ساتھ بادشاہی مسجد میں خطیب اعظم کے ہاں پرورش پائی لیکن جس ماحول میں پرورش پائی وہ بازارِ حُسن کا تھا۔ اندرون ٹکسالی گیٹ پر فن و ثقافت کا ریشمی خوشنما غلاف تھا لیکن اس کے اندر جرم کی دنیا پرورش پاتی تھی۔
ٹکسالی کے باہر مُلا مظفر اپنے اڈے پر چارپائی ڈالے بیٹھتا تھا۔ اس کا پیشہ مال برداری کا تھا۔ شاہ عالمی میں بلا ٹرکاں والا کا گڈز ٹرانسپورٹ کا اڈہ تھا تو ٹکسالی کے باہر مُلا مظفر کا گڈے کا اڈہ تھا۔ اس زمانے میں ٹرکوں سے زیادہ گڈے چلتے تھے۔ بلٹی آتی تھی لوگ اپنا مال لے جاتے تھے یا لوگ اپنا مال بلٹی کرانے آتے تھے۔ یہ مال برداری کا اڈہ تھا۔ اڈے پر مُلا مظفر کے تین چار گاڈی تھے۔ گاڈی وہ لوگ ہوتے ہیں جو بھاری سامان گڈوں سے اتارتے یا چڑھاتے ہیں۔ یہ مضبوط جسامت کے حامل لوگ تھے۔ ایک گاڈی سے کسی معمولی بات پر تکرار شروع ہو جاتی ہے۔ مُلا مظفر کے ساتھ اس کا ایک پرانا دوست بیٹھا ہوتا ہے۔ وہ طیش میں آ کر گاڈی کو زد و کوب کرنے لگتا ہے۔ مُلا مظفر بھی طیش میں آ جاتا ہے اور گاڈی کو ٹانگ پر گولی مار کر زخمی کر دیتا ہے۔ یہ سنہ 74 کا قصہ ہے۔ مقدمہ درج ہوتا ہے اور پولیس ان دونوں کو جیل بھیج دیتی ہے۔
علاقے میں مُلا مظفر کی نیک نامی اس کے والد اور اس کے حسب نسب کے سبب بہت زیادہ تھی۔ اس واقعہ کے بعد اس کی شہرت کچھ ایسی ہو جاتی ہے کہ شاہ صاحب کا بیٹا ہے لیکن اتھرا بہت ہے۔ پہلی بار جیل گیا اور وہاں اس کی عزت ایسی ہوئی کہ قیدی اس کی خدمت از خود کرتے تھے۔ جیل میں مُلا مظفر دستیاب ساری سہولیات کے ساتھ رہا۔ زندگی میں یہ سات بار جیل گیا اور کُل ملا کر گیارہ سال جیل کاٹی لیکن جیل عملے سے لے کر قیدیوں تک میں اس کا دبدبا تھا۔
سینٹرل جیل لاہور میں جہاں مُلا مظفر قید کاٹ رہا تھا وہاں بڑے بڑے نامی قاتل گینگسٹرز بھی موجود تھے ان میں ایک لاہور کا مشہور قاتل کالو شاہ پوریا بھی تھا۔ اس کی وہیں ایسے سند یافتہ جرائم پیشہ لوگوں سے دوستیاں بنتی ہیں۔ ایک دن اس کو اطلاع ملتی ہے کہ اس کا بھائی قتل ہوگیا ہے۔ اس کے بھائی کا کسی اعجاز نامی شخص کے ساتھ جھگڑا ہوتا ہے اور وہ اسے قتل کرکے فرار ہو جاتا ہے۔ کچھ عرصے بعد اعجاز مُلا مظفر کے دوسرے بھائی کو بھی بادشاہی مسجد کے صحن میں گولی مار دیتا ہے۔ بادشاہی مسجد کے اندر قتل کا یہ پہلا اور آخری واقعہ ہے۔ دونوں بھائی قتل ہو جاتے ہیں۔ اب مُلا مظفر کو اعجاز سے اپنے دو بھائیوں کے قتل کا انتقام لینا ہے اور اس کے لیے اسے جیل سے نکلنا ہے۔
جیل سے رہا ہو کر مُلا مظفر اعجاز کی تلاش میں کراچی جاتا ہے۔ اسے اپنے جرائم پیشہ جیل میں بنے دوستوں کے نیٹورک سے اعجاز کی خبر ملتی ہے کہ وہ کراچی میں روپوش ہے۔ یہ اعجاز کو جا لیتا ہے اور اسے پکڑ کر اس کی کنپٹی پر گراری والے ریوالور سے گولی چلاتا ہے۔ گولی دائیں سے بائیں پار ہو جاتی ہے۔ یہ اعجاز کو خون میں لت پت چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔ جب یہ لاہور واپس پہنچتا ہے تو اسے اطلاع ملتی ہے اعجاز معجزاتی طور پر بچ گیا ہے۔ اس کی بینائی چلی گئی ہے مگر جان بچ گئی ہے۔
لاہور آ کر یہ اپنے مقتول بھائی کی یاد میں ٹکسالی گیٹ کے باہر ایک ہوٹل کھولتا ہے۔ وہ ہوٹل آج بھی قائم ہے۔ ہوٹل کا نام ہے "ظہور شہید ہوٹل"۔ ایک دن یہ ہوٹل پر بیٹھا ہے کہ اعجاز جو اب نابینا ہو چکا ہے وہ اپنے درجن بھر ساتھیوں سمیت حملہ آور ہوتا ہے۔ ہوٹل پر گولیوں کی برسات ہوتی ہے۔ مُلا مظفر کو گولیاں لگتی ہیں۔ زخمی ہونے کے باوجود مُلا جوابی فائرنگ کرتا ہے جس سے اعجاز پارٹی کی طرف سے آئے حافظ زوہیب بٹ کا قتل ہو جاتا ہے۔ زوہیب بٹ جماعت اسلامی لاہور کے سرکردہ رہنما حافظ سلمان بٹ کے چھوٹے بھائی تھے۔
مُلا مظفر اس حملے میں پانچ گولیاں کھا کر بھی جانبر ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ ڈیرہ بنانے کا سوچتا ہے۔ ٹکسالی کے باہر اب گینگ وجود میں آ چکا ہے۔ گینگ میں مُلا مظفر کے جرائم پیشہ دوست ہیں۔ ان کا کام بھتہ لینا ہے۔ ہیرا منڈی کی طوائفوں سے، تاجروں سے، ماما مودا سے۔ اس کو یہ پروٹیکشن منی کہتے تھے۔ لیکن جرم کی دنیا میں علاقہ مختص ہوتا ہے۔ شاہ عالم کے اطراف بلا ٹرکاں والا تھا۔ ٹکسالی کے اطراف مُلا مظفر بیٹھا تھا۔ گوالمنڈی میں گوگی طیفی بٹ تھے۔ یہ ساری چودراہٹ کی جنگ تھی۔
ٹکسالی کے اطراف بلو نامی ایک نوجوان لونڈا تھا جس کا باپ رینجرز کا اعلیٰ افسر تھا۔ لیکن اپنے بیٹے کی کارستانیوں سے تنگ آ کر والد نے اسے عاق کر دیا تھا۔ بلو کا مسئلہ بدمعاشی تھا۔ وہ راہگیروں کو برائے فن اذیت دیتا۔ ہیرا منڈی جا کر غل غپارہ مچاتا۔ ہوائی فائر کرتا۔ الغرض اس نے پولیس اور مقامی شہریوں کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ ایک دن تنگ آ کر پولیس اسے پکڑ لیتی ہے۔ مُلا مظفر کو کوئی کہتا ہے کہ بلو دراصل اعجاز پارٹی کا حصہ ہے اور اعجاز کی شہہ پر تمہارے علاقے میں ایسی حرکتیں کرکے تمہارا نام نیچا کرنا چاہتا ہے۔ مُلا مظفر اپنے ساتھی ذیشان ترکھان کو ساتھ لیتا ہے اور تھانے پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔ اس کا مقصد تھانے میں گھس کر بلو کا قتل کرنا تھا۔ وہاں پولیس سے مقابلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس میں تین پولیس اہلکار زخمی ہوتے ہیں۔ مُلا اپنے دوست سمیت فرار ہو جاتا ہے۔ مقدمہ مُلا مظفر پر درج ہوتا ہے۔
مُلا نے ساری زندگی جرم کی دنیا میں گزار دی۔ جیل جاتا رہا۔ باہر آتا رہا۔ بلو کو کسی نے قتل کر دیا اس کا مقدمہ بھی مُلا مظفر پر ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ جگ ماما یا ماما مودا جو ہیرا منڈی میں اس شعبے سے وابستہ افراد کا سرپرست تھا اس نے تنگ آ کر دو مشہور اجرتی قاتلوں کو مُلا مظفر کی سپاری دے دی۔ وہ تھے حنیفہ اور بابا۔ جن کے بارے میں پہلے تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔ ایک دن مُلا مظفر اپنے جگری دوست بھولا کے ساتھ گاڑی پر لوہاری گیٹ کی سمت جا رہا تھا۔ حنیفہ اور بابا موٹرسائیکل پر آئے۔ کاشنکوف کے برسٹ مارے۔ مُلا مظفر اپنے ساتھی سمیت مارا گیا۔
جیسا کہ میں لاہور گینگ وار کے بہت سے کرداروں کا ذکر کرتا آ رہا ہوں۔ اس گینگ وار کا کوئی بھی کردار طبعی موت نہیں مرا۔ اس میں اہل سیاست ملوث ہیں۔ پولیس ملوث ہے۔ بیوروکریسی ملوث ہے۔ یہ ایک ناول یا مکمل ویب سیریز کا مضمون ہے۔ ہر کردار ایک الگ کہانی ہے۔ یہ سب کردار کہیں نہ کہیں آپس میں ملتے ہیں یا ٹکراتے ہیں۔ انگریزی کا ایک محاورہ ہے
If you live by sword you die by sword۔

