Mulk Aage Barh Raha Hai
ملک آگے بڑھ رہا ہے

مڈل ایسٹ کا منظرنامہ خوشگوار تبدیلی کی جانب جاتا محسوس ہو رہا ہے۔ ایرانی پراکسی حزب اللہ کے لیڈر نائم قاسم نے واضح بیان دیا ہے کہ ان کی تنظیم اور اسلحہ سعودیہ کے خلاف نہیں ہے۔ اسی طرح کی تبدیلی یمن میں حوثیوں کی جانب سے بھی دیکھنے کو آئے گی۔ ان کاوشوں میں پاکستان نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ عرب دنیا میں شیعہ سنی لڑائی تیزی سے سمٹ کر شیعہ سنی اتحاد کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اس میں جہاں پاکستان کا نمایاں کردار ہے وہیں سعودیہ ایران دونوں ممالک کے حکمرانوں نے بھی وقت کی ضرورت کو اچھے سے محسوس کر لیا ہے۔ جیسا کہ میں نے لکھا تھا سعودی ولی عہد محمد بن سلمان بہت دوراندیش انسان نکلا ہے۔
باوثوق ذرائع سے سننے کو مل رہا ہے کہ امارات اور بحرین بھی پاکستان کے ساتھ سعودی نوعیت کا دفاعی معاہدہ کرنے جا رہے ہیں۔ یہ کنفرم تو تب ہی ہو پائے گا جب حتمی طور پر کچھ سامنے آ جائے مگر پس پردہ کچھ معاملات اس حوالے سے چل رہے ہیں۔ اگر یہ دو طرفہ مفاداتی نتائج پر منتہج ہوتے ہیں اور معاہدہ ہوتا ہے تو پاکستان کے واسطے خوش آئند ہے۔
احباب پوچھتے ہیں اس سے ہمارا کیا فائدہ ہوگا۔ ان کے مطمع نظر مالی فائدہ ہوتا ہے یعنی کیا عوام کا معیارِ زندگی ان معاہدوں کے توسط سے بلند ہو جائے گا یا کیا پاکستان خوشحال ہو جائے گا۔ خوشحالی کے واسطے بڑے معاشی معاہدوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس جانب بھی سفر جاری ہے لیکن دفاعی معاہدے کسی بھی ملک کی شناخت کو مستحکم بناتے ہیں۔ ہمارا فائدہ کیا یہ کم ہے کہ پاکستان دنیا کے سٹیج پر ایک طاقت بن کر ظاہر ہو رہا ہے۔ ہمارا تشخص سنور رہا ہے۔ تشخص کی بحالی بہت بڑی کامیابی ہوتی ہے۔ بڑے معاشی معاہدے بھی ہوں گے۔ معیشت کا تعلق فارن انویسٹمنٹ سے بھی ہوتا ہے اور اس کے واسطے کسی ملک کا تشخص بہتر ہونا اہم ہوتا ہے۔
یہ محاذ پاکستان نے عسکری اور سفارتی سطح پر فتح کیے ہیں۔ پاکستان نے چینی، امریکی اور یورپی اسلحے کو ایک ہی چھتری تلے ڈھال کر یا ایک ہی نیٹورک کا حصہ بنا کر ان کو آپس میں sync کرکے استعمال کرتے ہوئے دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ یہ ناممکن سا کام ہے۔ یہ ہمارے دفاعی انجینئیرز کا کارنامہ ہے۔ یہ نظام ہائبرڈ ہے۔ جس کی فیصلہ سازی میں فوجی ایلیٹ شامل ہے۔ ان کا بڑا سٹیک ہے۔ اپنے سٹیک کی خاطر بھی وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کسی طرح آگے بڑھے۔ دوسرا عنصر مجبوری کا ہے۔
پاکستان کے سیاسی حالات اس بات کے متقاضی بن گئے کہ سسٹم جیسا بھی ہو اب وہ ڈلیور کرے۔ اگر نہ کر پائے تو لمبا عرصہ قائم رہ پائے گا نہ پاپولریٹی کا فسوں ٹوٹ پائے گا۔ ان حالات کی وجوہات میں نہیں جانا چاہتا وہ آپ سب جانتے ہیں۔ لہذا یہ مجبوری بھی ہے کہ پرفارم کرنا ہے۔ ملک کو مستحکم بنانا ہے۔ اس کا تشخص بحال کرنا ہے۔ معیشت کے پہئیے کو پہلے پہل دھکا دینا ہے اور پھر وقت کے ساتھ اسے روانی سے چلانا ہے اسے مضبوط بنانا ہے۔ پاپولریٹی کو ڈانگ سوٹے سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ایک ہی حل تھا کہ ڈلیوری یا پرفارمنس۔ ہر بار فارم 47 جیسی حکومتیں بنانا بہت کٹھن ہوتا ہے۔ میں ان سب کاوشوں کے پیچھے اس ہائبرڈ سسٹم کو درپیش مجبوری کا ہاتھ بھی سمجھتا ہوں۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ ملک ہولے ہولے آگے بڑھ رہا ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ جیسے ہی پاکستان کچھ بڑھنے لگتا ہے یا معاشی اشاریے درست ہونے لگتے ہیں توں ہی کوئی نہ کوئی عالمی کٹا کھُل کر ہمارے گلے آن پڑتا ہے۔ پھر پاکستان کارنر ہو جاتا ہے۔ ایک ہسٹری ہے۔ اچھے کی اُمید رکھنا چاہئیے اور اچھے کی دعا کرنا چاہئیے۔ تاحال ہم عالمی منظر نامے پر درست سمت میں چل پڑے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے اندر بھی درست سمت میں قدم بڑھا کر سیاسی افراتفری یا پولرآئزیشن کو ختم کرنے کی جانب بڑھا جائے۔ اس مقصد کے لیے سیاستدانوں کو ٹیبل ٹاک پر بیٹھنا پڑے گا اور مقتدرہ کو بھی سیاستدانوں کو کچھ سپیس دینا ہوگی۔ وہ چاہے حکومتی سائیڈ کے ہوں یا مخالف سائیڈ کے۔ ان سب کو سپیس دیں گے تو شاید کوئی پرامن سیاسی حل بھی نکل سکے۔ ڈنڈا سیاسی مسائل کا دیرپا حل نہیں ہو سکتا۔ ڈائیلاگ کی روایت قائم کرکے اور ناراض سیاسی و غیر سیاسی لوگوں کو قومی دھارے میں لا کر ہی مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
وطن کی توقیر میں ہی عوام کی توقیر ہے۔ ہم لوگوں نے اسی ملک میں جینا مرنا ہے سو اس کو رتی ماشے برابر آگے بڑھتا دیکھ کر بھی ٹنوں کے حساب سے خوشی ہوتی ہے۔ دعا ہے کہ جو اُمیدیں ہیں وہ بھر آئیں، کسی موڑ پر ٹوٹ نہ جائیں۔ اس قوم کی چھہتر سالوں میں سینکٹروں بار اُمیدیں ٹوٹی ہیں۔ جیسے دودھ کا جلا چھاج بھی پھونک کر پیتا ہے ویسے ہی دل کو اُمید کے ساتھ انہونی کا دھڑکا سا بھی لگا رہتا ہے۔

