Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Molvi Hazrat Ka Irtiqa

Molvi Hazrat Ka Irtiqa

مولوی حضرات کا ارتقاء

ایک زمانہ تھا کہ جب دین نہ ہی کاروبار بنا تھا اور نہ ہی اس میں دکھاوا آیا تھا، سادگی کا دور دورہ تھا۔ شام ہوتی تو اماں کہتی کہ مولوی صاحب کو کھانا دے آؤ۔ مولوی صاحب بھی دو وقت کی روٹی کھا کر خدا کا شکر ادا کرتے اور محلے کے بچے پڑھا کر اطمینان سے رہتے۔

ابھی مسجد کی راہ سیاست نے نہیں دیکھی تھی۔ تھوڑی بہت جو سیاست کر بھی رہے تھے وہ بھی اپنے رکھ رکھاؤ اور عزتِ نفس سے دستبردار نہیں ہوئے تھے۔ انہیں بھی معلوم تھا کہ وہ صرف اپنے خدا کو ہی جوابدہ ہیں، ابھی دوسرے جواب طلب کرنے والے میدان میں نہیں اترے تھے۔

اب جو دیکھتے ہیں تو مولوی صاحب لینڈ کروزر میں بیٹھے ہیں اور ان کی حفاظت کے لئے ہتھیار بند چاک و چوبند بیٹھے نظر آتے ہیں۔ مسجدوں پر پہرہ ہے اور اگر کوئی نماز پڑھ رہا ہے تو کلاشنکوف بردار بھی ساتھ میں حفاظت کے لئے کھڑا ہے۔

جب ستر کی دہائی میں مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں تیل کے کاروبار میں ابھار آیا تو ہمارے جیسے مسلم ممالک کی بھی قسمت کھلی۔ محنت مزدوری کرنے والے اور ہنر پیشہ لوگ بھی چل پڑے اپنی اپنی قسمت آزمانے۔ اس طرح یہاں بھی جو تنگدستی کی زندگی گزار رہے تھے ان کے بھی حالات بدلے اور آہستہ آہستہ لوگوں کے رہن سہن میں بھی بدلاؤ آنے لگا۔ مسجد اور مولوی کے بھی حالات بہتر ہوئے تو مدرسوں میں بھی اضافہ دکھائی دیا اور مذہبی پارٹیوں نے بھی آہستہ آہستہ زور پکڑنا شروع کیا۔

سنہ 77 میں نظامِ مصطفےٰ کی تحریک چلی جس کا نعرہ تھا سنہ 70 والی قیمتیں واپس لائیں گے، قیمتیں تو کیا واپس آنی تھیں البتہ پاک افواج نے ایک بار پھر جنرل ضیا کی سربراہی میں ملک کی باگھ دوڑ اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ پھر اقتدار میں آنے والوں نے دین کا سہارا لیا اور اذانیں جو مسجد سے ہوتی تھیں اب ٹی وی پر بھی سنائی دینے لگیں، اب مسجد کا مولوی بھی سترہویں گریڈ کا حقدار مانا گیا۔ نمازیں نا صرف مساجد میں، اب دفاترمیں بھی لازم ٹھہریں۔ اب جو نماز کا بہانہ ملا تو دفاتر میں کام نہ کرنے کی ابتدا بھی ہوئی۔

ادھر دو سال بعد سوویت یونین کی افواج نے کابل پر جھنڈے گاڑے تو پھر پاک فوج اور مولوی حضرات کے وارے نیارے ہوگئے۔ امریکہ سرکار نے جہاد کے نام پر دنیا بھر سے غنڈے بھرتی کرکے ڈالروں اور ہتھیاروں سمیت پاکستان بھیجنے شروع کئے۔

دینی جماعتیں جو آج امریکہ کے نام سے بھی آگ بگولہ ہوجاتی ہیں، انہی کے پیسوں پر پھلنا پھولنا شروع کیا، جہاد کے نام پر آئے ڈالروں سے نہ صرف انہوں نے اپنے گھر بھرے، مسجدیں تعمیر کیں، مدرسے بنائے۔ بلکہ جنرلز بھی کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور ڈیفنس سوسائٹیز کا کاروبار تو پھلا پھولا ہی لیکن دوسرے کاروباری شعبوں میں بھی اتنی سرمایہ کاری ہوئی کہ آج ملک کی معیشت میں بڑی رقم اپنے وردی والے بھائیوں کی ہی لگی ہوئی ہے۔

انہوں نے نہ صرف مذہبی گروہوں میں پیسہ لگایا بلکہ سیاسی پارٹیاں بھی کھڑی کیں، بڑے بڑے کاغذی شیر بھی بنائے، لوگوں کو برادریوں اور فرقوں میں بانٹا، جتھے بنائے، لشکر بنائے اور سب کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا کر دیا۔

اقلیتوں کا تو کوئی والی وارث ویسے بھی نہیں تھا، لیکن اب تو مسلمان بھائی ایک دوسرے کو بھی مسلمان ماننے کے لئے تیار نہیں۔ اب دین جو کاربار بنا ہے تو اس میں پیسہ ہی پیسہ ہے۔ بینک بھی اسلامی ہے تو ٹی وی چینلز بھی اسلامی، کپڑا بیچنا ہے یا نیا فیشن لانچ کرنا ہے یا پھر تیل مصالحہ اور کھانے کی ترکیب، اسلام کا تڑکا لگائیں، آپ کو کہاں سے کہاں پہنچا دے گا۔

پہلے ہم اگر مولوی حضرات کو دیکھتے تو ان کے لباس اور داڑھی کی تراش خراش سے ہی پتہ لگ جاتا کہ کس جماعت یا مسلک کے پیروکار ہیں لیکن اب تو اتنے قسم کی ٹوپیاں، داڑھی کے اسٹائل، لباس کی تراش خراش، پگڑی کے رنگ، پھر ان کو باندھنے کے طریقے اور پھر لباس بھی الگ الگ رنگ کے، ان پر بیل بوٹے یا کڑھائی، ان سب کو وہ اسٹیٹمینٹ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

پھر اگر خواتین کے فیشن دیکھیں تو آپ فیشن ہی بھول جائیں گے، جس کے پاس جتنا پیسہ ہے وہ اس کے نقاب سے ہی پتہ لگ جاتا ہے، میک اپ، دستانے، جرابیں اور جوتے چیخ چیخ کر بتا رہے ہوتے ہیں کہ ہم بھی کسی سے کم نہیں۔

آپ بھی سوچ رہے ہوں گے یہ سب آخر کہاں دیکھیں گے۔ ویسے تو اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو سب دکھائی دے گا لیکن دور نہ جانا چاہیں تواپنا ٹی وی آن کرلیں۔ بس صرف چینل بدلنے کی ضرورت ہے، دیکھتے جائیں، کتنے قسم کی داڑھیاں ہیں، کتنے قسم کی نقابیں ہیں، حالات حاضرہ کا چینل ہو یا فیشن کا، کھانے پکانے کا پروگرام ہو یا پھر ڈرامہ، بھائی لوگوں نےکچھ بھی نہیں چھوڑا، مجھے تو چکر آگئے جب چینل بدلتے بدلتے فلم سے متعلقہ ایک چینل "فلمیزیا" پر پہنچا، انہوں نے بھی ایک مولوی بٹھایا ہوا تھا۔

جن کا دین سے کچھ بھی لینا دینا نہیں وہ بھی دین کو بیچ رہے ہیں، سب کو اپنی ریٹنگ کی فکر ہے، کسی کی کوئی بھی شہرت ہو، کوئی بھی پس منظر ہو لیکن بن سنور کے ہمیں دین کی خوبیاں بتا رہا ہے۔ ساحر لودھی بھی دین بتاتا ہے وہ جاتا ہے تو دوسرے چینل پر ساحل عدیم آ جاتا ہے۔ آج کل جو بک رہا ہے وہ بھی وہی بیچ رہے ہیں، کل جو بکنے کی امید ہوگی پھر وہ بھی وہی بیچیں گے۔ سارا مسئلہ ریٹنگ کا ہے۔

Check Also

Lahu Ka Raag

By Mojahid Mirza