Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Mian Sahib

Mian Sahib

میاں صاحب

میاں صاحب بہت پرانے شناسا ہیں اور سابقہ کولیگ رہے۔ آبائی شہر سیالکوٹ سے میں نے ہجرت کی تو تین سال بعد وہ بھی بسلسلہ بچوں کی تعلیم و یونیورسٹی وغیرہ کے لیے لاہور منتقل ہو گئے۔ مالی لحاظ سے کھاتے پیتے خاندانی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں مگر ایک ایک پائی سوچ سمجھ کر اور خوب بحث کرکے صرف کرتے ہیں۔ مجھے حسبِ اِمسال کال کرکے کہنے لگے کہ بکروں کی خریداری واسطے تم نے جو بندہ بتایا تھا وہ تو سب بیچ چکا ہے اب مجھے کہیں سے لے کر دینا تمہاری ذمہ داری ہے۔ میں نے ہنس کر جواب دیا کہ میاں صاحب آپ نے دیر کر دی ہے اب اس سلسلے میں کچھ نہیں ہو پائے گا کیونکہ میں کسی بیوپاری سے آشنا نہیں۔

بات سُن کر بولے کہ اچھا، پھر ساتھ تو چلو، منڈی جا کر دیکھ لیتے ہیں۔ اتوار کی شام ہم دونوں لاہور ایل ڈی اے کے اطراف واقع ایک منڈی میں پہنچے۔ کافی دیر گھومتے رہے۔ بکروں کے نرخ ڈالر کی قیمت زیادہ چڑھے ہوئے تھے۔ گھنٹہ خجل خواری کے بعد میاں صاحب بھی مایوس ہونے لگے۔ پھر بولے "ٹھوکر نیاز بیگ کی جانب چلتے ہیں، ملتان روڈ پر بڑی منڈی لگتی ہے، شاید وہاں سودا بن جائے"۔ میں نے گاڑی اس جانب ڈال دی۔

وہاں بھی بکروں کے نخرے آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔ آخر ڈیڑھ گھنٹہ کی تلاش کے بعد میاں صاحب کو ایک جوڑی بھا گئی۔ بیوپاری نے قیمت کافی بڑھا چڑھا کر بتائی۔ میاں صاحب اس سے بحث کرتے رہے اور پھر زچ ہو کر میرے پاس آئے "بخاری تم اسے کسی طرح منا لو بس۔ مجھے یہ جوڑی چاہئیے"۔ میں نے بکروں کو دیکھا۔ شکل و صورت سے تو عام سے بکرے ہی لگ رہے تھے۔ میں نے کہا "میاں صاحب مہنگے ہیں تو پھر چکر لگا لیجئے گا۔ اس جوڑی میں ایسی کیا خاص بات نظر آ گئی جو آپ کو لازمً چاہئیے؟" آنکھیں گھما کر بولے "یار اس کی بُو داڑھی ہُو بہُو دادا مرحوم سے ملتی ہے۔ "

بیوپاری درمیانی عمر کا آدمی تھا۔ میں نے اسے بہت سمجھانا چاہا کہ قیمت مناسب کر لو مگر وہ قبلہ خان صاحب کی مانند ڈٹ کے کھڑا رہا۔ زچ ہو کر میں نے بھی اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا اور میاں صاحب کو کہا کہ اِدھر سے چلیں۔ وہاں سے نکل کر گاڑی میں بیٹھے۔ میاں صاحب بے چین سے لگ رہے تھے۔ آخر پھٹ پڑے " تم نے اس سے سودا طے کرنے کی بجائے خراب کر دیا۔ کچھ قیمت گھٹا لیتے تو ٹھیک تھا مگر تم تو چل دئیے"۔ میں نے میاں صاحب کی بے چینی دیکھی اور سوچا کہ ان کو مطمئن کرنے کو کیا کہا جائے۔ مجھے اور تو کچھ ناں سوجھا میں نے کہہ دیا "میاں جی بکرے ٹھیک نہیں تھے"۔ میاں صاحب چونک کر بولے "کیوں؟ کیا مسئلہ تھا اُن میں؟"

"میاں صاحب، ایک تو وہ پی ٹی آئی کے لگ رہے تھے۔ دونوں غصے سے بھرے کھڑے تھے اور ایک تو شاید سوشل میڈیا ٹیم کا ممبر تھا، اس کے منہ سے جھاگ بہہ رہی تھی۔ بیوپاری بھی حقیقی منافع کی خاطر ڈٹ کے کھڑا تھا۔ دوسرا مجھے لگتا ہے کہ بکروں نے نو مئی کے واقعات کی مذمت بھی نہیں کی ہوئی۔ تیسرا میں نے غور سے دیکھا ہے وہ پی ڈی ایم کی مانند مکمل خصی نہیں تھے۔ جبکہ میاں صاحب خصی جانور کی قربانی افضل رہتی ہے"۔ میاں صاحب میری گفتگو سُن کر ہنسے اور بولے "ہُن اے ناں آکھ دینا کہ اُنہاں نے پچھواڑہ پنڈی ول کیتا ہویا سی تے بے ادبی دے مرتک ہو رہے سن" (اب یہ ناں کہہ دینا کہ بکروں نے اپنی پشت پنڈی کی جانب کر رکھی تھی اور بے ادبی کے مرتکب ہو رہے تھے)۔

ویسے ہم دونوں نے پلٹ کے دیکھا تو یہی پایا کہ وہ پنڈی کی سمت پشت کیے ہی کھڑے تھے۔ میں نے میاں صاحب کی مزید تسلی کی خاطر پھر کہا "نان خصی چل جائے گا مگر گستاخ ہرگز نہیں"۔ مولا کا شکر کہ میاں صاحب بات سمجھ گئے اور زیرِ لب بولے "آہو، ہُن ایس عمر وچ تھانہ تے کورٹ کچہری نئیں بھگتی جا سکدی"۔

Check Also

Tareekhi Merger

By Khateeb Ahmad